جرمنی میں اس سال 23 فروری کو یہاں کی قومی اسمبلی یعنی بنڈس ٹاگ کے انتخابات ہوئے تھے۔ اس قبل از وقت، صرف تین سال کے بعد ہی انتخابات کی وجہ چانسلر اولاف شولز کی گرین پارٹی اور ایف ڈی پی پارٹی کی کوالیشن حکومت کا خاتمہ تھی، جس کے نتائج کے مطابق یہاں کی کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی نے سب سے زیادہ یعنی 22 اعشاریہ چھ فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ اپنی قریبی سسٹر پارٹی کرسچن سوشل یونین کے ساتھ مل کر کل 28 عشاریہ 6 فیصد ووٹ اس مشترکہ پارٹی کے حق میں پڑے تھے چونکہ سی ایس یو کو صرف چھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ واضح رہے کہ سی ایس یو ایک چھوٹی اور صرف صوبہ ببیریا میں مقبول پارٹی ہے اور وہیں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑتی رہی ہے۔ اور یہ دونوں پارٹیاں ہمیشہ ہی ساتھ ساتھ حکومت یا اپوزیشن میں نمائندگی کرتی رہی ہیں۔ دوسری ابھر کر سامنے آنے والی پارٹی انتہا پسند دائیں بازو کی پارٹی اے ایف ڈی ہے۔ جس کا تمام دوسری پارٹیوں نے متفقہ طور پر بائیکاٹ کیا اور اسی وجہ سے اس کے ساتھ حکومت بنانے کے لیے کسی قسم کی کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ اور اس کے بجائے صرف 16 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہونے والی پارٹی ایس پی ڈی کے ساتھ سی ڈی یو اور سی ایس یو مشترکہ طور پر حکومت بنانے کی بات چیت کا آغاز کیا۔ ان طویل المدتی بات چیت کے دوران نئی حکومت تشکیل دیے جانے کے سلسلے میں معاہدے اور اصول طے کیے گئے اور ان کے تحت حکومت بنانے کا عندیہ دیا گیا۔ اس گفت و شنید کے اختتام پر تینوں پارٹیوں نے اپنے اپنے کارکنوں کو موقع دیا کہ وہ ایک اندرون پارٹی انتخاب کے ذریعے حکومت بنائے جانے کی شرائط اور ان کے نتیجے میں مقرر کیے جانے والے وزراء کی منظوری دیں۔ تینوں پارٹیوں نے ان درون خانہ انتخاب کے بعد متفقہ طور پر حکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔
حکومت بنانے کا اگلا مرحلہ بنڈس ٹاگ کے سامنے حکومت کے سربراہ، چانسلر کی تقرری کا انتخاب 6 مئی کو ہوا۔ چونکہ تینوں پارٹیاں مل کر اکثریتی اور متفقہ طور پر چانسلر کو منتخب کرنے والی تھیں اور امید یہی تھی کہ فریڈرش میرز پارلیمنٹ کے سامنے بطور چانسلر منتخب ہو جائیں گے۔ لیکن جب 6 مئی کی صبح نو بجے بنڈس ٹاگ کی کاروائی کا آغاز ہوا تو، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس تقریب کے اختتام پر کسی چانسلر کا چناؤ نہیں ہو سکے گا۔ اس سے پہلے جرمنی کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ جو پارٹیاں مل جل کر اکثریت میں ہوں اور سیٹوں کے تناسب سے انہیں حکومت کا حق دیا جانا ہو، ان کا نمائندہ بہ آسانی نہ چنا جائے۔ لیکن 6 مئی کے بنڈس ٹاگ کے اندر ہونے والے انتخاب کا نتیجہ مایوس کن ہی نہیں حیران کن بھی تھا۔ اور اس کے مطابق کل 630 ممبروں میں سے 621 نے ووٹ ڈالے جن میں صرف 310 رکن نے فریڈرش میرز کو چانسلر بنانے کی حمایت کا ووٹ ڈالا جبکہ 307 افراد نے ان کی مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ جس میں ایک ووٹ ناقابل عمل بھی تھا، اور تین ارکان نے ووٹ میں حصہ دینے سے اجتناب کیا اس طرح سے فریڈرش میرز کو ایک دو نہیں بلکہ 18 ووٹوں کی کمی سے چانسلر نہ منتخب ہونے کا عندیہ ملا، اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ فریڈرش میرز پہلے بھی ایک متنازعہ شخصیت رہے ہیں اور سابقہ چانسلر انجلیکا
میرکل کے ساتھ ان کے اختلافات کی بنیاد پر وہ پارٹی سے عملی طور پر دور بھی رہ چکے ہیں اور اس الیکشن کے دوران وہ کافی عرصے بعد پہلی مرتبہ اس قدر فعال اور بہت زیادہ پرامید نظر آرہے تھے کہ ان کی چانسلر بننے کی خواہش کو، جسے وہ برسوں سے اپنے دل میں چھپائے بیٹھے ہیں پوری ہوجائے گی۔ مگر ان کی یہ خواہش ایک بار پھر ناکامی میں بدل گئی۔ یہ ایک بڑا جھٹکا تھا جو شاید انہی کی پارٹی یا شاید ان کی حکومت میں شامل کوالیشن پارٹی کے کئی ممبران، مسٹر میرز کو انہیں صرف وقتی طور پر یہ بتانے کے لیے، کہ ان کی رضامندی کے بغیر ان کی حکومت کسی وقت بھی ٹوٹ سکتی ہے، ان کے حق میں ووٹ نہیں ڈالا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مسٹر میرز کسی طور بھی چانسلر نہیں بن سکیں گے۔ چونکہ حتمی فیصلے کے لیے ایک سیکنڈ اور پھر تھرڈ راؤنڈ 6 مئی کو دن کے ڈھائی بجے ہوا۔ جس کے لیے ازسرنو پارلیمنٹ کی کارروائی شروع کی گئی جس سے قبل پارٹی کے اجلاس میں اس بات کا حتمی فیصلہ کیا گیا کہ چانسلر کون بنے گا، چونکہ جرمنی میں حکومت کی تشکیل نہایت ضروری ہے اور دنیا کے سامنے موجودہ صورتحال ناقابل قبول ہے۔
اور پھر آخر کار دوسرے راؤنڈ میں فریڈرش میرز نے 325 ووٹ حاصل کیے اور جرمنی کے نئے چانسلر مقرر ہوگئے۔
اس کے فورا” بعد ہی صدر جمہوریہ جرمنی نے اپنے محل میں نئے چانسلر کو تقرری کی سند عطا کی۔ تاہم جناب میرز کو اندرونی اور بیرونی دباو سامنا ہے۔ امریکی حکومت نیان کی حکومت کا حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی کے ساتھ رویے کو غیر جمہوری قرار دیا ہے۔
جرمنی میں نئی حکومت کی تشکیل تحریر سرور غزالی
