مغربی ممالک کی شہ پر اسرائیلی جارحیت اور ایران۔۔۔۔۔۔تحریر سرور غزالی

اس وقت دنیا میں مختلف مقامات پر جنگیں جاری ہیں اور یہ جنگیں کسی وقت بھی کسی جوہری جنگ میں تبدیل ہونے کے بہت قریب ہیں۔ ایسے میں کسی بھی ایٹمی حادثے، ایٹمی ریکٹر کی تباہی کے نتیجے میں شعاؤں کے اخراج یا اور دوسری طرح کی تباہی اور بربادی کے خدشات بھی دنیا کے 99 فیصد امن پسند شہریوں کے لیے تشویش کا باعث بن رہے ہیں لیکن اس تشویش اور پریشانی کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے دنیا کے چند سو ہا ہزار افراد جو دنیا پر حکومت کر رہے ہیں، دنیا کی مختلف حکومتوں کے سربراہ ہیں، ایٹمی توانائی اور دیگر فوجی تنصیبات کے ذمہ دار ہیں، فوجی ساز و سامان کی تیاری کے کمپنی کے مالکان ہیں، دنیا کے 99 فیصد افراد کے خدشات کو یکثر نظر انداز کر کے دنیا کو جنگ میں جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں دنیا کے ایک دم سے بھک سے اڑ جانے کا کوئی خوف نہیں جبکہ ایسا نہیں کہ انہیں ایسے کسی حادثے کا ادراک نہ ہو۔
یوکرین کی جنگ میں پہلے یورپ میں ایک بارود سے بھری فضا تیار کی گئی اور پرانے حواری ایک دوسرے کے سامنے میدان جنگ میں مد مقابل کھڑے ہو گئے اس کا فائدہ صرف اور صرف اسلحے کی تیاری کی کمپنیوں کو ہو رہا ہے دیگر ترقیاتی مد کو کم کر کے فوجی ساز و سامان کی مد میں رقم مختص کرنے کی ایک دوڑ یورپ میں شروع ہو چکی ہے۔ لیکن یورپ اور روس کی یہ جنگ ایک ہم پلہ جنگ ہے۔ چونکہ اس میں ایک طرف روس اور اس کے حواری اور دوسری طرف یورپ اور امریکہ کے زیر اثر تمام ممالک شامل ہیں۔ جب کہ ایران تن تنہا ہے اور اسرائیل کے ساتھ پوری مغربی طاقت مل کر اس جنگ کو یک طرفہ جاریت میں بدل دے رہی ہیں۔
امریکہ یورپ اور اسرائیل نے مل جل کر پہلے ہی مشق وسطی سے عراق شام اور لیبیا جیسے ممالک کو زیر کر لیا ہے یہ وہ ممالک تھے جو کبھی مغربی طاغوتی قوت کے خلاف سینہ سپر تھے مگر اج ان ممالک میں جس طرح کی انار کی اور جنگی صورتحال موجود ہے وہ کسی بھی طرح کی کوئی مغربی جارہیت کے خلاف آواز اٹھانے سے معذور ہیں۔ یہ ساری جنگیں اور ان ممالک کو بے بس کرنے کے پیچھے صرف اور صرف ایک ہی پالیسی کام کرتی رہی ہے کہ ان ممالک کے تیل اور معدنیات پر مغرب کا قبضہ ہو سکے گو کہ ان جنگوں کے نتیجے میں افغانستان میں ہونے والی جنگ پس پشت چلی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان سے اس پیش قدمی کا آغاز ہوا تھا۔ شام میں روس کی شکست کے بعد مغربی طاقتوں کے لیے تمام راہیں کھل گئی تھیں اور اسرائیل نے غزا میں فلسطینیوں سے عملا” ان کا ملک چھین کر فلسطینی قوم کو تباہ و براد کر دیا، لبنان سے حماس نے جب فلسطین کی مدد کرنے کی کوشش کی تو شدید بمباری کے بعد حماس کو بھی خاموش کرا دیا۔ اسرائیل کے اغوا شدگان افراد کی بازیابی کی اڑ میں اسرائیل نے نہ صرف غزا میں کشت و خون کا بازار گرم کیا بلکہ لبنان کے بیروت تک کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا اور یمنی حوتی مسلح افواج کو بھی تشدد کا سامنا کرنا پڑا اس سلسلے کی اگلی کڑی اسرائیل کے ازلی دشمن ایران کو سزا دینے کے لیے ٹھیک اسی طرح جس طرح عراق پر جھوٹا الزام لگایا گیا تھا کہ اس کے پاس زہریلی کیمیائی ہتھیار ہیں، ایران پر یہ جھوٹا الزام لگا کر کہ ایران ایٹمی بم بنانے کے بالکل قریب ہے۔ اسرائیل نے ایران پر حملہ کر کے اس کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ اور اس کے سرکردہ فوجی افسران کو قتل کر دیا ہے۔ گو کے فی الوقت ایران کی جوابی کاروائی جاری ہے اور ایران اسرائیلی جارہیت کا شکار ہے مگر ساری دنیا سے مغربی طاقتیں اسے ایران کی ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کا جھوٹا فسانہ بنا کر ایران کو سزا دینے کے در پے ہیں۔ اور امریکہ بھی اس جنگ میں کودنے کی تیاری کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران نے پہلی بھی نام نہاد جوہری طاقت کے پھیلاؤ کو روکنے کے ادارہ کے ساتھ تعاون کیا اور اس کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت اپنے ملک میں یورینیم کی افزائش کی پابندی کو تسلیم کرنے کے باوجود دیگر پابندیوں اور مشکلات سے نبرد آزما رہا۔ اور اسرائیلی حملے کے وقت بھی عمان میں مذاکرات چل رہے تھے۔
لیکن غزا میں اسرائیلی جاریت اور کشت و خون کا بازار گرم کرنے اور فلسطینیوں پر خوراک کی پابندی لگا کر نہتے عوام کی قتل و غارت گری سے نیتنیاہو کا جو امیج تیزی سے خراب ہو رہا تھا۔ حتی کہ تمام مغربی سربراہان نیتن یاہو کے خلاف اپنا بیان داغ رہے تھے اور ایسے میں اسرائیل نے ایران پر ایک جھوٹا الزام لگا کر اور حملہ کر کے ان تمام مغربی سربراہان کو اپنی طرف کر لیا ہے اور نتنیاہو ایک بار پھر ان سب کا ہیرو بن چکا ہے۔
ایسی سفاکانہ اور تشدد پسند جنگی صورتحال میں ہندوستان چین اور روس بھی کوئی عملی قدم اٹھانے سے گریز کر رہے ہیں بلکہ ہندوستان پر تو یہ الزام عائد ہو رہا ہے کہ وہ درپردہ اسرائیلی جارہیت کی حمایت کر رہا ہے اور را کے ایجنٹ اسرائیلی ایجنٹ کے ساتھ مل کر ایران کو اندرونی طور سے غیر مستحکم کر رہے ہیں۔ روس کو بھی اس جنگ کا کسی نہ کسی طریقے سے فائدہ حاصل ہو رہا ہے کہ مغربی ممالک کی تمام تر توجہ اس وقت مشرق وسطی پر لگی ہے اور ایسے میں یہ روس کے لیے سنہرا موقع ہے کہ وہ یوکرین میں اپنے جنگی اہداف کو مکمل کر سکے۔
اس مغربی جنگی جنون کا حل کچھ بھی نکلے ہار ایران کی ہو یا اسرائیل کی شکست اس کا فائدہ صرف اور صرف جنگی فوجی سامان تیار کرنے والی کمپنیوں کو ہوگا اور اس جنگی ساز و سامان کی ترسیل سے ہونے والی آمدنی کی رقم سے تباہ شدہ انفرا سٹرکچر کی تعمیر نو میں خرچ کرنے کا ڈھونگ رچایا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی بلو ہیلمٹ والی فوج کی تعیناتی کا بوجھ کمزور ملک پر ڈال دیا جائے گا۔ اب تک یہی تماشہ ہوتا آیا ہے۔ مگر دنیا کے حالات بھی تیزی سے بدل رہے ہیں اور یہ جنگ امریکی ڈالر کی بقا کی آخری جنگ ہوگی جس کے بعد شاید مغربی معیشت اپنی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں