میں نے بیجنگ کے تیز رفتار سب وے سے قدم باہر رکھا تو یوں لگا جیسے تاریخ اورمستقبل نے یک جان ہو کر میری انگلی پکڑ لی ہو۔ صبح کی کرنوں میں ممنوعہ شہر کی سرخ دیواریں انگڑائیاں لے رہی تھیں اور انہی دیواروں کے سائے میں لگے خودکار اسکینرز میرے چہرے کے زاویے نوچ نوچ کر اپنی یادداشت میں محفوظ کر رہے تھے۔ میں نے ہر سو اٹھتی ہوئی اس آہٹ کو سنا صدیوں پرانی اینٹوں کی خاموش سرگوشی اور مصنوعی ذہانت کے برقی زمزمے کی ملی جلی آواز ، یہی تو بیجنگ ہے ‘‘ایک فقیر کے ہاتھ میں ٹین کا کٹورا اور برابر میں کسی انجینئر کی ہتھیلی پر چمکتا ہوا کیو آر کوڈ۔
مجھے یاد ہے بچپن میں جب میں سفرنامے پڑھتی تھی ، تب سوچتی تھی، کیا واقعی راستے ہم سے مکالمہ کرتے ہیں؟ آج، میں انہی سطروں کے سنگ کسی بے نام کبوتر کی طرح قدیم سنگِ مرمر پر پھسلتی جا رہی تھی۔ محلِ معبودات کے بلند دروازے کے سامنے ٹھہر کر میں نے دْور سے آتی اْس دوپہر کو دیکھا جو صدیوں پہلے کسی شہنشاہ کے تاج میں مقید تھی۔ ہوا میں لوبان کی مدھم خوشبو تھی، مگر اْسی لمحے میری جیب میں رکھا موبائل تڑپ اٹھا Alipay کی ایک نئی ٹون نے اعلان کیا کہ میری بس کا بل خود بخود ادا ہو چکا تھا۔
یہ تضادات شاید بیجنگ کی سب سے بڑی تہذیبی معرکہ آرائی ہیں۔ لکڑی کے جھروکوں سے جھانکتا کونفوشس اور بغل میں سلور ڈرون، جو سیلفی اسٹک کی جگہ لینے کو مچل رہا ہے۔ ایک جھٹکے میں خیال آیا کہ میں یہاں تماشائی نہیں، خود داستان کی راوی ہوں۔‘‘محل کی سلوں پر وقت چٹان کی طرح جما ہوا ہے، مگر میری انگلی کی پور میں بہتا ڈیجیٹل نبض کا قاصد مجھے بتاتا ہے کہ اب لمحہ صدیاں بن کر گردش نہیں کرتا، بلکہ کلاؤڈ سرور پر اَپ لوڈ ہو جاتا ہے۔’’
دوپہر ڈھل رہی تھی۔ میں ہْوٹونگ کی تنگ گلیوں میں سے گزری۔ چھوٹی سی چائے کی دکان کے باہر بیٹھے نانا جیسی داڑھی والے بزرگ مجھے دیکھ کر مسکرائے۔ اْن کی میز پر پرانی چائے دانی کے ساتھ ایک چھوٹا سا روبوٹ رکابیوں کا حساب لگا رہا تھا۔ بزرگ نے میری حیرت بھانپ لی، کہنے لگے ‘‘ہماری ثقافت کو کوئی بدل نہیں سکتا، بیٹی۔ صرف اس کے ملبوس بدل جاتے ہیں۔’’ میں نے یہ سنا تو مجھے اپنے اندر ٹھنڈک اتری ہوئی محسوس ہوئی، جیسے کسی روحانی فقیر نے شہرِ شور میں امید کا دیپ جلا دیا ہو۔
شام کے نیلے سائے دھند کی چادر کی طرح پھیلنے لگے۔ ممنوعہ شہر کی دیواریں نِت نئے رنگ اوڑھ کر ایک خوابیدہ دیو کا رْوپ دھار رہی تھیں۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا اوپر ہولوگرام لائٹس نے آسمان پر سرخ ڈریگن بْنا تھا نیچے سنگِ سجدہ پر تاریخ اب بھی اپنی لمبی قمیص سنبھالے ہوئے تھی۔
