ایک ملاقات: کراچی آرٹس کونسل میں احمد شاہ، کے ساتھ …حمیرا گل تشؔنہ

کراچی کی شام، جس پر سمندر کی نم ہوا اور شہر کی بے چین توانائی کا امتزاج طاری تھا، اور ایسے وقت میں، میری گاڑی کا رخ ایک ایسی عمارت کی طرف تھا جو کسی معبدِ فن سے کم نہیں۔ جی صحیح پہچانا، یہ کراچی آرٹس کونسل تھا۔ اس کی دیواریں نہ صرف پتھر اور چونے سے بنی ہیں بلکہ یہ شہر کی ثقافتی روح، اس کے فنکاروں کے خوابوں اور ایک شخص کے عزم کی داستان بھی سناتی ہیں۔ وہ شخص جس نے اس خواب کو حقیقت کا روپ دیا، جناب احمد شاہ۔
وہ اپنے معمول کے مطابق ایک میٹنگ میں مصروف تھے لیکن اپنی میٹنگ چھوڑ کر آفس میں ملنے آئے۔ ان کے چہرے پر ایک سکون تھا، آنکھوں میں چمک تھی، اور مسکراہٹ میں ایک ایسی گرمجوشی تھی جو فوری طور پر ہر اجنبی کو اپنا بنا لیتی ہے۔ مجھے اپنے آفس میں دیکھتے ہی ان کا کہنا تھا، “آؤ آؤ تشؔنہ، بیٹھو۔ یہ گھر تمہارا اپنا گھر ہے۔” اور یہی جملہ دراصل آرٹس کونسل کے پوری فلسفے کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک ایسی جگہ جو ہر فن کے دلدادہ کے لیے اپنے دروازے کھلی رکھتی ہے۔
بات شروع ہوئی تو انہوں نے اس سفر کے اولین دنوں کا ذکر کیا۔ احمد شاہ صاحب نے بتایا کہ یہ خیال کس طرح وجود میں آیا۔
آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی میں واقع ایک خود مختار ثقافتی ادارہ ہے جس کا مقصد فن و ثقافت کو فروغ دینا اور فنکاروں کی فلاح و بہبود ہے۔ کراچی، جو پہلے ہی سے ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز تھا، میں ایک ایسے ادارے کو مستحکم کرنے کی شدید ضرورت محسوس ہو رہی تھی جہاں نسل و زبان کے فرق کو مٹا کر تمام فنون — مصوری، موسیقی، تھیٹر، ادب — کو یکجا کیا جا سکے۔
“لوگ کہتے تھے، ‘احمد، یہ شہر تجارت کا شہر ہے، فنون کے لیے یہاں جگہ نہیں۔’ لیکن ہمارا ایمان تھا کہ انسان کی روح کو صرف روٹی ہی نہیں، رنگ و آہنگ بھی چاہیے۔” ابتدائی دنوں کی بات کرتے ہوئے ان کی آنکھیں چمک اٹھیں، گویا وہ اس سفر میں حائل ہونے والی تمام مشکلات کو اپنی سب سے بڑی کامیابی سمجھتے ہوں۔
احمد شاہ صاحب کے نزدیک، آرٹس کونسل محض ایک عمارت نہیں، بلکہ ایک ایسا وجود ہے جو شہر کی ثقافتی زندگی میں سانس لے رہا ہے۔
“ہماری کوشش ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ یہ جگہ ہر کسی کے لیے ہو۔ نامور مصور بھی آئے، اور وہ نوجوان طالب علم بھی جو پہلی بار برش ہاتھ میں لے رہا ہو۔ یہاں موسیقار اپنے راگ سناۓ، اور شاعر اپنے الفاظ کی نزاکت سے ہمیں آشنا کرے۔ ہم نے کبھی کسی کے عقائد یا نظریات کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتا۔ فن ہمارے لیے وسیلہ ہے — انسانیت کو جوڑنے کا، احساسات کو ابھارنے کا، معاشرے کو خوبصورت بنانے کا۔”
انہوں نے خصوصاً نوجوان نسل پر زور دیا۔ “ہمارے یہاں یوتھ فیسٹیول، انٹرن شپ پروگرامز، اور ورکشاپس کا اہتمام اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ نئی صلاحیتیں سامنے آ سکیں۔ میں جب کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کو اپنا پہلا کینوس سنبھالے دیکھتا ہوں، پہلی دفعہ اسٹیج پہ پرفارمنس دیتے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی تمام محنت ایک پل میں پوری ہوتی محسوس ہوتی ہے۔”
آج کے دور میں، جب ثقافتی ادارے مالی اور انتظامی چیلنجز کا شکار ہیں، احمد شاہ صاحب کا نقطہ نظر واضح ہے۔
“جی ہاں، مشکلات بدلتی رہتی ہیں۔ پہلے وسائل کم تھے، اب وسائل کے ساتھ ساتھ توجہ کی کمی ہے۔ لوگ مصروف ہو گئے ہیں۔ لیکن ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس شعلے کو روشن رکھیں۔ حکومت اور نجی شعبے سے بھی ہمیں تعاون درکار ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بیٹھ جائیں۔ ہم نے ہمیشہ عزم اور مستقل مزاجی سے کام لیا ہے۔”
ان کا مستقبل کا خواب آرٹس کونسل کو ایک بین الاقوامی معیار کا ادارہ بنانے کا ہے۔ “میں چاہتا ہوں کہ یہاں سے نکلنے والا ہر فنکار دنیا میں اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کرے۔ ہم ڈیجیٹل آرٹ، فلم سازی، اور نئی میڈیا کی نمائشوں کو بھی فروغ دے رہے ہیں تاکہ وقت کے ساتھ قدم ملا کر چلا جا سکے۔” یہی وجہ ہے کہ ہم ہر سال کلچر فیسٹیول و ایگزیبیشن کرتے ہیں اور پوری دنیا سے لوگ آکر ہمارے پروگرامز کا حصہ بنتے ہیں۔
باتیں چلتی رہیں تو میں نے ان کے شخصی سفر کے بارے میں پوچھا۔ اتنے بڑے ادارے کی بنیاد رکھنے والے شخص کی ذاتی زندگی کیسی ہے؟
تو وہ مسکرا دیے۔ “میرا گھر بھی تو یہی ہے۔ میری فیملی نے ہمیشہ میرا بہت ساتھ دیا۔ اور میں نے کبھی اسے اپنی ذاتی کامیابی نہیں سمجھا۔ یہ تو ایک اجتماعی کاوش ہے، ایک سماجی و ثقافتی وقف ہے۔”
ان کی نظر میں عاجزی اور لگن صاف جھلک رہی تھی۔ وہ اپنے بارے میں بات کرنے سے زیادہ اپنے ساتھیوں، رضاکاروں اور ان تمام فنکاروں کے بارے میں بات کرنا پسند کر رہے تھے جنہوں نے اس ادارے کو سنوارنے میں حصہ ڈالا۔
چائے پینے کے دوران جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اپنے پیچھے کیا ورثہ چھوڑنا چاہیں گے، تو وہ لمحہ بھر کو خاموش ہو گئے۔
“مجھے فرق نہیں پڑتا کہ لوگ مجھے یاد رکھیں۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ اس جگہ کو یاد رکھیں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب کوئی مصور اپنی پہلی پینٹنگ بیچے، کوئی گلوکار پہلی بار اسٹیج سجائے، کوئی نوجوان اپنی تخلیق سے کسی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرے تو اسے یاد رہے کہ کراچی آرٹس کونسل سے اس کی شروعات ہوئی تھی اور یہی بات میرا اصل اثاثہ ہوگا۔ میں نے تو بس ایک بیج بویا تھا، آج یہ درخت ہزاروں شاخیں پھیلائے ہوئے ہے۔ اس درخت کی آبیاری کرتے رہنا، یہی میری سب سے بڑی تمنا ہے۔”
پھر ہنس کر مخاطب ہوئے اور نہایت سادہ لہجے میں پوچھنے لگے، ” تشؔنہ، کیا میں تمہیں بہت مغرور لگتا ہوں؟” اس سوال پر میں حیران ہوکر ان کو دیکھتی رہی۔ میری حیرانی بھانپ کر ہنسنے لگے پھر خود ہی کہنے لگے بھئی، “مجھے لوگ بہت مغرور کہتے ہیں اس لیے پوچھ رہا ہوں۔” مجھے ہنسی آگئی، “بھئی سچ پوچھیں تو سنا تو ہم نے بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ لیکن اپ سے مل کر ایسا کوئی تاثر نہیں ملا۔ بلکہ جو سنا تھا وہ غلط ہی لگا”۔ یہ کہہ کر میں نے ہنسے ہوئے احمد شاہ صاحب سے رخصت لی۔
جب میں آرٹس کونسل سے باہر نکلی تو شام ڈھل چکی تھی۔ عمارت کی روشنیاں جگمگا رہی تھیں، اندر سے موسیقی کی کوئی دھن سنائی دے رہی تھی۔ میں نے مڑ کر ایک نظر اس عمارت کو دیکھا۔ یہ محض اینٹوں کا ڈھیر نہیں تھی۔ یہ ایک شخص کے عزم، ایک خواب کی تعبیر، اور ایک شہر کی ثقافتی شناخت کا استعارہ تھی۔ احمد شاہ صاحب جیسے لوگ کسی قوم کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں ، وہ جو دیکھنے والوں کو خواب دکھاتے ہیں، اور پھر ان خوابوں کو حقیقت میں بدل دیتے ہیں۔
ان کی زندگی کا یہ پیغام ہر نوجوان کے لیے مشعلِ راہ ہے کہ عزم و ہمت سے کوئی بھی خواب شرمندۂ تعبیر کیا جا سکتا ہے، خواہ راستے میں کتنی ہی رکاوٹیں کیوں نہ ہوں۔ احمد شاہ اور کراچی آرٹس کونسل کا سفر اس بات کا ثبوت ہے کہ فن و ثقافت کی محبت ہی انسانیت کو متحد کرتی ہے اور معاشرے میں خوبصورتی اور رواداری کا درس دیتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں