روزنامہ نوائے وقت
Aug 15, 2020
پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی صفائی کے ناقص انتظامات کے باعث کچرا کنڈی بن چکا ہے۔ سندھ حکومت اور بلدیاتی اداروں کے مابین اختیارات کی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اس شہر کا ہوا ہے۔تقریباً3 کروڑ نفوس پر مشتمل آبادی والے شہر میں صفائی کی صورتحال ابتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس تمام ترصورتحال کے ذمہ دار سندھ حکومت اور کراچی کے منتخب بلدیاتی نمائندے ہیں۔ میئر کراچی وسیم اختر کے مطابق انہیں کراچی کی صفائی کی ناقص صورتحال پر کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم اس کی اصل ذمہ دار سندھ حکومت ہے جس کے پاس شہر کے اصل اختیارات ہیں۔وسیم اختر کہتے ہیں کہ کراچی میں تھوڑا بہت جتنا بھی کام ہورہا ہے وہ محدود وسائل اور انتہائی کم فنڈز سے صرف بلدیہ عظمیٰ کراچی ہی کررہی ہے۔ سندھ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ذمہ داری نہ ہونے کے باوجود شہر کی بہتری کے عارضے میں مبتلا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جو کام کے ایم سی اور ڈی ایم سیز کے کرنے کے ہیں وہ سندھ حکومت کر رہی ہے۔ایک دوسرے پر الزام تراشی کی سیاست نے اس شہر کو تباہ و برباد کردیا ہے۔زمانہ گزر گیا کہ اس شہر میں ترقیاتی کاموں کا نام و نشان تک نہیں ملتا ہے۔کچھ منصوبے اگر شروع بھی کیئے جاتے ہیں تو وہ کرپشن، اختیارات کی رسہ کشی اور نا اہلی کی وجہ سے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بجائے دردِ سر بن جاتے ہیں۔اس کی واضح مثال ’’گرین لائن‘‘ کا منصوبہ ہے۔یہ منصوبہ کبھی کراچی والوں کو ریلیف فراہم کر پائے گا یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس منصوبے کی وجہ سے شہر کی حالت مزید ابتر ہوگئی ہے۔اس شہر کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔گزشتہ دنوں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کراچی کے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے جب اس شہر کو تباہ کرنے کے ذمہ داروں کی گوشمالی کی تو عوام کے دل سے دعا نکلی کہ کوئی تو ہے جو اس شہر کی بربادی کا درد محسوس کررہا ہے اور ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی بات کر رہا ہے۔چیف جسٹس صاحب نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ سندھ میں حکومت ہے نہ قانون، سندھ حکومت اور میئر کراچی کے شہریوں سے دشمنی کر رہے ہیں۔ سندھ میں صوبائی اور بلدیاتی حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے منتخب نمائندوں نے کراچی کو گوٹھ بنادیا ہے۔ یہاں مافیاز حکومتوں کو پالتی ہیں، حکومتیں ان کا کیا بگاڑیں گی؟۔ حکومتیں مافیاز کے خلاف اس لیے ایکشن نہیں لیتی ہیں کہ اگر انہوں نے کچھ کیا تو ان کا اپنا دانہ پانی بند ہو جائیگا۔ وزیراعلیٰ سندھ ہیلی کاپٹر پر دورہ کرکے آجاتے ہیں ہوتا کچھ نہیں ہے۔سندھ میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔ اگر کسی کے پاس پیسے ہیں تو وہ سب کر لیتا ہے۔صرف اور صرف لاقانونیت ہے، حکومتی رٹ کہاں ہے؟ آئین پڑھیں آئین سب کو تحفظ دیتا ہے مگر حکومت کیا کررہی ہے؟ پورے شہر میں گند ہے غلاظت ہے تعفن اٹھ رہا ہے۔ کون ٹھیک کرے گا یہ؟ بچے گٹر کے پانی میں روز ڈوب رہے ہیں۔ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے میئر وسیم اختر کے حوالے سے چیف جسٹس کا منگل کے روز کہنا تھا کہ میئر کراچی کہتے ہیں میرے پاس اختیارات نہیں، اگر اختیارات نہیں تو گھر جائو، کراچی کی جان چھوڑو، کیوں میئر بنے بیٹھے ہو۔ پورے شہر میں کچرا اور گندگی پھیلی ہوئی ہے ہر طرف تعفن کی صورتحال ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا کوئی اس شہر کیلئے کچھ کرنے والابھی ہے۔ کیا یہاں کے لوگوں کے ساتھ کسی قسم کی دشمنی نکالی جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے لوکل باڈی اور صوبائی حکومت کی اس شہر سے دشمنی ہے۔ میئرکراچی بھی شہر سے دشمنی نکال رہے ہیں۔ لوگوں نے ان کو ووٹ دیا تھا کہ کراچی کیلئے کچھ کریں گے۔ لگتا ہے یہاں کے لوگوں سے ان کی کسی قسم کی دشمنی ہے۔ ان کو خدمت کیلئے منتخب کیا تھا اور یہ کہتے ہیں میرے پاس کچھ نہیں ہے انہوں نے صرف تباہی کی ہے۔ اگر یہ کچھ نہیں کرسکتے تو جان چھوڑیں لوگوں پر کب تک مسلط رہیں گے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کب جارہے ہیں آپ؟ میئر کراچی نے کہا کہ30 اگست کو مدت ختم ہورہی ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جان چھوٹے گی لوگوں کی جائیں آپ اللہ حافظ۔ کسی نے شہر کو نہیں بنایا صرف تباہ کیا ہے۔دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ کراچی میں بجلی بحران بدترین ہوچکا، روز لوگ مر رہے ہیں نیپرا کچھ نہیں کر رہی۔ چیف جسٹس نے کے الیکٹرک کیخلاف فوری کارروائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک کے ڈائریکٹرز کو گرفتار کرکے جیل بھیجا جائے اور کے الیکٹرک کی پوری انتظامیہ کا نام ای سی ایل میں شامل کیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کراچی کو بنانے والا کوئی نہیں ہے، لوگ آتے ہیں جیب بھر کر چلے جاتے ہیں، کے الیکٹرک والے بھی یہاں مزے کر رہے ہیں۔ انہوں نے حکم دیا کہ کے الیکٹرک کی پوری انتظامیہ کا نام ای سی ایل میں شامل کیا جائے، ہم حکم نامہ بھی جاری کریں گے۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ لوگ کرنٹ لگنے سے مر جاتے ہیں لیکن نیپرا کچھ نہیں کررہی چوڑیاں پہنی ہیں سب نے کیوں کہ ان کا پیسہ کھاتے ہیں۔ہر فرد جو جاں بحق ہوتا ہے اس کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیئے اور کے الیکٹرک کے ڈائریکٹرز کو گرفتار کیا جائے اور انہیں جیل بھیجا جائے۔کراچی کا المیہ ہے کہ اس شہر میں جس کا اختیار ملا اس نے دل بھر کر اس شہر کو لوٹا اور تاراج کیا۔ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے عوامی نمائندے بھی ہیں اور بیورو کریسی کے اعلیٰ افسران بھی۔ اس شہر کی بحالی اور خوشحالی کے لیے بلاشبہ اب تک کسی نے کچھ نہیں کیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے جس انداز میں کراچی کو تباہ کرنے والوں کے خلاف برہمی کا اظہار کیا ہے اس سے امید بندھ چلی ہے کہ شاید اس شہر کے زخموں پر مرہم رکھا جائے گا۔جس طرح چیف جسٹس صاحب نے کے الیکٹرک کے تفصیلی آڈٹ کا حکم دیا ہے اور انتظامیہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی ہدایت کی ہے بالکل اسی طرز پر کراچی میونسپل کارپوریشن کے میئر اور تمام ڈسٹرکٹ مونسپل کارپوریشنز کے چیئرمینوں اور میونسپل کمشنرز کے نام ای سی ایل میں ڈال کر کے ایم سی اور ڈی ایم سیز کا تفصیلی آڈٹ کرایا جائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کراچی کی تباہی کی وجہ وسائل کی عدم دستیابی تھا؟اختیارات کا فقدان تھا؟یا مسئلہ کردار کا تھا؟عوام کے سامنے سچ آنا چاہیئے۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ملک کو لوٹنے والوں کو روکنے کے لیے ہمارے قانون میں گنجائش موجود ہی نہیں ہے۔یہاں لوگ اقتدار میں آتے ہیں عیش و عشرت کے ساتھ اپنی مدت پوری کرتے ہیں تنہا خود ہی نہیں بلکہ پورا خاندان ہر قسم کی مراعات کا حق دار قرار پاتا ہے۔ ملکی وسائل کا بے دریغ استعمال ہی نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں شیر مادر سمجھ کر پی لیا جاتا ہے اور ملکی وسائل کسی دوسرے ملک میں ان کی جائیداد اور اثاثوں کی شکل میں ظاہر ہو جاتے ہیں۔ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا کہ ملک کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کے گرد قانون کا گھیرا ذرا سا تنگ ہوا تھا تو ملک میں سیاسی طوفان کھڑا ہو گیا تھا۔متعدد میڈیکل بورڈ تشکیل دیئے گئے۔ ملک میں دستیاب تمام تر طبی سہولیات ان کی دہلیز پر فراہم کی گئیں لیکن اس کے باوجود ان کے وائٹ بلڈ سیل ہر روز ایسے نیچے گر رہے تھے جیسے پاکستانی روپیہ نیچے گر رہا ہو۔ ملک میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کی گئی اور ایئر ایمبولینس میں بیرون ملک جانے والے نواز شریف بغیر کسی اسپتال میں داخل ہوئے اور بغیر کسی طبی امداد کے چنگے بھلے لندن کی شاہراہوں پر گھوم رہے ہیں اور لندن کے ریستورانوں کی مزیدار ڈشیں چکھ رہے ہیں۔ کسی کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ ایک سزایافتہ شخص جو محض علاج کے لیے باہر بھیجا گیا تھا واپس کیوں نہیں آرہا ہے؟ہمارا قانون حسن نواز، حسین نواز اور اسحاق ڈار جیسے لوگوں کو لانے میں ناکام رہتا ہے۔کراچی میں بھی ایسی شخصیات کی طویل فہرست ہے جو اس شہر میں اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور جیسے ہی اقتدار سے الگ ہوئے ملک سے باہر چلے گئے۔وہ لوگ دبئی اور دیگر ممالک میں بھر پور زندگی گزار رہے ہیں۔ اس شہر کولولٹ کر جانے والے واپس آنے کا نام تک نہیں لیتے۔ سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے
سندھ کے سب سے طویل مدت تک گورنر رہنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا لیکن اقتدار سے الگ ہوتے ہی وہ ایسے غائب ہوئے کہ کوئی ان کی گرد کو بھی نہیں پا سکا وہ آج کل دبئی میں ایک پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں اوران کی واپسی کو کوئی امکان نہیں پایا جاتا۔ اسی طرح سابق وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ بابر غوری اربوں روپے بناکر اقتدار سے الگ ہوتے ہی کینیڈا میں ایک رئیس زادے کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ان کی پارٹیوں میں ڈانس کے دوران ڈالر لٹاتے ہوئے کی تصاویر اور ویڈیوز تو آتی ہیں وہ خود واپس پاکستان آنے کو تیار نہیں ہیں۔ اسی طرح سابق صوبائی وزیر عادل صدیقی،اویس مظفر ٹپی اور ان جیسے بے شمار لوگ ہیں جو کراچی سے بن کر باہر گئے اب قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ پا رہا ہے۔ملک میں ایسا قانون ہونا چاہیئے کہ عوامی عہدوں پر تعینات افراداور سیکریٹریز لیول کے سرکاری افسران اپنے عہدوں سے فارغ ہونے کے بعد کم از کم دوسال تک بیرونِ ملک نہ جا سکیں۔اس دوران ان کے اثاثوںکی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں۔ تحقیقات کے بعد جو لوگ صاف ستھرے ثابت ہوں انہیں باقاعدہ ایورڈ اور سند سے نواز اجائے اور جو لوگ کرپشن میں ملوث پائے جائیں انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ کل تک جو شہر دنیا بھر میں عروس البلاد کہلاتا تھا آج وہ ایک قدیم تباہ حال گوٹھ کی شکل اختیار کر چکا ہے وقت آگیا ہے کہ کراچی کو بچایا جائے اور اس کی تباہی کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
منتخب نمائندوں نے کراچی کو گوٹھ بنا دیا تحریر :شیخ راشد عالم
