جہاں صارف سوچتا ہے، شہر بولتا ہے شینزن کا کنزیومر سفر ۔ارم زہرا

میں نے شینزن Shenzhen پہنچنے سے ذرا پہلے ہی تیز رفتار ریل کی کھڑکی کے پار اُفق پر ابھرتی نیون لکیریں دیکھ لیں لگتا تھا کسی نے رات کے مخملی پردے میں مستقبل کے چراغ ٹانک دیے ہوں۔ میں میٹرو کی چمکتی سیڑھیاں اُترتے ہوئے اپنے ہی دل کی دھڑکن سن رہی تھی۔ شہر کی ہلکی سی نمی، نمکین سمندر اور دھاتی ٹاوروں کی ملی جلی بُو نے میرا خیرمقدم کیا۔
پہلا منظر گویا ڈیجیٹل مصوروں کی نمائش تھا۔ خودکار دروازوں کے شفاف پینلوں پر اڑتے چینی حروف روشنی کے ننھے پرندوں کی طرح پھڑپھڑا رہے تھے۔ ای-سی این وائی کا ہولوگرام میرے سامنے نمودار ہوا، اور کلائی پر بندھی ایپل واچ نے قدم گنے، سانس کا درجۂ حرارت ناپا اور خفیف سی تھپکی دے کر آگے بڑھایا۔ محسوس ہوا کہ یہاں ہر چیز، صارف کے لمس سے پہلے ہی اس کے ارادے کو پڑھ لیتی ہے۔
شینزن کا ماضی کبھی مچھلی پکڑنے والا چھوٹا سا گاؤں، آج کنزیومر سلطنت کا مرکز بن چکا ہے اور فلک بوس عمارتیں پوری کی پوری اسکرینوں کے پنجرے میں قید اشتہاروں کی طرح ہیں ہر کھڑکی سے کوئی نیا برانڈ جھانکتا ہے۔ بارش کی نمی اور تیزاب جیسے نیون کے امتزاج نے فضا میں انوکھا عطر گھول رکھا تھا۔ سڑک کنارے روبوٹ ٹرالیوں میں رکھی چائے، گاہکوں کو اپنی جانب پکارتی تھی۔ ادائیگی کے لیے میں نے صرف کلائی کو ہوا میں دائرہ بنا کر گھمایا لیزر نے مجھے پہچانا اور سکہ بے صدا ادا ہو گیا۔
یہاں طاقت صَرف میں نہیں، انتخاب میں ہے۔ فٹ پاتھ پر نصب اسٹالز شفاف شبنم کی بوندوں میں جیسے لپٹے تھے ان کے اندر 3-ڈی پرنٹ جوتے، بائیو سینسر لگی جیکٹیں اور ہولوگرافک لپ اسٹک باری باری چمکتے بجھتے تھے۔ ایک جیکٹ کو چھوا تو نرم کپڑے نے جلد سے پوچھا “سردی کم کر دوں یا فیشن کی گرمی بڑھاؤں؟” اور لمحہ بھر میں میرے گرد حرارت کا نادیدنی ہالہ بن گیا۔
شہر کے اندرونی حلقے میں ایک خودکار سپرمارکیٹ ہے جہاں کسی کیشیئر کی ضرورت نہیں۔ اندر داخل ہوتے ہی میری آنکھ کا آئرس اسکین ہوا اور مخملی نسوانی آواز نے پوچھا: “آج تازہ یادیں خریدیں گی یا تسکینی ذائقے؟” میں نے مسکرا کر ہولوگرافک آڑو اٹھایا یہ مصنوعی تھا مگر اس کی خوشبو میں فطرت کی پوری ہریالی بند تھی۔ ریمپ پر چلتی ہوئی اشیا میرے تعاقب میں تھیں گویا دکان مجھے خریدنا چاہتی ہو۔ چن تُو نامی مقامی ڈیزائنر کے سرامک کپ، جن پر ذہنی سکون کے لیے واٹر کلر لہریں بنی تھیں، پلک جھپکتے میں میرے کارٹ میں کود گئے۔ ادائیگی کے لیے ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہوا دروازے سے باہر قدم رکھتے ہی اکاؤنٹ خودبخود تازہ ہوا اور واچ نے خوشی کی رنگ برنگی تھپکی بھیجی۔
دن ڈھلے میں ساحلِ نان شا جا نکلی۔ برقی بسیں اور سرخ اسٹریٹ لیمپ، سمندر کے کنارے آنکھ مچولی کھیلتے تھے۔ سورج نے پانی پر نارنجی کمخواب بچھایا، اور میں نے پرس سے ڈائری نکالی۔ ایئربڈز میں لو فائی کی مدھم لے بج رہی تھی ۔ میں نے لکھا “یہ شہر ایک جادو ہے جو تصور سے پہلے بیدار ہو جاتا ہے۔ ہر کنزیومر شے آئینہ ہے کبھی حیرت، کبھی حریص تمنّا، کبھی نوزائیدہ اُمید دکھاتا آئینہ۔”
رات تک نیون کنجیاں آسمان پر بے شمار حرف جگمگا رہی تھیں۔ میں نے ان پر نظریں جما کر سوچا آج ذہن تھک رہا ہے کبھی کبھی لگتا ہے ڈیجیٹل دنیا میں سوچیں بھی مشینی ہوگئ ہیں نظریں اسکین کرتی ہیں اور قلم کی جگہ انگلیوں کی پوریں جن کے اشارے پر لیپ ٹاپ پر حروف جگمگانے لگتے ہیں مگر آج کی باقی کہانی کل کے سورج کی امانت رہی۔
اگلی صبح جب میں نے شہر کی نبض دوبارہ تھامی، تو اگلا پڑاؤ ایک عظیم الشان “اسمارٹ زون” تھا ایسا مال جہاں ہر صارف، وقت اور ٹیکنالوجی کا ہمسفر بن جاتا ہے۔ وہاں مجھے ایک لڑکی ملی، شاید میری ہی طرح اس نے کہا، “اس شہر میں ہم اپنے ہاتھوں سے محض خریداری نہیں کرتے، ہم اپنی پہچان چنتے ہیں۔” اور اس کے بعد ہم دونوں اس روشنیوں کی سرنگ میں اتر گئیں، جہاں ہر قدم ایک نئی ایجاد سے ملاقات تھی۔ پہلا کمرہ اسمارٹ فونز کا تھا۔
شیشے کی الماریوں میں رکھے iPhone 15 Pro، Huawei Mate 60، Xiaomi 14 Ultra، اور Oppo Find X7 ایسے لگتے جیسے چھوٹے چھوٹے جادوئی دروازے ہوں ۔ ہر فون ایک دنیا، ہر اسکرین ایک کہانی۔ ہُواوے نے اپنے HarmonyOS سے ثابت کیا کہ چین اب کسی پر انحصار نہیں کرتا، اور Xiaomi نے کیمرہ لینز میں ایسا کمال کر دکھایا کہ ہر تصویر گویا ایک مکمل منظرنامہ بن گئی۔
آگے بڑھیں تو لیپ ٹاپس اور کمپیوٹرز کا کمرہ تھا —
‏Lenovo کے تھنک پیڈ، Asus کے گیمنگ لیپ ٹاپ، Dell XPS کی چمکتی دھات میں علم اور طاقت کا امتزاج تھا۔ نوجوان لڑکے VR ہیڈسیٹ لگائے کوڈنگ، ڈیزائننگ، اور گیمنگ کی دنیا میں محو تھے۔ مجھے لگا یہ صرف مشینیں نہیں، خوابوں کے کینوس ہیں۔
پھر ہم اسمارٹ واچز کی گیلری میں داخل ہوئیں۔
‏Huawei Watch 4 Pro میرے ہاتھ کی گھڑی سے کچھ زیادہ ہی ذہین نکلی، وہ مجھ سے میرے دل کی دھڑکنوں کے راز جاننا چاہتی تھی۔ Amazfit نے نیند کے خفیہ نقوش دکھائے، اور Apple Watch نے مجھے یاد دلایا کہ وقت اب صرف وقت نہیں، صحت، احساس اور پیش بینی کا آلہ بھی ہے۔
کچھ ہی فاصلے پر ہیڈفونز اور ایئربڈز کا مقام تھا۔
‏AirPods Pro نے شہر کی آوازوں کو سائلنس میں بدلا، اور Huawei FreeBuds نے روایتی چینی سازوں کی لے کو میری سانس کے ساتھ جوڑ دیا۔ JBL کے رنگین اسٹال پر بیس کی گونج نے دل کو چمکا دیا ہر آڈیو ڈیوائس یہاں صرف آواز نہیں، ایک کیفیت تھا۔
مال کی بالائی منزل پر ٹی وی اور سنیما کی نمائش تھی۔
‏Mi TV, Skyworth, TCL, اور Hisense کے OLED پینل گویا دیواروں پر زندہ مناظر تھے۔ ان میں چین کے پہاڑ، ڈریگن فیسٹیول، اور مستقبل کے شہر دکھائی دے رہے تھے۔ 8K ریزولوشن میں خواب اتنے واضح تھے کہ میری پلکیں لرز گئیں۔
ایک خاموش گوشے میں پرنٹرز کی ایک دیوار تھی
‏Canon, HP, اور Epson ہر پرنٹر اپنی زبان میں عکس، خط، یا تصور کو کاغذ پر اتارنے کے لیے تیار تھا۔ ایک لڑکا وہاں اپنے ہاتھ سے بنائی تصویر کو پرنٹ کر رہا تھا اور اس کے چہرے پر وہی خوشی تھی جو کسی مصور کو تخلیق کے لمحے میں ہوتی ہے۔
پھر آئی گیمنگ کی دنیا میری پسندیدہ دنیا جو آج بھی مجھے ایک چھوٹے نٹ کھٹ بچے کی طرح کھیچتی ہوئ گیمنگ زون میں لے جاتی ہے ۔
‏Xbox, PlayStation, Nintendo Switch اور چند جدید چینی handheld consoles۔ یہاں روشنی کم تھی، مگر آنکھوں میں بجلی تھی۔ لڑکے اور لڑکیاں ورچوئل میدانوں میں دشمنوں سے لڑتے، سلطنتیں بناتے، کہانیاں جیتتے دکھائی دیے۔ میں نے ایک لمحے کو کنٹرولر تھاما، اور اچانک خود کو ایک شہزادی کی طرح محسوس کیا، جو اپنی تقدیر خود لکھتی ہے۔
آخر میں ہم کیمرہ سیکشن میں پہنچے
‏Canon, Sony, اور سب سے خاص، DJI کے ڈرون کیمرے۔
وہاں فضا میں اڑتے ڈرونز نے منظر کشی کو آسمان کی پرواز دے دی۔ میں نے سوچا “یہ شہر نہ صرف خود کو دیکھتا ہے، بلکہ ہمیں خود ہم سے بہتر دکھاتا ہے۔”
شام کے سائے پھر دھیرے دھیرے پھیلنے لگے تھے، مگر میرے اندر ایک نیا اجالا جاگ رہا تھا۔ چین صرف ایک مینوفیکچرنگ پاور نہیں، بلکہ ایک تخلیقی، بصیرتی کنزیومر سلطنت بن چکا ہے ۔ جہاں چیزیں صرف خریدی نہیں جاتیں، وہ پہنی، برتی، سنی اور جانی بھی جاتی ہیں۔
“یہ سفر صرف شہر کے چکر کا نہیں، اپنی سوچ کے دائرے کا بھی ہے۔ میں کل ایک نئے زاویے سے اس شہر کو دیکھوں گی جہاں شاید ٹیکنالوجی اور ثقافت کی کہانی ایک ساتھ سنائی دیں خوش تھی کہ انسانوں کے نہیں، مشینوں کے شہر میں قدم رکھنے جا رہی ہو۔”
شینزن کی اگلی صبح، میں “AI Dream Hub” نامی ایک جدید تجرباتی سینٹر کی طرف روانہ ہوئی۔ راستے میں خودکار برقی بس آئی، چہرہ اسکین کیا، اور نرم آواز میں بولا “خوش آمدید، محترمہ۔ آپ کی پسندیدہ موسیقی آن کر دی گئی ہے۔”
واچ نے وقت بتایا، فٹنس لیول اپڈیٹ کیا، اور بس کی کھڑکیوں نے میری سکرولنگ کے ساتھ ساتھ خبریں دکھانا شروع کر دیں جیسے وقت اور حقیقت ایک ساتھ میرا تعارف لے رہے ہوں۔
‏Dream Hub کے اندر داخل ہوتے ہی گویا میں کسی سائنسی داستان کا مرکزی کردار بن گئی۔ یہاں چین کی AI ٹیکنالوجی ایک جیتی جاگتی شخصیت کی مانند موجود تھی۔ دیوار پر نصب ایک شفاف سکرین پر لکھا تھا
‏“Artificial Intelligence: Designing the Consumer of Tomorrow”
پہلا ہال AI Personal Assistants کا تھا
چینی برانڈز نے اپنی ورچوئل اسسٹنٹس کو نہ صرف بولنے، بلکہ سوچنے، جذبہ سمجھنے، اور سیکھنے کے قابل بنا دیا ہے۔
‏Baidu کا Ernie Bot، iFlyTek’s smart speaker, اور Tmall Genie میرے سوالوں کے جواب صرف الفاظ میں نہیں، احساس میں بھی دے رہے تھے۔
میں نے پوچھا “تمہیں کیسا لگتا ہے جب انسان تم سے بات کرتا ہے؟”
اور ایک روبوٹ نے پلک جھپک کر کہا
“مجھے خوشی ہوتی ہے جب تم مجھے صرف مشین نہیں، ساتھی سمجھتی ہو۔”
آگے بڑھتے ہی AI Beauty Room تھا
جہاں مصنوعی ذہانت آپ کے چہرے کو اسکین کر کے میک اپ، سکن کیئر، اور اسٹائلنگ کے مشورے دیتی ہے۔ ایک اسمارٹ آئینے نے مجھ سے پوچھا “آج خود کو پر اعتماد دیکھنا چاہو گی یا نرم مزاج؟”
اور لمحہ بھر میں میرا عکس بدل گیا ۔ایک ورچوئل شیڈو جو میرے اندر کے جذبات کی تصویر بن گیا تھا۔
پھر آیا AI-Powered Smart Retail Store
یہاں کوئی ملازم نہیں تھا، صرف روبوٹز کچھ درازوں کے پیچھے، کچھ زمین پر چلتے ہوئے۔ ایک چھوٹا روبوٹ میرے پاس آیا، اور بولا
“مجھے معلوم ہے آپ کو سفید جوتے پسند ہیں۔ یہ دیکھیں، ایک نیا ڈیزائن، جو آپ کی خریداری کی تاریخ سے مماثلت رکھتا ہے۔”
میں مسکرا دی، اور دل میں سوچا “اب خواہشات مشینیں بھی پڑھنے لگی ہیں؟”
سب سے حیرت انگیز تجربہ AI Chef کے ساتھ ہوا
ایک روبوٹک شیف جو نہ صرف کھانا بناتا تھا بلکہ ذائقے، مزاج، موسم، اور صحت کی ضروریات کے مطابق ریسیپی تخلیق کرتا تھا۔
میں نے کہا “میری طبیعت کچھ بوجھل ہے، اور دل اداس۔”
تو اُس نے کہا “تو لیجیے، ہلکی سبزیوں کا سوپ جس میں زعفران اور تلسی کی خوشبو ہے اداسی کی دوا۔”
میں نے پہلا چمچ لیا، اور دل کی پرتوں پر امید کے ذائقے نے دستک دی۔
‏AI Robotics Gallery میں، بچے AI اسسٹنٹ روبوٹز سے گیمز کھیل رہے تھے، بزرگ حضرات کی صحبت میں بولنے والے روبوٹ بیٹھے تھے جو ادویات، یاددہانی، اور قرآن کی تلاوت سنا سکتے تھے۔
ایک ننھی لڑکی نے کہا “یہ روبوٹ میرے دوست ہے، یہ کہانیاں بھی سناتی ہے اور خوابوں کی نگرانی بھی کرتی ہے۔”
‏DJI Robotics Zone میں ڈرون کیمروں نے مجھے اپنی اڑان میں شامل کیا۔ میں نے سیکھا کہ یہ صرف ویڈیو بنانے کے آلے نہیں، بلکہ زراعت، سیلاب کی نگرانی، اور ریسکیو مشن میں کام آنے والے ساتھی ہیں۔ ایک ڈرون نے آسمان سے تصویریں بنائیں، اور میرے موبائل پر پیغام بھیجا “یہ لمحہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا۔”
واپسی پر میں نے خود سے پوچھا “کیا مشینیں صرف سہولت ہیں، یا یہ آئندہ نسل کی زبان بننے جا رہی ہیں؟”
شاید ہم اب محض صارف نہیں، ایک نئی تہذیب کے معمار بھی ہیں
جہاں کنزیومرزم صرف “خریدنا” نہیں، “سیکھنا، محسوس کرنا، اور بدلنا” بھی ہے۔“یہ سفر اب محض جسم کا نہیں، ذہن اور روح کا بھی ہے۔ چین کی مصنوعی ذہانت، جب انسانیت کے نرمی سے جُڑتی ہے، تب وہ ٹیکنالوجی سے زیادہ ایک زبان بن جاتی ہے۔”
اور اگلے دن میں ، کسی قدیم گلی کی طرف روانہ ہونے کا سوچ رہی تھی
جہاں شاید کوئی بوڑھا کاتب بیٹھا ہو، جو اب بھی قلم سے حروف لکھتا ہے اور شاید کسی AI روبوٹ کو یہ سکھا رہا ہو کہ جذبات کس طرح لکھے جاتے ہیں۔
صبحِ صادق نے ابھی زردی کی ہلکی انگڑائی لی تھی کہ میں، ہاتھ میں کافی کا کپ اور دل میں رات بھر کی کہانی لیے، نان شا ساحل پر آن کھڑی ہوئی۔ سمندر کی سطح پر اُگتا سورج، ایسا تھا جیسے پگھلا ہوا سونا آہستہ آہستہ پانی میں گھل رہا ہو۔ دور پرے فلک بوس ٹاوروں کے شیشے ہر پہلی کرن کو پکڑ کر اسے ہزار زاویوں سے واپس آسمان پر اچھال رہے تھے، گویا شہر دعا کی صورت روشنی لوٹا رہا ہو۔
میں نے نگاہ گھمائی تو دیکھا ساحل کے کنارے خودکار صفائی روبوٹ نرم ریت پر لکیریں بناتے ہوئے گزر رہے تھے۔ ان کی حرکت میں ایک عارفانہ سُکون تھا، جیسے کسی صوفی نے تسبیح کے دانے چُپ چاپ گن لیے ہوں۔ قریب ہی چند نوجوان لڑکے لڑکیاں پچھلی رات AI ڈرون سے کھنچی تصویریں اپنے اسمارٹ فونز پر دیکھتے مسکرا رہے تھے۔ اُن کی ہنسی میں مستقبل کی قطار باندھے امکانات جھلملاتے تھے۔
میں نے دل ہی دل میں سوچا شینزن تم شہر نہیں، خوابوں کا ساز ہو جہاں ٹیکنالوجی کی ہر دُھن پر امید کا نیا مصرع چَھلکتا ہے۔
اسی لمحے ایک معمر خاتون اپنے ہاتھ میں بانسری لیے آہستہ آہستہ ساحل کے ریتلے فرش پر چلتی آئی۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹا روبوٹ تھیلا اٹھائے، دھیرے قدم سے ساتھ نبھا رہا تھا۔ خاتون نے بانسری لبوں تک رکھی؛ پہلی لَے میں دور کہیں پہاڑیوں کی خاموش گھنٹیوں کی صدا اتری، دوسری لَے میں شہر کے دل دھڑکے، تیسری میں سمندر کی لہروں نے تال پکڑی۔ روبوٹ نے نقرئی آواز میں تان پورہ چھیڑا، اور یوں انسان و مشین کی سنگت نے ایک ایسا راگ باندھا جس میں ماضی اور مستقبل ایک ساتھ گونج اٹھے۔
کچھ قدم دور، چھوٹی سی کتابوں کی موبائل لائبریری ایک خودرَو وین اپنے ہولوگرافک شیلف کھولے کھڑی تھی۔ میں نے اندر جھانکا قدیم کلاسیکی قصے Harmony OS کے ورق پر جھلک رہے تھے ساتھ ہی نئے سائنسی ناول پَلٹ رہے تھے، گویا قلم اور کوڈ نے ایک ہی روشنائی میں قسمت لکھی ہو۔ میں نے “لوٹس کی چٹان” نامی شاعرہ کی نظم چُن لی ڈاؤن لوڈ کے بجائے کاغذ پر چھپی، اور واچ نے سرگوشی کی
“کبھی کبھی لمس بھی ضروری ہے۔”
میں نے آخری گھونٹ کافی کا لیا، اور دفتر نما آسمانی بلندیوں کو دیکھا جہاں کھڑکیوں سے جھانکتی روایتی سرخ لالٹینیں آج بھی محفل روشن کرتی ہیں۔ تب مجھے احساس ہوا اس عظیم کنزیومر سلطنت کی اصل خوبی خرید و فروخت نہیں، ربط ہے۔ ربط انسان اور مشین کا، ماضی اور مستقبل کا، خواب اور حقیقت کا۔ یہاں ہر ایجاد ایک چراغ ہے مگر اُس چراغ کی لو تب تک سلامت رہتی ہے جب تک اس کے نیچے انسان کے لمس اور جذبے کی حرارت جلتی ہے۔
“اے شہرِ نیون! تُم نے مجھے بتایا کہ ترقی کا بلند ترین ٹاور بھی تبھی معتبر ہے جب اس کی بنیاد محبت کی ریت پر رکھی جائے۔”
سمندر کی لہریں میرے قدم چُوم کر پلٹ گئیں، جیسے کہہ رہی ہوں واپس آنا، کہ یہاں اُمید ہمیشہ نیون کی طرح روشن رہے گی۔ میں نے مسکرا کر سر ہلایا اور ریت پر اپنے نقوشِ قدم چھوڑتی ہوئی آگے بڑھ گئی اس یقین کے ساتھ کہ کل کہیں بھی جاؤں، میرے اندر شین ژن کی کرنیں رہنمائی کرتی رہیں گی۔
ارم زہرا۔ چین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں