چین اور پرتگال: دو تہذیبیں، ایک دل …..ارم زہرا ۔ چین

زندگی عجیب رنگوں کی بارات ہے۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک ہی زمین پر جیتے ہیں مگر ہر خطے کی ہوا، ہر بستی کا آسمان اور ہر چہرے کی مسکراہٹ الگ قصہ سناتی ہے۔ میں ایک پاکستانی لڑکی ہوں۔ میری جڑیں سندھ کی مٹی میں پیوست ہیں، مگر قسمت نے میرے قدموں کو دو مختلف سمتوں میں باندھ دیاہے۔ ایک طرف دور مشرق میں پھیلا ہوا چین، دوسری طرف یورپ کے ساحل پر گنگناتا ہوا پرتگال اور میں، اپنے دل کی ڈائری میں ان دونوں دنیاؤں کو محفوظ کرتی ہوں۔ کبھی میں مشرق بعید کے دیس چین میں رہتی ہوں، جہاں وقت کی رفتار گھڑی کی سوئیوں سے بھی زیادہ منظم ہے، اور کبھی یورپ کے کنارے پر بسے ہوئے پرتگال میں، جہاں سمندر کی لہریں لوگوں کے دلوں کی طرح بے فکری سے بہتی ہیں۔
آج میں چاہتی ہوں کہ آپ کو اپنے دل کی کہانی سناؤں۔ وہ کہانی جس میں دو مختلف دنیاؤں کے رنگ، خوشبوئیں اور ذائقے ہیں۔ وہ کہانی جو میرے اپنے تجربات اور مشاہدات کے دھاگے سے بنی ہوئی ہے۔ چین اور پرتگال یہ دونوں ملک میرے لیے صرف جغرافیے کے نقشے پر دو نقطے نہیں بلکہ زندگی کے دو اسباق ہیں۔ ایک مجھے محنت، ضبط اور اجتماعیت کا سبق دیتا ہے، دوسرا مجھے سکون، خوش مزاجی اور انفرادیت کا۔
یہ دونوں ملک اپنی اپنی تہذیبوں اور روایات کے ساتھ میرے سامنے ایک آئینہ بن جاتے ہیں۔ جب میں چین میں ہوتی ہوں تو اپنے آپ کو ایک بڑے ہجوم کا حصہ سمجھتی ہوں، جہاں فرد کی خوشی اجتماع کے ساتھ جڑی ہے اور جب میں پرتگال میں ہوتی ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے میں ایک آزاد پرندہ ہوں جو اپنے لیے آسمان چن سکتا ہے۔
میری یہ تحریر محض سفرنامہ نہیں، بلکہ ایک تقابلی داستان ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ میرے ساتھ ان گلیوں میں چلیں جہاں ڈریگن ڈانس کی گونج ہے، اور پھر ان ساحلوں تک آئیں جہاں سمندر کی آواز فادو موسیقی میں ڈھل جاتی ہے۔ آئیے آج میں آپ کو بتاؤں کہ میرے دل میں یہ دونوں دنیائیں کس طرح آباد ہیں اور یہ مجھے کیا سکھاتی ہیں۔
چین میں وقت کی اہمیت کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ اگر آپ پانچ منٹ بھی تاخیر سے نکلیں تو پوری بس، پوری میٹرو، پورا نظام آپ کے بغیر بھی آگے بڑھ چکا ہوتا ہے۔ یہاں ہر چہرہ ایک مقصد کے تعاقب میں دوڑ رہا ہے۔ زندگی ایک مشین ہے اور ہر پرزہ اپنے حصے کا کام کر رہا ہے۔
جبکہ پرتگال میں وقت کا رویہ نرم ہے، جیسے گھڑی کی سوئیاں بھی سست روی سے سانس لے رہی ہوں۔ یہاں لوگ کیفے کی میز پر بیٹھے کافی کے ایک گھونٹ کو لمحوں کی طرح پیتے ہیں۔ کسی شام سمندر کے کنارے بیٹھے پرتگالی کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ وہ وقت کو گود میں بٹھائے کہانیاں سنا رہا ہے۔