‘‘بیجنگ وہ آئینہ ہے جس میں ماضی اور مستقبل ساتھ جھانکتے ہیں۔اگر تم دل کی آنکھ سے دیکھو تو اْن دونوں کی تصویر تمہارے اندر کی دیوار پر نقش ہو جاتی ہے۔’’
میں نے ڈائری بند کی۔ یہ تو ابھی شروعات ہے آگے نجانے کتنے در کھلنے والے ہیں۔ میں ایک خواب میں داخل ہو چکی ہوں، مگر جاگنے کی کوئی جلدی نہیں…’’
اگلی صبح سورج چائے کی پیالی جیسا سنہرا تھا، جس میں آسمان کی نیلاہٹ گھلی ہوئی تھی۔ میں ‘‘تین آنکھوں والے’’ اسمارٹ ہوٹل کے کمرے سے نیچے اتری، جہاں نہ دربان تھا، نہ استقبالیہ۔ ایک چھوٹا سا روبوٹ میرے استقبال کو بڑھا، اور اْس نے مسکرا کر کہا
‘‘صبح بخیر، محترمہ لی! آپ کی کافی تیار ہے۔’’
میں چونکی۔ ‘‘لی؟’’
پھر یاد آیا، یہاں غیر ملکیوں کے نام بھی مشینیں آسانی سے بدل دیتی ہیں۔ میرا نام، میری شناخت… سب ڈیجیٹل ترجمے میں تحلیل ہو چکے تھے۔
ہوٹل کے باہر بیجنگ کی سڑکیں ایک نظم کی مانند کھنک رہی تھیں۔ سست رفتاری سے چلنے والی سائیکلوں کی جگہ اب بجلی سے دوڑتے ہوئے اسمارٹ بائیکس نے لے لی تھی۔ لیکن ان میں سے کچھ کے پیچھے اب بھی سرخ کپڑے میں لپٹی ٹفن کی چھوٹی سی گٹھریاں لٹکی ہوئی تھیں وہی ماں کے ہاتھ کی روٹی، بس اب ہوم ڈیلیوری سروس کی ‘ایپ’ میں چھپی ہوئی۔
میرا رخ ‘‘798 آرٹ زون’’ کی جانب تھا۔ یہ پرانی فیکٹریوں کی بستی ہے، جہاں لوہے کی بھٹیوں میں اب خواب تپائے جاتے ہیں۔ دیواروں پر لگے گرافٹی کسی صوفی کا کلام لگتے تھے ‘‘مشینوں میں سانسیں ڈالنا، یہی نئی شاعری ہے۔’’
ایک نوجوان چینی مصور سے ملاقات ہوئی، جس کے برش نے کسی زمانے کے سرخ انقلاب کو نیون روشنیوں میں لپیٹ کر دوبارہ جنم دیا تھا۔اس نے کہا ‘‘ہمیں ماضی سے محبت ہے، مگر ہم اْسے جیب میں رکھ کر چلتے ہیں، بوجھ بنا کر نہیں۔’’
شام کی طرف پلٹتے ہوئے میں ‘‘تھیان آن مِن اسکوائر’’ کے قریب رک گئی۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں تاریخ کے پاؤں میں زنجیر بھی پڑی، اور پر بھی لگے۔
میرے آس پاس ہر شخص مصروف تھا۔موبائل پر وی چیٹ، چہرے پر سکون، اور قدموں میں رفتار۔ میں نے محسوس کیا، یہاں کے لوگوں کو اپنے ماضی پر فخر ہے، مگر وہ اْسے کسی عجائب گھر کی طرح نہیں رکھتے، بلکہ روز جیتے ہیں، روز برتتے ہیں۔
تبھی ایک بچی دوڑتی ہوئی میرے قریب آئی۔ اْس کے ہاتھ میں ہولوگرام پتنگ تھی، جو ہوا میں چمکتے ستارے بکھیر رہی تھی۔ اْس نے مجھ سے کہا، ‘‘یہ پتنگ بھی اب نیٹ سے کنٹرول ہوتی ہے!’’
میں مسکرا دی۔ ‘‘اور تم؟ تمہیں کون کنٹرول کرتا ہے؟’’
وہ ہنسی، اور بھاگ گئی۔
شاید یہی بیجنگ کا حسن ہے یہ سوالوں کا شہر ہے، جوابوں کا نہیں۔
رات کو واپس ہوٹل آ کر میں نے دوبارہ اپنی ڈائری کھولی اور لکھا
‘‘بیجنگ وہ خواب ہے، جو مصنوعی ذہانت سے بْنا گیا ہو، اور دادی اماں کی گود میں جا کر تعبیر پاتا ہو۔ یہاں دیواریں سنتی ہیں، مشینیں بولتی ہیں، اور انسان…؟ وہ اب بھی صرف محسوس کرتا ہے۔’’
میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ شہر کے آسمان پر نیون روشنیوں نے پھر سے ایک اڑدہے کی صورت اختیار کر لی تھی۔ شاید تہذیب کی نئی صورت… شاید بیجنگ کا اصل چہرہ۔ اور میں؟
میں تو ابھی آئینے میں جھانک رہی تھی۔ یہاں رہتے ہوئے ایک بات جو ہمیشہ دل کو چھو جاتی ہے کہ ‘‘یہاں ترقی نے فطرت کا دامن نہیں چھوڑا بلکہ اسے ساتھ لے کر چلی ہے…
دن چڑھتے ہی میں نے محسوس کیا کہ بیجنگ اب صرف تاریخ یا ٹیکنالوجی کا شہر نہیں رہا۔ یہ فطرت کا ہمراز بھی ہے۔ کھڑکی سے جھانکا تو سورج کی کرنیں کسی خاموش عبادت کی طرح سولر پینلز پر اتر رہی تھیں۔ ہوٹل کی چھت پر لگے سیاہ چمکتے پینل گویا آسمان سے دعا وصول کر رہے تھے، اور زمین کی گود میں روشنی کا صدقہ اتار رہے تھے۔
میری اگلی منزل ‘‘یانگ زہو سولر سٹی’’ کے ایک ماڈل ٹاؤن کی سیر تھی، جو بیجنگ سے باہر چند گھنٹوں کی مسافت پر تھا۔ ایک خودکار الیکٹرک بس نے مجھے اپنی آغوش میں لیا۔ کوئی شور نہیں، کوئی دھواں نہیں۔ جیسے ہوا کے بازو پر سفر ہو رہا ہو۔ راستے میں سبز پہاڑ، بامبو کے جھنڈ، اور ان کے بیچ چھپی ہوئی سولر پلیٹس، جن کی سطح پر سورج خود کو تکتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔
میں نے نوٹ کیا کہ سڑک کنارے لگے درختوں کے نیچے چھوٹے چھوٹے روبوٹ صفائی کرتے پھرتے تھے۔ ایک راہگیر نے مجھے بتایا
‘‘یہ صرف صفائی نہیں کرتے، ان میں فضائی آلودگی کو جذب کرنے والے مائیکرو فلٹر بھی لگے ہیں۔’’ میں حیرت سے سن رہی تھی، جیسے کوئی قدرت اور ٹیکنالوجی کی محبت کی کہانی سنا رہا ہو۔
سولر سٹی میں پہنچ کر مجھے لگا جیسے کسی سائنسی خواب کا منظر ہوں۔ ہر گھر کی چھت پر سورج کی گود سے آئی روشنی کے خزانے سجے تھے۔ بچوں کا اسکول بھی ایک سبز عمارت تھی، جو دن کی روشنی سے اپنی بجلی خود پیدا کرتا، اور بارش کے پانی کو جمع کرکے پودوں کو سیراب کرتا تھا۔
ایک بزرگ خاتون سے ملاقات ہوئی۔ چہرے پر جھریاں اور ہونٹوں پر تبسم۔ وہ ایک چھوٹے باغ میں کام کر رہی تھیں، جہاں روبوٹک آبیاری نظام لگا تھا۔ میں نے پوچھا،
‘‘آپ جیسے سادہ سے دیہی لوگ اس سب میں گھبرا تو نہیں جاتے؟’’
وہ بولیں،
‘‘ہم نے تو صدیوں تک آسمان دیکھا ہے بیٹی، اب اگر آسمان ہم پر مہربان ہو گیا ہے، تو اس سے ڈرنے کا کیا فائدہ؟’’
میں نے سوچا ‘‘یہاں سورج صرف روشنی نہیں دیتا، یہ شناخت بن چکا ہے۔ ہر چھت پر اس کا ایک عکس، ہر دیوار پر اس کا نشان… گویا سورج نے شہر کے باسیوں سے وعدہ کیا ہو کہ میں تمہیں جلاتا نہیں، سنوارتا ہوں۔’’
واپسی پر بس میں بیٹھے بیٹھے میں نے ایک چھوٹے بچے کو دیکھا اس کے اسکول بیگ پر لکھا تھا:
?‘‘Green is not a colour, it’s our future.’’
میں مسکرا دی۔ بیجنگ اب صرف ماضی کا فخر یا مستقبل کی دوڑ نہیں، بلکہ حال میں سانس لیتا ہوا ایک شعور ہے ایسا شعور جو یہ جان چکا ہے کہ اگر ترقی کرنی ہے، تو درختوں کا ہاتھ تھام کر، اور ہوا سے دوستی کر کے۔ یہ خیال ابھی دل کی زمین پر شبنمی حروف کی طرح چمک ہی رہا تھا کہ اسٹیشن کے لاو?ڈ اسپیکر نے آگے بڑھنے کا اشارہ دے دیا۔ میں نے ڈائری بند کی، سانس میں درختوں کی مہک سمیٹی، اور مستقبل کی پٹری پر قدم رکھا وہاں جہاں ہوا اور الگورتھم بغل گیر ہوتے ہیں۔
میری اگلی منزل ہانگڑو تھی۔ بلٹ ٹرین کے شیشوں سے باہر دوڑتے مناظر یوں بدلتے رہے جیسے کسی جادوئی ورق گر کتاب کے صفحے پلٹ رہے ہوں۔ چند ہی گھنٹوں میں میں نے خود کو ہانگڑو کے جدید اسٹیشن پر پایا، جہاں پلیٹ فارم پر اترتے ہی ایک نامعلوم سی روشنی نے میرا استقبال کیا۔ کوئی سویچ تلاشنے کی ضرورت نہ پڑی۔ سینسر نے میری آہٹ محسوس کی اور دھیمی نارنجی لائٹ نے میرے تھکے قدموں کو آہستہ آہستہ آگے بڑھنے کا راستہ دکھایا۔ یہ شہر تھا مگر خواب کی سطح پر تیرتا ہوا۔ ایسا خواب جس میں جاگنے کا اختیار بھی کسی خفیہ الگورتھم کے پاس تھا۔
ہانگڑو کے ‘‘سٹی برین’’ کنٹرول روم تک پہنچنے کے لیے میں نے محض ایک کیو آر کوڈ اسکین کیا۔ بس کے دروازے نے پاس آ کر خود کو میرے قد کی مناسبت سے جھکا لیا، جیسے کوئی پرانا نوکر شرفاء کی تعظیم میں سر جھکاتا ہے۔ کھڑکی سے باہر دیکھتی تو محسوس ہوتا تھا کہ سڑکیں سانس لیتی ہیں۔ ٹریفک لائٹس اپنے رنگ مسافروں کے ہجوم اور رفتار کو پڑھ کر بدلتی تھیں۔ ایک لمحے کو میری نظر سامنے اشارے پر رکی سرخ سے ہرا ہونے میں صرف اتنا وقفہ لگا جتنا میں نے اپنی پلک جھپکی۔ میں نے دل ہی دل میں کہا ‘‘یہاں وقت بھی شاید کسی سرور پر اَپ لوڈ ہے، جہاں لیٹ ہونے کا کوئی بہانہ باقی نہیں رہتا۔’’
سٹی برین کے وسیع ہال میں داخل ہوتے ہی دیوار پر لگی دیوہیکل اسکرین گویا شہر کی دھڑکن کا گراف بن گئی۔ کہیں ٹریفک کے بہاؤ کے نیلے دھبّے، کہیں شہری حدِ رفتار کے سرخ نقطے، کہیں بارش کی آمد کے سنہری پھوار کی پیش گوئیاں۔ ایک انجینئر نے مسکرا کر بتایا ‘‘ہم نے شہر کو پڑھنا سیکھ لیا ہے اب یہ خود ہمیں پڑھاتا ہے۔’’ یہْ سْن کر میں نے سوچا، شاید یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کی عقل اور شہر کی عقل ایک دوسرے کو آئینہ دکھاتی ہیں۔
شام ڈھلے میں ‘‘قِیان جیان نیو ٹاؤن’’ کی جانب نکل پڑی۔ یہاں ہر سڑک کے کنارے ننھے روبوٹ کوڑے دان سے کچرا چن رہے تھے۔ کوئی چیخا نہیں، کوئی ٹرک کا شور نہیں۔ بس پہیوں کے نرم سرسرانے کی آواز، اور کبھی کبھار کسی روبوٹ کی خفیف سی ونڈ چلڈ نوٹفکیشن۔ ایک بوڑھی خاتون راستہ پار کرتی دکھائی دیں۔ اسمارٹ زیبرا کراسنگ نے اْن کے چلنے کی رفتار کو پہچانا اور پورا ٹریفک روکے رکھا، یہاں تک کہ وہ مسکراتی ہوئی دوسری طرف پہنچ گئیں۔ میرے لیے یہ منظر اور بوڑھی خاتون کا احترام محبت اور اپنائیت کا خوبصورت لمحہ تھا شاید یہاں رْک جانا بھی رفتار کا حصہ ہے اور مہلت بھی ٹیکنالوجی کی مہربانی ہے۔
رات کو ویسٹ لیک کے کنارے کھڑی ہوئی تو پانی پر چاند کی پرچھائیں کے ساتھ رنگ بدلتی ایل ای ڈی فوارے جھلملا رہے تھے مگر فطرت خفا نہ تھی۔ ہر رنگ وسطِ جھیل میں عین اتنا چمکتا جتنا اردگرد بانس کے جھنڈ برداشت کر سکتے تھے۔ میں نے ہوا میں نمی اور الگورتھم کی ملی جلی
خوشبو محسوس کی جیسے چائے کی پیالی میں کسی نے ڈیٹا کی چٹکی شامل کر دی ہو۔
واپسی کے وقت موبائل ایپ نے میری رائیڈ خود منتخب کی اور بل کی ادائیگی بھی۔ میں نے غیر ارادی طور پر پرس کھولنا چاہا ، پھر ہنس دی یہ عمل اب کتابوں میں رہ گیا تھا۔ ہوٹل کی لابی میں داخل ہوئی تو بتیاں یکایک روشن ہو گئیں۔ لگتا تھا روشنی نے میرے اندر کے اندھیرے کو بھی پڑھ لیا ہو۔ ‘‘ ہانگڑو عالمِ خواب کی وہ گلی ہے، جہاں بٹن نہیں دبائے جاتے، ارادے پڑھ لیے جاتے ہیں اور شہر، جسے کبھی چین کے باسیوں نے بسایا تھا، اب خود بستیاں بساتا پھرتا ہے۔’’
ہانگڑو سے بیجنگ کی جانب سفر کرتے ہوئے میں نے اپنے سفریہ لمحوں کے ورق تہہ کرتے ہوئے محسوس کیا کہ ہر شہر نے میرے ہاتھ پر الگ الگ خطوط کھینچے، مگر جب انہیں جوڑا تو ایک ہی نقشہ بنا۔ وہ نقشہ جس میں ماضی، حال اور مستقبل ایک دوسرے کے بازو تھامے کسی طویل قوس کی صورت کفِ دست پر جھولتے ہیں۔ ممنوعہ شہر کے سرخ دروازوں سے لے کر ہانگڑو کے شفاف سینسر تک، میں نے دیکھا کہ تاریخ کبھی مرس نہیں ہوتی؛ وہ بس اپنا لبادہ بدلتی ہے اور اگلے پڑاؤ کے راستے پر کھڑی ہو کر ہمیں پکارتی رہتی ہے۔
بیجنگ نے مجھے سکھایا کہ اینٹ اور الگورتھم میں دشمنی نہیں؛ وہاں شہنشاہ کے خاموش ستونوں کے نیچے چہرہ شناس مشینیں دھڑکتے دل کی رفتار سے مسافروں کو سلام کرتی ہیں۔ پھر سولر سٹی کے سنہری پینل آئے، جہاں سورج نے ثابت کیا کہ وہ محض جلانے والا ستارہ نہیں، بلکہ زمین کے زخموں پر پھایا بھی رکھ سکتا ہے۔ اور آخر میں ہانگڑو وہ خوابوں کا سمارٹ شہر جہاں لائٹس خود بیدار ہوتی ہیں، کچرا خود غائب ہو جاتا ہے، اور سڑکیں سانس لیتی ہیں؛ وہاں انسان کے ہاتھ میں صرف ایک ایپ رہ جاتی ہے، مگر دل کی جیب میں پورا جہاں۔
ان سب مناظر کے بیچ میں نے محبت کو دیکھا وہ محبت جو دیوارِ چین کی صدیوں پرانی اینٹوں میں بھی چھپی تھی، اور سٹی برین کے شیشے جیسے نیورونز میں بھی۔ ایک بوڑھی دیہاتی عورت کے ہاتھوں میں بیجوں کی تھیلی اور سٹی برین کے انجینئر کے ہاتھوں میں ڈیٹا کی پوٹلی دونوں ایک ہی دعا مانگتے تھے: ‘‘زمین بے خوف سانس لے، اور انسان بے وجہ بھاگے نہیں۔’’
یقینا اگر ٹیکنالوجی کو فطرت کا دل مل جائے اور فطرت کو ٹیکنالوجی کی عقل، تو شہر صرف شہر نہیں رہتے وہ آغوش بن جاتے ہیں۔’’
مجھے لگتا ہے بیجنگ، ہانگڑو، شینڑین یہ سب آغوشیں ہیں، جہاں بچے روبوٹ کے ساتھ کھیلتے ہیں اور درخت الگورتھم کی لوری پر جھومتے ہیں۔ یہاں ترقی نے کبھی فطرت کا دامن نہیں چھوڑا، بلکہ اس کے بدن پر سبز دوپٹا ڈال کر ساتھ چل پڑی ہے۔ میں نے وہ دوپٹا ہوا میں لہراتے دیکھا اور جان لیا کہ شاید یہی نئے زمانے کا جمال ہے جہاں سکرین کی نیلی روشنی اور پتے کی سبز نمی ایک دوسرے کو بوسہ دے سکتی ہے۔
اب میں رختِ سفر لپیٹتی ہوں۔ بلٹ ٹرین کی روانگی کا اعلان ہوا چاہتا ہے، مگر دل کے پلیٹ فارم پر کوئی جلدی نہیں۔ میں جانتی ہوں آنے والے دنوں میں جب کبھی میری آنکھیں دھندلا جائیں گی، تو یہ شہر اپنے سولر چراغ جلا کر میرے اندر کا اندھیرا دور کر دیں گے۔ اور تب میں ہنس کر کہوں گی ‘‘میں نے دیواروں کو بولتے، سڑکوں کو چلتے اور سورج کو محبت کرتے دیکھا ہے اب مجھے تنہا ہونے کا خوف نہیں۔
یہ سفر ختم ہوا، پر کہانی باقی ہے۔ جو بھی مسافر دل میں سوال لے کر بیجنگ کے آئینے میں جھانک کر دیکھے: وہاں اسے اپنا چہرہ نہیں، انسانیت کا مشترکہ پرتو ملے گا ایک ایسا پرتو جو کہتا ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کے ہاتھ کی لکیر میں لکھے ہوئے شہر ہیں اگر ہاتھ تھام لیں تو راستے خود
روشن ہو جاتے ہیں۔