کراچی کے ساحل پر بیٹھ کر جب میں سمندر کی بے قرار لہروں کو ریت سے ٹکراتے دیکھتی تھی، تو زندگی ایک سادہ مگر محدود دائرے میں گھومتی محسوس ہوتی تھی۔ مگر قسمت نے مجھے بیجنگ کی پُرہجوم سڑکوں اور شنگھائی کی روشنیوں تک لا بٹھایا۔ یہاں آ کر اندازہ ہوا کہ دنیا محض فاصلے ناپنے یا شہروں کی وسعت دیکھنے کا نام نہیں، بلکہ یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ انسان اپنی عقل اور محنت سے کیسے آنے والے وقت کو تراشتا ہے۔ چین میں تین برس گزارنے کے بعد یہ حقیقت بار بار سامنے آتی ہے کہ یہاں کی معیشت اور مصنوعی ذہانت (AI) الگ الگ نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑے ہیں جیسے روح اور جسم۔ چین کی New Generation AI Development Plan
جو 2017 میں سامنے آئی، دراصل ایک اعلان تھا کہ اب مستقبل محض خواب نہیں رہے گا بلکہ ایک قومی حکمتِ عملی کی شکل میں ڈھالا جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت چین نے یہ ہدف رکھا ہے کہ 2030 تک وہ دنیا میں اے آئی کا لیڈر بنے گا۔ اور اس سفر کی رفتار اتنی تیز ہے کہ لگتا ہے جیسے وقت بھی چین کے ساتھ دوڑنے پر مجبور ہو گیا ہو۔
چین نے 2017 کے بعد سے اے آئی کو صرف تحقیق اور تعلیمی میدان تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے اقتصادی ترقی کا محرک بنا دیا ہے۔ یونیورسٹیوں اور صنعتی زونز میں، ہر نئی ٹیکنالوجی کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ پیداوار، خدمات اور کاروبار میں نئی جان ڈال دی جائے۔ مثال کے طور پر شنگھائی کی ایک فیکٹری میں دیکھا کہ روبوٹ اور انسان ایک ساتھ کام کر رہے ہیں۔ روبوٹ بھاری مشینری اٹھا رہا تھا، اور انسان صرف ان کاموں کی نگرانی کر رہا تھا جو تخلیقی سوچ کی ضرورت رکھتے تھے۔
چین میں e-commerce اور فنانس سیکٹر بھی اے آئی کی چھاؤں میں ترقی کر رہے ہیں۔ Alibaba اور JD.com جیسے پلیٹ فارمز نے مشین لرننگ کا استعمال کرتے ہوئے صارف کی ترجیحات کو پیش گوئی کرنے کا نظام بنایا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صارف کو ہر شے وقت سے پہلے دستیاب ہو جاتی ہے، اور کاروبار کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بینکوں اور فنانشل اداروں میں بھی اے آئی کے الگورتھمز صارف کی کریڈٹ سکور، قرض کی درخواست اور دھوکہ دہی کی نگرانی میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔
میری ایک چینی دوست نے بتایا، “ہماری معیشت میں اب ہر فیصلہ ڈیٹا اور اے آئی پر مبنی ہے۔ یہ ہمیں تیز، مستحکم اور عالمی مقابلے کے لیے تیار کرتا ہے۔” میں نے اس بیان پر تحقیق کی، تو معلوم ہوا کہ چین میں حکومت نے AI Industry Development Zones قائم کیے ہیں جہاں ہر چھوٹے یا بڑے کاروبار کو ٹیکنالوجی میں اپ گریڈ کرنے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
میری روزمرہ زندگی میں بھی اس تبدیلی کے اثرات واضح ہیں۔ یونیورسٹی کے کیمپس میں طلبہ کے لئے AI-driven learning apps دستیاب ہیں جو ہر طالب علم کی کمزوریوں اور طاقتوں کے مطابق تعلیم کا مواد فراہم کرتے ہیں۔ بازاروں میں سمارٹ کیشیرز اور خودکار اسٹاک مینجمنٹ سسٹمز کاروبار کو تیز اور مؤثر بناتے ہیں۔
چین کی اے آئی پالیسی اور معیشت کے سنگم نے نہ صرف کاروبار کی صورت بدل دی ہے بلکہ ہر فرد کی روزمرہ زندگی میں بھی اس کے اثرات چھا گئے ہیں۔
بیجنگ کی صبح کا اپنا ایک رنگ ہے۔ آسمان پر ہلکی سی دھند، سڑکوں پر گاڑیوں کا بے پناہ رش، اور ہر طرف ایک منظم شور۔ میں جب پہلی بار ان راستوں پر نکلی تو مجھے لگا کہ اتنی بھیڑ میں ٹریفک کا قابو پانا شاید ناممکن ہوگا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ سب کچھ ایک ترتیب میں چل رہا تھا۔ بسیں وقت پر آ رہی تھیں، سگنلز خودکار انداز میں بدل رہے تھے، اور ایک اسکرین پر اگلی گاڑی کے آنے کا وقت لمحہ بہ لمحہ دکھایا جا رہا تھا۔ یہ سب دیکھ کر میں نے سوچا۔ یہ شہر صرف اینٹوں اور سڑکوں کا مجموعہ نہیں، یہ ایک زندہ وجود ہے جو مصنوعی ذہانت کے دم سے سانس لے رہا ہے۔
چین نے ٹرانسپورٹ اور شہری زندگی کو نئی شکل دی ہے۔ سڑکوں پر خودکار گاڑیاں آزمائش کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔ شنگھائی میں میں نے خود دیکھا کہ ایک خودکار ٹیکسی بغیر ڈرائیور کے ایک جگہ سے دوسری جگہ مسافروں کو لے جا رہی تھی۔ لوگ حیرت سے زیادہ اعتماد کے ساتھ اس میں بیٹھ رہے تھے، جیسے یہ کوئی غیر معمولی شے نہیں بلکہ روزمرہ زندگی کا حصہ ہے۔
بس اسٹاپ پر کھڑے ہو کر میں نے اکثر اسکرین پر آنے والی بس کا وقت دیکھا۔ اور عجب یہ کہ وہ وقت بالکل درست ثابت ہوتا۔ سگنل پر کھڑے کیمروں کے ذریعے سڑک کی بھیڑ کا اندازہ لگایا جاتا اور اسی حساب سے سگنلز کا دورانیہ بڑھایا یا گھٹایا جاتا۔ مجھے لگا جیسے شہر کی شریانوں میں کوئی ذہین دماغ بہہ رہا ہو۔
سمارٹ سٹی کا یہ تصور صرف ٹرانسپورٹ تک محدود نہیں۔ بیجنگ اور شینزن کی گلیوں میں ہر چراغ، ہر کیمرہ اور ہر سڑک ایک ہی نیٹ ورک سے جڑا ہوا ہے۔ شہر کے کسی حصے میں حادثہ ہو یا رش بڑھ جائے، فوراً پورے نظام میں تبدیلی آتی ہے اور راستوں کو نیا رخ دے دیا جاتا ہے۔
شہری سہولتیں بھی اسی ذہانت کے سہارے ہیں۔ کوڑا اٹھانے سے لے کر بجلی کی تقسیم تک، ہر شے میں ایک ترتیب اور رفتار ہے۔ جیسے شہر ایک خودکار کتاب ہو جس کے اوراق مشینیں پلٹ رہی ہوں اور انسان اس کے متن کو جی رہے ہوں۔
شنگھائی کی ایک شام مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ میں ایک بڑے شاپنگ مال کے سامنے کھڑی تھی، جہاں ایک بڑی اسکرین پر رنگ برنگی تصاویر حرکت کر رہی تھیں۔ یہ محض اشتہار نہیں تھا، بلکہ ایک مکمل انیمیشن تھی، اور سب سے حیرت انگیز بات یہ کہ یہ تخلیق انسانوں نے نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت نے کی تھی۔ لمحہ بھر کے لئے میں سوچ میں پڑ گئی کہ کیا واقعی وہ وقت آ چکا ہے جب کہانی سنانے اور کردار تراشنے کا کام بھی مشینیں کرنے لگی ہیں؟
چین میں انیمیشن اور فلم انڈسٹری نے پچھلے کچھ برسوں میں جو تیزی پکڑی ہے، اس کی جڑیں اے آئی کی ترقی سے جڑی ہوئی ہیں۔ بڑے اسٹوڈیوز اب روایتی طریقوں سے ہٹ کر الگورتھمز کا سہارا لیتے ہیں۔ ایک منظر کو بنانے کے لئے جو کام پہلے مہینوں میں مکمل ہوتا تھا، اب دنوں یا گھنٹوں میں ہو جاتا ہے۔ حرکت کرتے ہوئے کردار، ان کے تاثرات، اور پس منظر کی دنیا، سب کچھ اے آئی خودکار طریقے سے ترتیب دیتی ہے۔
میں نے بیجنگ کی ایک ورکشاپ میں شرکت کی جہاں نوجوان تخلیق کاروں کو بتایا جا رہا تھا کہ کس طرح AI Animation Tools جیسے DeepMotion یا Tencent AI Lab کے پلیٹ فارمز کرداروں کو زندہ کرتے ہیں۔ ایک نوجوان نے محض اپنے ہاتھوں کی حرکت کی ویڈیو ریکارڈ کی اور اے آئی نے اسی لمحے ایک کارٹون کردار کو ویسی ہی حرکت دیتے ہوئے اسکرین پر پیش کر دیا۔ یہ منظر ایسا لگا جیسے حقیقت اور تخیل کے درمیان دیوار گر گئی ہو۔
چین کی انیمیشن انڈسٹری اب صرف بچوں کی تفریح تک محدود نہیں رہی۔ فلمیں، ویڈیو گیمز اور آن لائن سیریز سب میں اے آئی کا استعمال بڑھ چکا ہے۔ مشین لرننگ ماڈلز کہانی کے اسکرپٹ تجویز کرتے ہیں، کرداروں کے ڈائیلاگ تیار کرتے ہیں اور ناظرین کی پسند کے مطابق کہانی کا زاویہ بدلنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چینی پلیٹ فارمز جیسے Bilibili اور iQiyi پر لاکھوں انیمیشن سیریز تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔
لیکن ہر ترقی کے ساتھ سوال بھی پیدا ہوتا ہے۔ جب کہانی سنانے کا اختیار مشینوں کو دیا جائے تو کیا انسانی تخیل پیچھے نہیں رہ جائے گا؟ جب کرداروں کے چہرے اور آوازیں اے آئی بنا رہی ہوں تو اصل فنکار کی پہچان کہاں جائے گی؟
اس شام شنگھائی کی سڑک پر چلتے ہوئے مجھے یوں لگا جیسے روشنیوں کے اس سمندر میں ہر بلب ایک نئی کہانی سنا رہا ہو۔ کہانیاں جو مشینیں لکھ رہی ہیں مگر پھر بھی انسانوں کے دلوں کو چھو رہی ہیں۔ یہ تجربہ عجیب سا تھا۔ ایک طرف حیرت اور خوشی، دوسری طرف ایک انجانی بے چینی۔ یہاں کی گلیوں میں چلتے ہوئے اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ یہاں کی روزمرہ زندگی کسی خاموش مگر ذہین نظام کے تحت چل رہی ہے۔ کبھی مارکیٹ میں داخل ہوں تو ادائیگی کے لئے بٹوہ نکالنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ایک کیمرہ آپ کے چہرے کو پہچان لیتا ہے اور خریداری کی رقم خود بخود آپ کے اکاؤنٹ سے کٹ جاتی ہے۔ پہلی بار جب یہ تجربہ کیا تو دل کو عجیب سا جھٹکا لگا۔ جیسے میں کسی سائنسی فلم میں قدم رکھ چکی ہوں۔
چین میں مصنوعی ذہانت اب صرف اداروں اور بڑی صنعتوں تک محدود نہیں رہی بلکہ عام آدمی کی زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ موبائل ایپس میں مترجم سہولت نے زبان کی رکاوٹ کو مٹا دیا ہے۔ میں جب کسی دکاندار سے چینی زبان میں بات نہ کر پاتی تو صرف ایک ایپ کھولتی اور فوراً میری اردو یا انگریزی کو روان چینی میں بدل دیا جاتا۔ دکاندار مسکرا کر جواب دیتا اور یوں لگتا کہ زبانوں کے بیچ کی دیوار ٹوٹ گئی ہے۔
ثقافتی تقریبات میں بھی اے آئی کی جھلک نمایاں ہے۔ ایک بار میں نے شنگھائی میں ایک موسیقی کے پروگرام میں شرکت کی۔ اسٹیج پر نہ صرف انسان گاتے تھے بلکہ ایک ورچوئل گلوکارہ بھی تھی جسے مکمل طور پر اے آئی نے تخلیق کیا تھا۔ اس کی آواز اور تاثرات اتنے قدرتی لگ رہے تھے کہ لمحہ بھر کو یہ احساس ہی نہ ہوا کہ وہ حقیقت میں موجود نہیں۔ حاضرین نے اسے ویسے ہی داد دی جیسے کسی اصل فنکار کو دی جاتی ہے۔
چینی سنیما اور ڈرامہ انڈسٹری میں بھی اے آئی کی موجودگی واضح ہے۔ سکرپٹ لکھنے میں مدد، اداکاروں کی شکل کو ڈیجیٹل طریقے سے سنوارنا، اور پرانے مناظر کو دوبارہ زندہ کرنا ۔ یہ سب اب عام ہو چکا ہے۔ میں نے ایک فلم میں ایک ایسے اداکار کو دیکھا جو برسوں پہلے وفات پا چکا تھا، مگر اے آئی نے اسے دوبارہ پردۂ سکرین پر زندہ کر دیا۔ لمحے بھر کے لئے دل دہل گیا۔
روزمرہ سہولتوں میں بھی یہی حال ہے۔ فلیٹ کے داخلی دروازے پر پاس ورڈ یا چابی کی ضرورت نہیں۔ ایک کیمرہ آپ کے چہرے کو پہچانتا ہے اور دروازہ کھل جاتا ہے۔ بسوں اور ٹرینوں میں ٹکٹ کے بجائے ایک موبائل ایپ آپ کی شناخت کر لیتی ہے۔ حتیٰ کہ ریسٹورنٹس میں روبوٹس کھانے کی پلیٹیں میز پر رکھ جاتے ہیں۔ یہ سب دیکھتے ہوئے دل سوچتا ہے کہ مستقبل اب خواب نہیں رہا، حقیقت کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ چین نے اپنی ثقافت اور روزمرہ زندگی میں ٹیکنالوجی کو اس طرح سمو دیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کا عکس بن گئے ہیں۔
چین میں مصنوعی ذہانت محض ایک ایجاد نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے۔ گلیوں سے گھروں تک، تفریح سے کاروبار تک، اور زبان سے موسیقی تک ہر جگہ مشینیں انسانوں کے ساتھ شریکِ سفر ہیں۔ کبھی سہولت کا روپ دھارے، کبھی حیرت کا، اور کبھی ایک ان دیکھے سوال کی صورت کہ
کیا ہم مشینوں کے سہارے زیادہ آزاد ہو گئے ہیں یا مزید قید میں آ گئے ہیں؟
چین نے اپنی دفاعی حکمتِ عملی میں اے آئی کو مرکزی حیثیت دے دی ہے۔ تحقیقی رپورٹس کے مطابق حکومت نے 2017 کے بعد ایسے منصوبے شروع کیے جو “Intelligentized Warfare” کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جنگ محض فوجیوں اور ہتھیاروں کی نہیں رہی، بلکہ اب الگورتھمز اور خودکار نظام بھی اس کا حصہ ہیں۔
پچھلے دنوں میں نے ایک نمائش میں شرکت کی تھی جہاں چینی ڈرونز پیش کیے گئے۔ یہ ڈرونز صرف فضائی نگرانی نہیں کرتے بلکہ دشمن کے ٹھکانے کو خودکار انداز میں پہچاننے اور حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کا کنٹرول انسان کے ہاتھ میں رہتا ہے، مگر فیصلہ سازی کا بڑا حصہ مشینوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
سائبر سیکیورٹی بھی اسی زنجیر کی ایک کڑی ہے۔ چین کے بڑے شہر اب ایسے سسٹمز سے لیس ہیں جو لمحوں میں لاکھوں ڈیٹا پوائنٹس کا تجزیہ کر کے سائبر حملوں کو روک سکتے ہیں۔ میں نے ایک کانفرنس میں سنا کہ یہاں کی یونیورسٹیاں الگورتھمز کو اس حد تک ترقی دے رہی ہیں کہ وہ دشمن کے ڈیجیٹل حملے کو شروع ہونے سے پہلے ہی پہچان سکیں۔
لیکن ایک سوال میرے دل میں مسلسل گونجتا رہا۔ اگر مشین فیصلہ کرے گی کہ کب حملہ کرنا ہے، تو انسانی سوچ اور رحم کہاں باقی رہے گا؟ کیا جنگ مزید بے رحم ہو جائے گی؟ کیا مشین کے فیصلے کو انسان بدل سکے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو چین کی ترقی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت نے چین کی دفاعی طاقت کو بے حد بڑھا دیا ہے، مگر اس کے ساتھ یہ خوف بھی بڑھا ہے کہ اگر یہ طاقت قابو سے باہر ہو گئی تو انجام کیا ہوگا۔چین کے لئے اے آئی محض ترقی یا سہولت نہیں، بلکہ ایک ڈھال اور ایک تلوار بھی ہے۔ ایک ایسا ہتھیار جو امن کو قائم بھی رکھ سکتا ہے اور خطرات کو بڑھا بھی سکتا ہے۔
چین میں مصنوعی ذہانت اور صحت عامہ کا رشتہ حیران کن حد تک مضبوط ہے۔ خاص طور پر 2017 کے بعد جب حکومت نے اپنی “New Generation AI Development Plan” میں میڈیکل ریسرچ کو اہم ستون قرار دیا۔ آج چین کے اسپتالوں اور تحقیقی اداروں میں ایسے الگورتھمز استعمال ہو رہے ہیں جو ایکس رے، ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین کی تصاویر کو انسان سے کہیں زیادہ تیز اور درست انداز میں پڑھ لیتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ کینسر کے بعض کیسز کی تشخیص میں اے آئی کی درستگی 90 فیصد سے بھی اوپر جا چکی ہے۔
کووِڈ-19 کی وبا کے دنوں میں اس ٹیکنالوجی کی اصل طاقت سامنے آئی۔ میں نے سنا ہے کہ بیجنگ اور شینزن میں روبوٹس مریضوں کو دوا پہنچاتے تھے، یا اے آئی پر مبنی ایپس لوگوں کے بخار اور علامات کا لمحہ بہ لمحہ ریکارڈ رکھ رہی تھیں۔ بڑے ڈیٹا بیسز نے وائرس کے پھیلاؤ کا اندازہ لگانے اور قرنطینہ کے فیصلے کرنے میں حکومت کو وہ مدد فراہم کی جو کسی انسان کے لیے ممکن نہ تھی۔
دیہی علاقوں میں جہاں ڈاکٹر کم ہیں، وہاں موبائل ایپس اور اے آئی کلینکس نے لوگوں کے لیے علاج آسان بنا دیا ہے۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں کمپیوٹر اور کیمرہ نصب ہے، مریض آتا ہے، اپنی علامات بتاتا ہے، اور مشین فوری طور پر علاج تجویز کر دیتی ہے یا آن لائن ڈاکٹر سے جوڑ دیتی ہے۔ مجھے لگا جیسے ٹیکنالوجی نے فاصلے اور محرومی کے دکھ کو کم کر دیا ہے۔
مگر ایک سوال یہاں بھی جنم لیتا ہے۔ جب علاج کے فیصلے مشین پر چھوڑ دیے جائیں تو کیا انسان کی ہمدردی اور تجربہ کہیں پیچھے نہیں رہ جائے گا؟ کیا مریض صرف ایک ڈیٹا پوائنٹ بن کر رہ جائے گا؟
اس شام جب اسپتال سے نکل کر باہر آئ تو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے سوچ کی یہ گرہیں مزید کھول دیں۔ یوں محسوس ہوا جیسے دنیا ایک ایسے دور میں داخل ہو رہی ہے جہاں زندگی اور صحت کی حفاظت کے لیے انسان اور مشین ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ اور شاید یہی وہ نکتہ ہے جہاں ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی کامیابی چھپی ہے۔ انسان کو مزید زندہ رکھنے، اور زندگی کو مزید بہتر بنانے کا خواب۔
چین میں ہر شعبے میں اے آئی کا استعمال انسان کی صلاحیت بڑھانے، فیصلے تیز کرنے اور کام آسان بنانے کے لیے ہو رہا ہے۔ معیشت، تعلیم، صحت، دفاع، انیمیشن اور روزمرہ زندگی میں یہ ٹیکنالوجی نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ ساتھ ہی یہ ترقی انسانی پرائیویسی اور اخلاقی اقدار کے اہم سوالات بھی اٹھاتی ہے۔ مستقبل اسی توازن پر منحصر ہوگا کہ ٹیکنالوجی انسان کی زندگی آسان بنائے، اور انسانی رویے اور اصول بھی برقرار رہیں۔
مصنوعی ذہانت کا چین …ارم زہرا