چین میں خاندان صرف چار دیواری نہیں بلکہ ایک مضبوط قلعہ ہے۔ والدین کی عزت، بزرگوں کا احترام اور اجتماعی سوچ ایسی روایت ہے جسے توڑنا ممکن نہیں۔ یہاں نوجوان اپنی خواہش کے بجائے خاندان کی مرضی کو مقدم رکھتے ہیں اور ذاتی فیصلے بھی زیادہ تر اجتماعی مشاورت سے طے کیے جاتے ہیں۔
اس کے برعکس پرتگال میں خاندانی رشتے نرم دھاگوں سے بندھے ہیں۔احترام موجود ہے مگر زیادہ دوستانہ اور غیر رسمی انداز میں۔ دادا، دادی بھی کیفے میں بیٹھ کر ہنستے کھیلتے ہیں اور خاندان کے افراد آپس میں خوشگوار تعلقات رکھتے ہیں۔ تاہم پرتگال کا فیملی سسٹم نسبتاً کمزور سمجھا جاتا ہے۔ لوگ شادیاں کرنے میں کم دلچسپی لیتے ہیں اور بچوں کی پیدائش کی شرح بھی بہت کم ہے۔ نوجوان ذاتی آزادی اور انفرادی ترجیحات کو ترجیح دیتے ہیں۔
چین اور پرتگال کی ثقافت اور روایات کے بارے میں بات کی جائے تو چین کے تہوار خوابوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ قمری سال کے آغاز پر آسمان پر لالٹینیں ایسے جھلملاتی ہیں جیسے ستارے زمین پر اتر آئے ہوں۔ ڈریگن ڈانس اور آتشبازی دیکھ کر لگتا ہے جیسے صدیوں پرانی تہذیب آج بھی سانس لے رہی ہے۔ جبکہ دوسری جانب پرتگال کے میلوں میں آزادی کی خوشبو ہے۔ فادو کی موسیقی جب کانوں میں اترتی ہے تو دل ایک ساتھ ہنستا بھی ہے اور روتا بھی ہے۔ پرتگالی کارنیوال رنگوں اور قہقہوں کا سمندر ہیں۔
چلیےاب ذرا چین اور پرتگال کے ذائقوں کی رنگین دنیا میں قدم رکھتے ہیں۔
چین اور پرتگال کے کھانے اپنے ذائقے اور انداز میں ان کی تہذیب کی جھلک دکھاتے ہیں۔ چین میں کھانے سادہ اور ہلکے ہوتے ہیں۔ اُبلی ہوئی سبزیاں، بھاپ پر پکے چاول اور سوپ عام روایت ہیں۔ یہاں کھانے کا مقصد صرف پیٹ بھرنا نہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر بانٹنے کا عمل ہے، جو ان کی اجتماعی سوچ اور تہذیبی اقدار کی علامت ہے۔ دوسری طرف پرتگال کا کھانا ذائقے اور رنگینی کا جشن ہے۔ سمندری غذا ان کی پہچان ہے، جبکہ زیتون کے تیل اور خوشبودار مصالحوں سے تیار کھانے ان کے دسترخوان کو خوشبو سے بھر دیتے ہیں۔ پرتگالی ثقافت میں کھانے کے ساتھ ہنسی، گفتگو اور لمبی شاموں کا تصور جڑا ہے، جو ان کے زندگی سے بھرپور اور خوش مزاج رویے کی عکاسی کرتا ہے۔
آئیے چین اور پرتگال کے معاشرتی رویوں پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔ چینی لوگ کم گو اور سنجیدہ مزاج کے حامل ہیں، وہ زیادہ تر اپنی ذمہ داریوں اور کام میں ڈوبے رہتے ہیں۔ ان کے چہروں پر قہقہے کم نظر آتے ہیں مگر ان کی آنکھوں میں محنت اور لگن کی روشنی جھلکتی ہے۔ اس کے برعکس پرتگالی لوگ بے تکلف اور خوش مزاج ہیں۔ وہ اجنبی کو بھی مسکرا کر خوش آمدید کہتے ہیں، اور کیفے میں بیٹھا ایک شخص چند لمحوں میں دوست بن سکتا ہے۔ ان کی گلیاں قہقہوں اور خوشگوار محفلوں سے جانی جاتی ہیں، جو ان کی زندہ دلی اور خوش اخلاق معاشرتی رویے کی پہچان ہیں۔
اگر چین کے شہروں کا رخ کیا جائے تو وہاں بلند و بالا عمارتوں، روشنیوں اور انسانوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔ یہ شہر جدیدیت اور مصروف زندگی کی علامت ہیں، لیکن جیسے ہی دیہات کا رُخ کریں تو منظر یکسر بدل جاتا ہے۔ کھیتوں میں محنت کرتے کسان اور پہاڑوں کی خاموشی ایک سادہ مگر دل کو چھو لینے والی زندگی کا عکس پیش کرتے ہیں۔ دوسری جانب پرتگال کے شہر نسبتاً چھوٹے مگر خوش رنگ ہیں۔ لزبن کی پتھروں سے جمی گلیاں اور سرخ چھتیں دیکھنے والے کو کسی پرانی کہانی کے اوراق یاد دلاتی ہیں۔ ساحل کے قریب واقع دیہات میں زندگی سمندر کی لہروں کے ساتھ دھڑکتی ہے، جہاں فضا میں سکون اور دلکشی کی خوشبو رچی بسی ہے۔
اب ذرا لباس اور اندازِ زیست کی بات کریں تو ایک دلکش فرق نمایاں ہوتا ہے۔ چین میں روزمرہ زندگی میں مغربی لباس عام ہے، مگر تہواروں اور خاص مواقع پر لوگ اپنے روایتی ملبوسات چیونگسم اور ہانفوفخر سے پہنتے ہیں۔ یہ امتزاج اس بات کا ثبوت ہے کہ جدیدیت کے طوفان کے باوجود روایت اپنی جڑوں میں زندہ ہے۔ اس کے برعکس پرتگال میں لباس مکمل طور پر مغربی ہے، مگر ان کے کپڑوں کے رنگ اور ڈیزائن ایک خاص شوخی اور خوش مزاجی لیے ہوتے ہیں۔ وہ چاہے سادہ لباس پہنیں، مگر مسکراہٹ اور اعتماد ان کے وجود کو ایسا روپ عطا کرتے ہیں جو کسی زیور سے کم نہیں۔ یہی فرق ان دونوں تہذیبوں کے اندازِ زیست میں بھی جھلکتا ہے
اب بات کریں مذہب اور روحانیت کی تو دونوں ملکوں کے رویے ایک دوسرے سے بالکل جدا دکھائی دیتے ہیں۔ چین میں بدھ مت، تاؤ مت اور کنفیوشس کی تعلیمات اب بھی لوگوں کی روزمرہ زندگی میں جھلکتی ہیں۔ یہاں مذہب کو عبادت سے زیادہ اخلاقیات اور فلسفہ سمجھا جاتا ہے، اسی لیے چینی لوگوں کی گفتگو، ان کے صبر، اور ان کی خاموشی میں ایک عجیب سا وقار محسوس ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پرتگال میں کیتھولک عیسائیت کی گہری جڑیں ہیں۔ چرچ کی گھنٹیاں دن کے سکوت کو توڑ کر ایک روحانی فضا قائم کر دیتی ہیں۔ وہاں کی عبادت گاہیں صرف مذہبی نہیں بلکہ سماجی مراکز بھی ہیں، جہاں لوگ مل بیٹھتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، اور اپنی روح کو سکون دیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں جگہ مذہب اور روحانیت اپنی شکل میں مختلف ضرور ہیں، مگر مقصد ایک ہی ہے۔ دل کے اضطراب کو سکون دینا اور زندگی کو معنویت عطا کرنا۔ پرتگال کے چرچوں کی گھنٹیاں مجھے اذان کی یاد دلاتی ہیں ۔ ہر گھنٹہ مجھے یاد دلاتا ہے کہ پاکستان میں مساجد سے گونجتی اذان کی آواز میں کتنا سکون تھا ۔
ادب اور فنون کا ذکر نہ کیا جائے تو دونوں تہذیبوں کی تصویر ادھوری رہتی ہے۔ چین کا ادب اور شاعری صدیوں پرانا خزانہ ہے۔ لی بائی اور دو فو کی شاعری ان کے دل کی گہرائیوں کی عکاسی کرتی ہے۔ خطاطی ان کے فن کا زیور ہے۔
پرتگال کا ادب لوئیس دی کاموئش کی نظموں اور فادو کی دھنوں میں زندہ ہے۔ پرتگالی ادب میں سمندر کا استعارہ ہر جگہ دکھائی دیتا ہے، جیسے وہ اپنی روح کو پانی سے جوڑ بیٹھے ہوں۔ چین میں قدیم شاعری اور خطاطی کو ایسی عظمت حاصل ہے جیسے یہ وقت کو روکنے والی کوئی قوت ہو۔ چین کا ادب اجتماعیت اور فلسفے کی گہرائی سکھاتا ہے، جبکہ پرتگال کا فن انسان کے دل میں چھپے دکھ اور خوشی دونوں کو آواز دیتا ہے۔ دونوں ملکوں کی فنی روایات ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہیں، مگر دونوں انسان کی روح کو چھو جانے والی تاثیر رکھتے ہیں۔
قدرتی مناظر کی بات کی جائے تو دونوں ملک اپنی اپنی جگہ جادوئی دلکشی رکھتے ہیں۔ چین کے پہاڑ، دریاؤں کے کنارے اور کھیتوں کی وسعت محنت اور جدوجہد کی علامت ہیں۔
پرتگال کے ساحل اور غروبِ آفتاب سکون اور امید کا پیغام دیتے ہیں۔ وہاں بیٹھ کر لگتا ہے جیسے سمندر ہر دکھ کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔
لزبن کے قریب سمندر پر بیٹھ کر جب سورج آہستہ آہستہ پانی میں ڈوبتا ہے تو لمحہ بھر کے لیے محسوس ہوتا ہے کہ وقت تھم گیا ہے اور کائنات نے اپنی ساری رنگینی اس منظر پر لٹا دی ہے۔ چین کے پہاڑ حوصلے کا استعارہ ہیں تو پرتگال کے ساحل سکون کا پیغام یوں دونوں کی خوبصورتی دل کو دو مختلف مگر یکساں حسین انداز میں چھو لیتی ہے۔
چین اور پرتگال، دونوں اپنی روایت اور جدت کے حسین امتزاج کی پہچان رکھتے ہیں مگر انداز مختلف ہے۔ چین میں روایت ہر گلی میں جھلکتی ہے۔کہیں قدیم معبد کی گھنٹیوں کی آواز میں، کہیں تائی چی کرتے بزرگوں کے سکون بھرے ہاتھوں میں۔ لیکن ساتھ ہی جدیدیت کی رفتار اتنی تیز ہے کہ انہی پرانی عمارتوں کے سائے میں فلک بوس ٹاور کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے روایت اور جدیدیت ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ہیں۔ اس کے برعکس پرتگال میں یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتے ہیں۔ پرانی پتھریلی گلیاں اور جدید کیفے ایسے لگتے ہیں جیسے روایت اور جدت ایک ہی میز پر بیٹھ کر دوستانہ گفتگو کر رہے ہوں۔ پرتگال میں جدت پرانے کو مٹاتی نہیں، بلکہ اسے ساتھ لے کر چلتی ہے۔
چین جہاں ہر سال نئی فلک بوس عمارت کھڑی ہوتی ہے، ہر سڑک کے ساتھ نیا مال، اور ہر شہر میں نئی ٹرین۔ جدت نے قدامت کو ایک کونے میں سجا دیا ہے۔ پرانے محلے اکثر گر کر نئی تعمیر کو جگہ دے دیتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے چین کہتا ہے: “ماضی کو یاد رکھو، مگر حال کی رفتار میں رکو مت۔
میں جب پہلی بار میں دیوار چین پر کھڑی ہوئی تو سوچا یہ صرف اینٹوں کی دیوار نہیں، بلکہ محنت، دفاع اور عزم کی علامت ہے۔ صدیوں پہلے تعمیر ہونے والی یہ دیوار آج بھی چین کے حوصلے کا ثبوت ہے۔ اسی طرح بیجنگ کے “فوربڈن سٹی” میں گھومتے ہوئے مجھے لگا جیسے میں بادشاہوں اور شہنشاہوں کے زمانے میں پہنچ گئی ہوں۔ یہاں ہر پتھر اور ستون ایک کہانی سناتا ہے۔ چین کی تہذیب ہزاروں سال پر محیط ہے، اور یہ لوگ اپنی ترقی کے باوجود اپنے ماضی کو بھولے نہیں۔
پرتگال کا قصہ مختلف ہے۔ جب میں لزبن کی قدیم عمارتوں کے سائے میں چلتی ہوں تو مجھے مسلمانوں کی یاد آتی ہے، جنہوں نے آٹھ سو سال یہاں حکومت کی۔ پرتگال کی زبان، فنِ تعمیر اور کھانوں میں عرب اثرات آج بھی جھلکتے ہیں۔ الفاما کی تنگ گلیاں، گرجا گھروں کے پہلو میں کھڑی مساجد کی پرانی بنیادیں، اور محراب دار کھڑکیاں مجھے اپنے ہی ماضی کی جھلک دکھاتی ہیں۔
چین کی ترقی آج دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ وہاں کی تیز رفتار ٹرینیں، جدید ٹیکنالوجی، اور عالمی معیشت میں ان کا مقام حیران کن ہے۔ مگر ساتھ ہی مجھے خوشی ہوتی ہے کہ اس دوڑ میں بھی ان کے لوگ مہمان نواز اور ملنسار ہیں۔ میں نے اکثر اجنبی چہروں سے مسکراہٹ پائی، اور چھوٹے شہروں میں بزرگوں کو صبح کے وقت تائی چی کرتے دیکھا جیسے وہ اپنے ماضی اور حال کو ایک ہی لَے میں باندھتے ہوں۔
پرتگال اس دوڑ میں چین کے مقابلے میں سست ہے، مگر اس کا حسن اسی سست روی میں ہے۔ وہاں شام ڈھلتے ہی لوگ کیفے میں بیٹھ کر کافی پیتے ہیں، فادو کی موسیقی سنتے ہیں، اور زندگی کو ایک فن کی طرح برتتے ہیں۔ ان کے پاس دنیا کو حیران کرنے کے لیے فلک بوس عمارتیں نہیں، مگر وہ اپنے سمندر، اپنی تاریخ اور اپنی خاموشی کو ایک خزانے کی طرح سنبھالے ہوئے ہیں۔
ویزے کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستانی شہریوں کے لیے چین کا ویزا نسبتاً آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے، جبکہ پرتگال یا دیگر یورپی ممالک کے شینگن ویزے کے لیے زیادہ دستاویزات اور تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ایک مشکل اور صبر آزما پروسیس ہوتا ہے ۔
میں جب ان دونوں ملکوں کا موازنہ کرتی ہوں تو سوچتی ہوں
چین مجھے سکھاتا ہے کہ خواب بلند رکھو اور ان کے لیے دن رات محنت کرو، اور پرتگال مجھے یاد دلاتا ہے کہ زندگی صرف محنت نہیں، سکون اور خوبصورتی بھی انسان کا حق ہیں۔ مگر ہر روشنی کے بعد دل سب سے زیادہ اپنے پاکستان کی یاد میں بہک جاتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ یہ تجربات اور رنگ اپنے اندر سمیٹ کر اپنی مٹی، اپنی زبان، اپنی گلیوں اور اپنے لوگوں کی محبت میں واپس لوٹ آؤں، کیونکہ میری اصل پہچان یہی ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں