چینی بزرگوں کے لئے مفت ٹرین سروس۔۔۔ارم زہرا

صبح، خنک ہوا کے نرم جھونکوں میں لپٹی ہوئی، کچھ اس انداز سے اتری گویا کسی قدیم چینی مصور کی پینٹنگ سے خامشی سے نکل کر وقت کی دہلیز پر آ ٹھہری ہو ہلکی روشنی، مدھم رنگ اور سکون کا ایک بے نام لمحہ لیے ہوئے۔میں بیجنگ کے ایک نسبتا خاموش اسٹیشن پر کھڑی تھی ، جہاں نہ کوئی ہڑبونگ تھی، نہ ہی کوئی چیختی صدائیں بس ایک ٹھہرا ہوا سا سکوت، جس میں دور سے آتی ہوئی ایک ٹرین کی سرسراہٹ کسی نظم کے مصرعے جیسی محسوس ہو رہی تھی۔یہ “سلور ٹرین” تھی ۔ چاندی کی مانند چمکتی، مہذب قدموں سے پلیٹ فارم پر اترتی ہوئی، جیسے کسی مہارانی نے ریشمی پردوں کے بیچ سے پردہ ہٹا کر سفر کی دعوت دی ہو۔ چین کی جدیدیت اور اس کے تاریخی حسن کا ایسا امتزاج میں نے پہلی بار دیکھا۔ وہ ٹرین صرف ایک ذریعہ سفر نہ تھی، وہ ایک خواب تھی ۔ چین کے نظم و ضبط، محنت اور نفاست کا رواں تبصرہ۔۔۔ سفر کے آغاز سے پہلے ہمیں ایک چھوٹا سا *Travel Guide Card* دیا گیا، جیسے کسی نرمی سے بھری ہوئی ہدایت کی خوشبو۔ یہ کارڈ صرف کاغذ نہیں، بلکہ ایک مہربان ہمسفر تھا، جو باریک بینی سے ہمارے ہر قدم کی رہنمائی کرتا تھا۔اس میں موسم کی تازہ ترین خبر تھی، تاکہ ہم اپنی پوشاک کا انتخاب حکمت سے کر سکیں، اور آرام دہ کپڑوں کی ہدایت تاکہ یہ سفر جسم و جان دونوں کے لیے سکون بخش ہو۔ بزرگوں کی حفاظت کے لیے احتیاطی تدابیر نہایت محبت سے بیان کی گئی تھیں، خاص طور پر ائیر بڈز کے استعمال کی وضاحت، جو شور سے بچا کر خاموشی اور سکون کی گونج سناتی تھی۔کارڈ میں کھانے پینے کی تفصیل بھی شامل تھی، نہایت سنبھال کر تیار کیے گئے ذائقے جو نہ صرف صحت مند تھے بلکہ ہر نوالے میں محبت کا مزہ بھی تھے۔ یہ چھوٹا سا کارڈ ایک مکمل داستان تھا، جو سفر کے ہر لمحے کو خوشگوار اور محفوظ بنانے کا وعدہ کرتا تھا۔اس کارڈ کے ساتھ ہمیں محسوس ہوا کہ ہم نہ صرف ایک ٹرین میں سوار ہیں بلکہ ایک محبت کے سمندر میں غوطہ لگا رہے ہیں، جہاں ہر تفصیل میں خیال اور احترام چھپا ہے۔ جیسے کوئی پرانا دوست ہمیں کہہ رہا ہو، “چلیں، آرام سے، ہم ساتھ ہیں۔” میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک بوڑھے مسافر، جن کی آنکھوں میں ہزاروں میل کا سفر ٹھہرا ہوا تھا، کہنے لگے “یہ ریل ہماری محنت کی ریل ہے، ہماری امیدوں کی ریل ہے…” اور اس لمحے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں صرف ایک ملک کی سرزمین نہیں، بلکہ اس کے جذبوں، خوابوں اور تہذیب کے اوپر سے گزرتی جا رہی ہوںیہ ٹرین چین نے بزرگوں کے لیے بنائی ہے وقت کے ان مسافروں کے لیے جو آج شاید آہستہ چلتے ہوں، مگر کل یہ راستے انہی کے قدموں سے آباد ہوئے تھے۔ اور آج، یہ چاندی سی ریل انہیں عزت، سکون اور احترام کے ساتھ لے جا رہی تھی شاید ان کے ماضی کی ان گلیوں کی طرف، جہاں بچپن، جوانی اور قربانیاں چھپی تھیں۔پندرہ مارچ 2025 کو چین نے اس ٹرین کا آغاز ہاربن شہر سے کیا۔ 546 مسافر، اور سب کے سب وہ چہرے جن پر وقت نے رنگ بھرا تھا ۔سفید بال، جھریاں، اور گہری آنکھیں میں ایک نوجوان مسافر کے طور پر اس ریل میں موجود تھی، لیکن اس لمحے مجھے لگا، میں کوئی سیاح نہیں، بلکہ وقت کی ایک شاگرد ہوں۔ٹرین کے اندر ہر چیز بزرگوں کے آرام کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی تھی۔ نشستیں نرم، روشنی مدھم، فرش پر پھسلن کا سوال ہی نہیں اور ہر چند قدم پر سہارا دینے والی ریلنگ ، ہر ڈبے میں طبی عملہ، آکسیجن کی سہولت، اور وہ سکون جو عام ریلوں میں کہیں نہیں ملتا۔میرے سامنے والی نشست پر ایک بزرگ بیٹھے تھے، ہاتھ میں پرانی تصویر لئے شاید اپنی جوانی کی وہ آہستہ سے بولے، “ہم نے زندگی بھر دوسروں کو سفر میں سہارا دیا، آج چین نے ہمیں سہارا دیا ہے۔”یہ سلور ٹرین صرف ایک سہولت نہیں، ایک “شکریہ” ہے ۔ان تمام بزرگوں کے لیے جو زندگی کے شور میں اکثر خاموش ہو جاتے ہیں، جن کی کہانیاں سنی نہیں جاتیں، اور جن کے لیے جدید دنیا کی تیزی بعض اوقات تنہائی بن جاتی ہے۔چین نے اِس منصوبے کو “سلور اکانومی” کا نام دیا ہے ۔ وہ معیشت جو بزرگوں کے گرد گھومتی ہے۔ اور اندازہ ہے کہ 2035 تک یہ معیشت 30 ٹریلین یوآن کو چھو لے گی لیکن میرے لیے یہ ٹرین صرف اعداد و شمار کی بات نہیں تھی، یہ جذبے کی ایک پٹڑی تھی۔کھڑکی سے باہر گزرتے سبز میدانوں اور پرانے درختوں کو دیکھتے ہوئے میں نے دل میں سوچاکاش، ہمارے ملک میں بھی کوئی ایسی سلور ٹرین ہو۔ جہاں میرے ملک کے بزرگ بنا دھکے کھائے، احترام سے بیٹھ سکیں۔ جہاں وقت صرف گھڑی میں نہ ہو، دل میں بھی ہو۔سلور ٹرین میں بیٹھے مجھے دوسرا گھنٹہ ہونے کو آیا تھا، مگر وقت جیسے ٹھہر سا گیا تھا۔ یہ وہ ریل نہ تھی جس میں لوگ وقت کے خلاف دوڑتے ہیں، یہ تو جیسے ان کے لیے بنی تھی جو وقت سے رکے ہوئے تعلق رکھتے ہیں یا شاید ان کے لیے جو وقت کو اپنے کندھوں پر اٹھائے چلتے رہے۔چین نے یہ ریل صرف بزرگوں کے آرام دہ سفر کے لیے ہی نہیں، بلکہ ان کے وقار کی بحالی کے لیے بھی متعارف کروائی ہے۔ یہ مفت ہے، جی ہاں فری آف کاسٹ ان شہریوں کے لیے جو 60 برس یا اس سے زائد عمر کے ہیں۔ حکومت نے نہ صرف کرایہ معاف کیا، بلکہ ہر اسٹیشن پر مخصوص عملہ مقرر کیا ہے جو ان کی رہنمائی، صحت، اور آرام کا خیال رکھتا ہے۔ یہ کوئی عام ٹرین نہیں یہ سفر کے ساتھ ساتھ سلوک کا بھی پیغام ہے۔ٹرین کے ایک کونے میں، کھڑکی کے قریب ایک بزرگ بیٹھے تھے۔ عمر شاید ستر کے پیٹے میں، چہرے پر وہ نقوش جنہیں زندگی نے خود اپنے ہاتھوں سے تراشا ہو۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے آنکھوں میں روشنی سی بھر کر جواب دیا۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ خود ہی گویا ہوئے”بیٹی، میرا نام لی وین ہے۔ ریٹائرڈ استاد ہوں۔ 40 سال بچوں کو تاریخ پڑھائی لیکن آج جو چین خود کر رہا ہے، وہ تاریخ میں بھی کم کم دکھائی دیتا ہے۔”ان کی آواز میں فخر کی نمی تھی۔ کہنے لگے کہ پچھلے کئی برسوں سے میری ٹانگوں میں درد ہے، اور لمبے سفر کا سوچ کر بھی میں ہچکچاتا ہوں۔ لیکن جب سلور ٹرین کے بارے میں سنا، تو یوں لگا جیسے کوئی بھولا ہوا پرانا دروازہ پھر سے کھل گیا ہو۔ “یہ پہلا موقع ہے کہ میں بغیر فکر کے، بغیر کسی تھکن یا ہراساں کیے، گھر سے دور نکل رہا ہوں۔”ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بیگ تھا ۔ بیگ میں صرف ایک جیکٹ، ایک کتاب، اور ایک چھوٹی بوتل میں چائے۔ کہنے لگے:”اب چیزیں زیادہ نہیں رکھتا، بس تجربے کافی ہو چکے ہیں۔”میں نے مسکرا کر پوچھا، “آپ کہاں جا رہے ہیں؟”بولے، “اپنے پرانے شاگردوں سے ملنے۔ جنہوں نے کبھی میرا ہاتھ پکڑ کر لکھنے کی شروعات کی تھی، آج وہ میرے لیے یہ سفر آسان بنا رہے ہیں۔”یہ بات سن کر میری آنکھوں میں نمی سی آ گئی۔ مجھے لگا جیسے یہ ٹرین صرف جسموں کو منزل تک نہیں لے جا رہی، یہ رشتوں کو، یادوں کو، اور عزت کو واپس پہنچا رہی ہے۔چین اس منصوبے کو “سلور اکانومی” کہتا ہے، مگر میرے لیے یہ “سلور عزت” ہے ۔ ایسی عزت جو نہ بولتی ہے، نہ شور مچاتی ہے، صرف عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔ٹرین کی کھڑکی سے باہر ایک چھوٹا سا گاوں گزر رہا تھا، جہاں کھیتوں میں کسان جھک کر کام کر رہے تھے۔ شاید ان میں سے بھی کوئی کل سلور ٹرین کا مسافر ہو اور میں نے دل میں ایک خاموش دعا کی کاش ہمارے ہاں بھی کوئی ریل
چلے عزت والی، خیال والی، سلور جیسی۔سلور ٹرین صرف سفر نہیں، سماج کا وہ آئینہ ہے جس میں بوڑھاپے کی مسکراہٹ قید ہو گئی ہے۔ ہر کوچ میں ہینڈ ریلز، نرم نشستیں، طبی عملہ، حتی کہ کتابیں اور چائے کی خوشبو بھی ملتی ہے ۔ ایک لمحے کو مجھے لگا کہ یہ ریل نہیں، کسی بزرگ کے خواب کی تعبیر ہے، جو برسوں پہلے کہیں اندر دفن ہو گئی تھی اور آج چین نے اسے ہاتھ تھام کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔باہر کھڑکی سے پہاڑ نظر آ رہے تھے، اور اندر دل کے اندر ایک پہاڑ سا سکون اتر رہا تھا۔ میں نے آنکھیں موند لیں ٹرین آہستہ آہستہ چل رہی تھی یا شاید وقت خود۔میں سوچنے لگی کہ جب پرانی دنیا کی گلیوں میں بیل گاڑیوں کی چرچراہٹ ہوا کرتی ہوگی ، تب شاید کسی نے خواب میں بھی نہ سوچا ہو کہ ایک دن دھرتی پر ایسی گاڑیاں دوڑیں گی جو ہوا سے تیز اور وقت سے آگے ہوں گی۔ آج کا چین انہی خوابوں کا روپ ہے۔ جہاں ٹرینیں صرف سواری نہیں بلکہ سوچ، سائنس، اور شاعری کی آمیزش ہیں۔چین کا ریل نظام دنیا کا سب سے وسیع، منظم اور جدید نیٹ ورک ہے، جس میں مختلف اقسام کی ٹرینیں الگ الگ کہانیاں سناتی ہیں۔ ہر ٹرین اپنے سفر کے ساتھ ایک نیا باب رقم کرتی ہے۔سب سے پہلے ذکر ہائی اسپیڈ ٹرینوں (High-Speed Trains) کا، جنہیں “فوکسنگ ہاو” (Fuxing Hao) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ زمین پر دوڑتی ہوئی بجلی کی لکیر معلوم ہوتی ہیں، جو 350 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں، اور بعض تجرباتی ماڈل 450 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار چھو چکے ہیں۔ ان ٹرینوں میں نہ صرف تکنیکی کمال ہے، بلکہ اندرونی خاموشی، کشادہ نشستیں، اور جدید سہولیات ہر مسافر کے سفر کو ایک خواب جیسا بناتی ہیں۔پھر آتی ہیں بلٹ ٹرینیں (Bullet Trains)، جو چین کی رفتار اور ترقی کا استعارہ بن چکی ہیں۔ ان کے ایروڈائنامک ڈیزائن اور نظم و ضبط نے دنیا کو حیران کیا ہے۔ گزرنے کے لمحے میں ہی جیسے وقت رک جاتا ہے، صرف ایک دھیمی سی ہوا کی سرسراہٹ باقی رہ جاتی ہے۔ایک اور منفرد پہلو ہے میگ لیو ٹرین (Maglev Train) کایہ وہ ٹرین ہے جو پٹری کو چھوتی بھی نہیں، بلکہ مقناطیسی قوت کے ذریعے فضا میں معلق ہو کر دوڑتی ہے۔ شنگھائی ایئرپورٹ سے شہر کے درمیان چلنے والی یہ ٹرین 431 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے مسافروں کو مستقبل میں لے جاتی ہے۔چین نے گرین ٹرینوں (Green Trains) کو بھی نہ بھلایا، جو ماضی کی یادگار ہیں اور آج بھی دیہی علاقوں اور اندرونی صوبوں کے لیے زندگی کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ یہ نسبتا سست مگر قابلِ اعتماد ٹرینیں ہیں جو وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں۔اور اب، جب بات ہو سلور ٹرینز (Silver Trains) کی، تو وہ سفر سے زیادہ ایک تجربہ ہے۔ یہ بزرگ شہریوں کے لیے تیار کردہ ریل گاڑیاں ہیں، جہاں وقت آہستہ چلتا ہے، اور سہولت، عزت اور سکون کی ہمسفری ہر قدم پر ساتھ رہتی ہے۔یہ سب اقسام کی صرف ٹرینیں نہیں، بلکہ تہذیب کا وہ آئینہ ہیں جس میں چین کی رفتار، فکر اور فطرت جھلکتی ہے۔ ہر انجن کی سیٹی، ہر اسٹیشن کی رونق، اور ہر کوچ کی روشنی اس بات کا اعلان ہے کہ چین نے نہ صرف فاصلے کم کیے ہیں بلکہ دلوں کو بھی جوڑ دیا ہے۔فولاد کی یہ نظمیں، وقت کی پٹری پر جو لکھی جا رہی ہیں، نہ صرف چین کے ماضی اور حال کا بیانیہ ہیں، بلکہ اس کے روشن مستقبل کی جھلک بھی ہیں۔ریل گاڑی میں اکثر ہم صرف کھڑکی کے باہر دیکھتے ہیں، مگر میں نے آج یہ دروازہ کھولا اندر کے لوگوں اور ان کے حالات جاننے کے لیے۔۔ کوچ کے آخر میں ایک چھوٹا سا کیبن تھا، جہاں دو نرسیں اور ایک دراز عمر ڈاکٹر بیٹھے تھے۔ سفید کوٹ، چہرے پر اطمینان، اور لہجے میں نرمی۔ میں نے اجازت لی اور چند سوالات کے بہانے ان کی خاموش دنیا میں داخل ہو گئی۔ڈاکٹر ژا نے بتایا۔ “یہ صرف ایک ٹرین
نہیں، ایک خواب ہے ۔ جو چین کی سوشل پالیسی میں برسوں پہلے دیکھا گیا تھا۔ یہاں عمر رسیدہ شہریوں کو سہولت دینا صرف احترام کا اظہار نہیں، ذمہ داری بھی ہے۔”پھر انہوں نے مسکرا کر کہا، “آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ ہم ہر روز 20 سے زائد بزرگوں کا بلڈ پریشر چیک کرتے ہیں، کچھ کو دوا دیتے ہیں، اور کچھ صرف بات کرنے آتے ہیں جی ہاں، تنہائی بھی ایک بیماری ہے۔”نرس می لی نے بتایا کہ ان کی ٹریننگ میں صرف میڈیکل نہیں، “رویہ” بھی سکھایا جاتا ہے۔ “ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہر بزرگ آپ کے اپنے والدین کی جگہ ہے۔”ڈرائیور یانگ، جو پچھلے 10 سال سے چین کی تیز ترین بلٹ ٹرین چلا چکے تھے، انہوں نے بتایا”میں نے خود یہ فیصلہ کیا کہ اب سلور ٹرین چلاوں۔ رفتار کم ہے، مگر دل کا سکون زیادہ ہے اب میں وقت کے ساتھ نہیں، دل کی مرضی سے چلتا ہوں۔”ایک معمولی سی ریل، جسے دنیا شاید “مفت سفری اسکیم” کہے، اس کے اندر جذبے، قربانی اور ذمہ داری کا ایسا گہرا سمندر ہے، جسے صرف وہی دیکھ سکتا ہے جو سفر دل سے کرے۔یہ وہ ٹرین ہے جس کا انجن اسٹیل سے نہیں، خدمت سے بنا ہے۔میں نے آنکھیں بند کیں اور تصور کیا کہ اگر میرے اپنے ملک میں پاکستان میں، ایسی کوئی ٹرین ہو؟ جیسے سلور ٹرین پاکستان ۔سفید رنگ کی ایک خوبصورت ریل، لاہور سے ملتان، کراچی سے پشاور تک، جس میں بزرگ مفت سفر کریں۔ کوچز میں نرم کرسیاں، چائے کی خوشبو، اور دروازے پر مسکرا کر استقبال کرنے والے نوجوان۔ میں نے سوچا ہماری سیاست تو بہت کام کرتی ہے، لیکن کیا ہم کبھی تہذیب پر سیاست سے پہلے بات کریں گے؟ کیا ہمارے ہاں بڑھاپا بوجھ کے بجائے اثاثہ سمجھا جائے گا؟کیا ہم بھی ایک دن ایسی کوئی ریل بنا سکیں گے جو تیز نہ ہو، مگر سچی ہو چین نے ہمیں ایک مثال دی ہے نہ صرف ترقی کی، بلکہ ترجیح کی سلور ٹرین صرف چین کی پٹریوں پر نہیں، دلوں میں بھی چل سکتی ہے اگر ہم چاہیں۔میں نے اسٹیشن کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا اور دل میں ایک دعا کی اے خدا، ہم بھی وہ قوم بن جائیں جو وقت سے آگے چلے، مگر یادداشتوں سے پیچھے نہ ہٹے۔جہاں ترقی اونچی عمارتیں نہیں، اونچے ظرف کی پہچان ہو۔جہاں ایک آہستہ، مہذب ریل ہی کسی انقلاب کی شروعات بن جائے ۔۔ ہم بھی وہ قوم بن جائیں جو وقت سے آگے ہو، مگر یادداشت سے غافل نہ ہو۔ارم زہرا ۔ چین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں