کبھی کبھی لگتا ہے کہ چین کی فضا میں کوئی ان دیکھے ساز کی دھیمی دھن بکھری ہے۔ سحر کے وقت جب میں کھڑکی کے پردے سرکاتی ہوں تو دور تک پھیلی عمارتیں دھند کے نرم دوپٹے میں لپٹی دکھائی دیتی ہیں۔ نیچے سڑک پر دوڑتی بائیکس کی قطار، رنگین چھتریاں تھامے لوگ، اور ان کے قدموں کی چاپ میں ایک عجیب سا یقین… جیسے سب کے پیچھے قسمت کا کوئی پوشیدہ ہاتھ ہے۔ اس ملک کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ خوش بختی اور نحوست محض الفاظ نہیں، یہ تو رنگوں، اعداد اور علامتوں کی صورت میں روزمرہ کی زندگی میں سانس لیتے ہیں۔
مجھے پہلا تعجب اُس دن ہوا جب ہوٹل کی لفٹ کا بٹن دبایا۔ تین کے بعد چار کا بٹن ہی غائب تھا۔ ایک لمحے کو لگا جیسے انجینئر بھول گئے ہوں، مگر جب مختلف عمارتوں میں یہی دیکھا تو راز کھلا کہ یہ انجینئرنگ نہیں، عقیدے کی انجینئرنگ ہے۔
چینی دوست نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا “چار ہمارے ہاں موت کی بازگشت ہے۔”
اُس لمحے مجھے یوں لگا جیسے کسی نے عام سے ہندسے کو کفن اوڑھا دیا ہو۔ یہاں لوگ اس خوف کو اتنی شدت سے مانتے ہیں کہ بڑے سے بڑا ہسپتال اور بلند ترین ہوٹل بھی “چوتھی منزل” کو اپنے نقشے سے مٹا دیتے ہیں۔ شاید یہ انسان کا ازلی خوف ہے موت کی یاد کو اپنے دروازے پر نہ آنے دینا۔
اگر “چار” ان کے دل میں موت کا سایہ ہے تو “آٹھ” خوش بختی کا سورج ہے۔ ایک ہی ہندسہ، لیکن ایسا ہندسہ جس پر لوگوں کا ایمان قائم ہے۔
بیجنگ کی مارکیٹ میں ایک صاحب فخر سے اپنی گاڑی کی نمبر پلیٹ دکھا رہے تھے جس پر “888” درج تھا۔ کسی نے ہنستے ہوئے کہا “یہ تو بس نمبرز ہیں۔”
وہ فوراً بولے: “نہیں، یہ خوشحالی کا راز ہے۔ اس کے لیے میں نے دگنی قیمت دی ہے۔”
میں حیران تھی کہ ایک ہندسہ کیسے دل کو اتنی طاقت دے دیتا ہے۔ فون نمبرز، دکانوں کے پتے، حتیٰ کہ شادی کی تاریخیں بھی لوگ آٹھ پر رکھتے ہیں۔ اور یہی نہیں، بیجنگ اولمپکس کا افتتاح بھی آٹھ اگست 2008 کو رات آٹھ بج کر آٹھ منٹ پر کیا گیا۔ جیسے پورا ملک ایک ہندسے کے سہارے خواب دیکھ رہا ہو۔
چین میں جہاں نمبر ۴ کو منحوس سمجھا جاتا ہے، وہیں سرخ رنگ خوش بختی اور جشن کی علامت مانا جاتا ہے۔
چین کے تہواروں میں سرخ رنگ ایک طوفان کی طرح امڈ آتا ہے۔ گلیوں کے دروازوں پر سرخ کاغذی جھنڈیاں، فضا میں لٹکتی سرخ لالٹینیں، اور ننھے بچے اپنے ہاتھوں میں سرخ لفافے لیے بھاگتے ہیں۔
یہ رنگ صرف خوشی نہیں، بلکہ بدقسمتی کے اندھیروں کو دور کرنے کا یقین ہے۔ چینی دلہن سفید نہیں بلکہ سرخ لباس پہنتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ اپنی ہنسی اور خوابوں کے ساتھ قسمت کے چراغ بھی پہن لیتی ہے۔
مجھے اپنی سرزمین یاد آتی ہے جہاں دلہن کا سرخ دوپٹہ اور چوڑیاں ہی خوشی کی علامت ہیں، مگر یہاں تو پورا سماج سرخ رنگ کو ایک اجتماعی دعا کی طرح اوڑھ لیتا ہے۔
اگر سرخ خوشی کی زبان ہے تو ڈریگن طاقت اور قسمت کی علامت ہے۔ میں نے پہلی بار ڈریگن ڈانس دیکھا تو یوں لگا جیسے آسمان کی بجلی زمین پر اتر آئی ہو۔ لمبے کپڑے کے نیچے چھپے نوجوان، تالیوں کی گونج، ڈھول کی تھاپ اور ڈریگن کا رقص یہ منظر کسی طلسمی کتاب کے ورق کی مانند تھا۔ یہاں ڈریگن کا ناچ خوشی اور قوت کی لہر پھیلا دیتا ہے۔ یہ نہ خوف ہے نہ مذہب، بلکہ محض ایک علامت ہے کہ زندگی کا جشن کبھی رُکنا نہیں چاہیے۔
میں نے کراچی کی سڑکوں پر دیکھا تھا لوگ آوارہ گردی کرتے ہوئے رات گئے سیٹیاں بجاتے تھے، لیکن یہاں چین میں خاص طور پر اس بات کو منع کیا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ رات کے سناٹے میں اگر کوئی سیٹی بجاتا ہے تو وہ آواز بدروحوں کو دعوت دیتی ہے۔ مجھے لگا یہ کوئی بچوں کو ڈرانے کے لیے کہانی ہو گی، مگر جب ایک مقامی دوست نے نہایت سنجیدگی سے کہا کہ “رات کی سیٹی سے دروازے کھل جاتے ہیں”، تو میرے بدن میں ہلکی سی کپکپی دوڑ گئی۔
جس طرح رات کی خاموشی میں سیٹی بجانا بدروحوں کو پکارنے کے مترادف مانا جاتا ہے، ویسے ہی چین میں آئینہ ٹوٹنا قسمت کی لکیر میں دراڑ پڑنے جیسا شگون سمجھا جاتا ہے۔
آئینہ جو حسن دکھاتا ہے، روشنی بکھیرتا ہے، حقیقت کو منعکس کرتا ہے ۔ یہاں اس کے ٹوٹنے کو برا شگون سمجھا جاتا ہے۔ میں نے جب اپنی میز پر رکھا چھوٹا سا آئینہ گرنے سے ٹوٹتے دیکھا تو ایک چینی دوست نے فوراً کہا: “اب سات دن اچھے نہیں گزریں گے۔” مجھے یاد آیا کہ مغرب میں بھی یہی عقیدہ ہے۔ شاید آئینہ ٹوٹنا ہر تہذیب میں ایک ہی تاثر چھوڑتا ہے کہ جیسے قسمت کی لکیر میں دراڑ پڑ گئی ہو۔
یہاں تحائف دینا اور لینا بھی ایک باریک ریشمی دھاگے پر چلنے جیسا ہے۔ گھڑی تحفے میں دینا بالکل منع ہے، کیونکہ “گھڑی دینا” کا مطلب چینی زبان میں “آخری رسومات” کے مترادف ہے۔ اسی طرح جوتے تحفے میں دینا تعلق ٹوٹنے کی علامت مانا جاتا ہے۔ سفید پھول یا سفید کپڑے خوشی کے موقع پر دینا تو جیسے کسی کو موت کی یاد دلانے کے برابر ہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ شادی بیاہ یا جشن میں سب سرخ رنگ کے تحفے دیتے ہیں کیونکہ یہاں سرخ خوشی اور خوش بختی کا رنگ ہے، اور سفید سوگ کا۔ یہ تضاد میرے لیے عجیب اور باعث تعجب تھا۔
ایک دن کھانے کی میز پر میں نے بے دھیانی میں (چاپ اسٹکس) سیدھی چاولوں کے کٹورے میں گاڑ دیں۔ میز پر خاموشی چھا گئی، سب نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ عمل مردوں کی روح کے لیے بخور جلانے جیسا ہے، اس لیے یہ بدشگونی اور بے ادبی مانی جاتی ہے۔ چھوٹی سی حرکت اور اس کے پیچھے اتنا بڑا معنوی بوجھ، مجھے حیران کرگیا۔
یہاں الو کو بھی موت کی علامت مانا جاتا ہے اور بلی، خاص طور پر کالی بلی، راستہ کاٹ جائے تو لوگ رک جاتے ہیں۔ بالکل ہمارے دیس کی طرح ۔ یوں لگا جیسے دو تہذیبیں سمندر کے فاصلے کے باوجود ایک ہی طرح کے خوف اپنے دل میں سنبھالے ہوئے ہیں۔
چین کی یہ سب روایات اور عقائد دیکھ کر میرا دل کہتا ہے کہ انسان کتنا ہی آگے بڑھ جائے، کتنا ہی دماغ اور مشین کو ملا دے، لیکن دل کے کسی کونے میں وہی پرانے خوف زندہ رہتے ہیں۔ نمبر ۴ سے ڈرنے والے اسی زمین پر دماغ سے روبوٹ کنٹرول کرتے ہیں۔ رات کی سیٹی سے بچنے والے اسی آسمان کے نیچے خلا کے خواب دیکھتے ہیں۔
مگر فرق یہ ہے کہ پرانی نسل کے دل میں خوف ہے اور نئی نسل کے دل میں سوال۔ بزرگ ان کہانیوں کو جیتے ہیں، اور نوجوان انہیں محض مسکراہٹ کے ساتھ سنتے ہیں۔ شاید یہی تضاد انسان کو مکمل بناتا ہے۔ کچھ حصے اندھیرے سے جُڑے ہیں اور کچھ روشنی سے۔ کچھ ماضی کے تعویذ ہیں اور کچھ مستقبل کے چراغ۔ اور میں، ایک مسافر کی طرح، ان دونوں جہانوں کے بیچ کھڑی ہوں حیران بھی، مسرور بھی۔
چین کی گلیوں میں چلتے ہوئے میں نے جانا کہ یہاں ہر ہندسہ، ہر رنگ اور ہر علامت ایک کہانی سناتی ہے۔ کہیں خوف کی سرگوشی ہے، کہیں اُمید کا ترانہ اور میں سوچتی ہوں، خوش قسمتی آخر کہاں چھپی ہے؟ کیا واقعی یہ سب اعداد اور رنگوں کی کرشمہ سازی ہے یا پھر انسان کے دل کی وہ دعا جو کسی نہ کسی بہانے سے زندگی کو سہارا دیتی ہے؟
شاید خوش قسمتی کوئی بیرونی طاقت نہیں، بلکہ دل کا یقین ہے۔ اور یہی یقین ہے جو چین کی گلیوں کو بھی روشن رکھتا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انہی گلیوں اور انہی عمارتوں میں جہاں بزرگ نمبر چار اور آئینے کے ٹوٹنے کو نحوست مانتے ہیں، وہیں انہی کے بچے اور نواسے لیبارٹریوں میں بیٹھ کر دماغ اور مشین کی سرگرمیوں پر کام کر رہے ہیں۔ کوئی برقی لہروں کے ذریعے سوچوں کو پڑھنے کی کوشش کر رہا ہے، کوئی محض ایک ہی خیال سے روبوٹ کو حرکت دے رہا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ایک ہی ملک دو زمانوں کو ساتھ لیے چل رہا ہے—ایک ماضی کی کہانیوں میں، دوسرا مستقبل کے خوابوں میں۔”
چین کی سرزمین صرف قدیم عقائد اور رنگوں کے فسوں تک محدود نہیں۔ یہاں کے آسمان کے نیچے ایک اور جہاں بھی آباد ہے۔وہ جہاں انسان اپنے دماغ کے خوابوں کو مشین کی زبان میں ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ وہی چین ہے جہاں صدیوں پہلے کنفیوشس نے حکمت کی باتیں کیں، اور آج انہی گلیوں کے بیٹے لیبارٹریوں میں بیٹھے دماغ کی لہروں کو کمپیوٹر کے کوڈز میں بدل رہے ہیں۔
ایک دن میں بیجنگ کی ایک یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز گئی۔ لمبی راہداریوں میں سفید کوٹ پہنے نوجوان ایسے چل رہے تھے جیسے مستقبل کی کلید ان کے ہاتھ میں ہو۔ اندر داخل ہوئی تو ایک کمرے میں طلبہ ایک شخص کے سر پر برقی تاروں سے جڑا ہوا ہیلمٹ باندھ رہے تھے۔ سامنے اسکرین پر لہریں ابھر رہی تھیں، جیسے کسی دریا کی موجیں کاغذ پر اتر آئی ہوں۔
یہ دماغ کی بجلی تھی وہ خاموش آوازیں جو انسان کے اندر ہمیشہ سے موجود تھیں لیکن پہلی بار کسی مشین نے سننا شروع کی تھیں۔
مجھے بتایا گیا کہ ہر خیال دراصل برقی اشارہ ہے۔ جب ہم سوچتے ہیں، تو دماغ میں ننھی ننھی کرنٹ کی لہریں دوڑتی ہے۔ سائنسدانوں نے انہی کرنٹ کو پڑھنے کے لیے BCI بنایا ہے۔ اسکرین پر جب کسی نے محض سوچا کہ “ہاتھ اُٹھے”، تو سامنے پڑا مصنوعی بازو حرکت میں آگیا۔
یہ منظر دیکھ کر مجھے لگا جیسے میں کسی سائنس فکشن فلم میں ہوں۔ مگر یہ سب حقیقت تھی۔ دماغ اور مشین کے درمیان وہ رشتہ بنتا جا رہا تھا جو کبھی جادوگر اور چراغ کے بیچ مانا جاتا تھا۔
ایک طالب علم نے کہا “کل کو کوئی شخص محض سوچ کر کمپیوٹر کھول سکے گا، کار چلا سکے گا، یا حتیٰ کہ اپنے خواب بھی لکھ سکے گا۔”
میں نے حیرت سے اُس کے چہرے کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں روشنی تھی، لیکن میرے دل میں سوالات تھے۔ اگر خواب مشین پر اترنے لگیں تو کیا ہمارے راز بھی محفوظ رہیں گے؟ کیا کوئی کمپیوٹر ہماری تنہائی، ہماری دعا، اور ہماری خاموشی کو بھی سمجھ پائے گا؟
BCI کو دیکھتے ہوئے مجھے لگتا ہے یہ دو دھاری تلوار ہے۔ ایک طرف یہ اپاہج انسان کے لیے نئی زندگی ہے، ایک ایسا تحفہ جو اسے ہاتھ یا ٹانگ کے بغیر بھی آزاد کر سکتا ہے۔ مگر دوسری طرف یہ خوف بھی ہے کہ اگر ہماری سوچیں مشین پر عیاں ہونے لگیں تو پرائیویسی کہاں باقی رہے گی؟
یہ وہی سوال ہے جو شاید ہر دور میں نئی ایجادوں کے ساتھ اٹھتا ہے۔ بجلی آئی تو لوگوں نے کہا، یہ گھروں کو جلا دے گی۔ مگر پھر اسی بجلی نے راتوں کو دن میں بدلا۔ شاید BCI بھی کبھی وہی کرے ہمیں خوف بھی دے، مگر نئی روشنی بھی۔
چین کے نوجوان سائنسدان کہتے ہیں کہ ایک دن انسان زبان کے بغیر بات کرے گا۔ صرف سوچ سے دوسرے کے دل تک پیغام پہنچ جائے گا۔ یہ خواب مجھے کرشمہ معلوم ہوا، لیکن یہ بھی یاد دلایا کہ کبھی ٹیلی فون کو بھی کرشمہ سمجھا گیا تھا۔
میں نے آنکھیں بند کیں اور سوچا کاش میرے خیالات بھی یوں مشین پر اتر سکیں۔ شاید لفظوں کی محنت نہ کرنی پڑے، شاید میرا دل براہِ راست صفحے پر اتر آئے۔ لیکن پھر دل نے سرگوشی کی “شاعری اور نثر کا حسن تو اسی میں ہے کہ دل کی دھڑکن کو لفظوں میں ڈھالنے کا کمال سیکھا جائے۔ اگر سب کچھ سوچ سے براہِ راست لکھا جانے لگے تو شاید حسن کی وہ چمک باقی نہ رہے۔”
چین کی لیبارٹریوں میں بیٹھے یہ نوجوان سائنسدان جب دماغ اور مشین کو جوڑتے ہیں تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے زمانے نے ایک اور قوسِ قزح تخلیق کی ہے۔ ایک طرف قدیم عقائد ہیں جہاں “چار” موت کی علامت ہے اور “آٹھ” خوش بختی کا نشان، دوسری طرف نئی دنیا ہے جہاں دماغ کی لہریں کمپیوٹر کو چلاتی ہیں۔ لہٰذا، چین میں دماغ اور مشین کے یہ نئے خواب 2027 سے 2030 کے درمیان حقیقت کے رنگ میں ڈھلنے کی امید رکھتے ہیں ۔پہلے طبی اور معاون آلات کی شکل میں، اور پھر زندگی کے ہر گوشے میں اپنے چراغ بکھیرتے ہوئے۔
میں سوچتی ہوں، یہ کیسا تضاد ہے ایک قوم جو ایک ہندسے سے ڈرتی ہے، اور دوسری طرف وہی قوم سب سے آگے جا کر انسانی دماغ کے رازوں کو کھول رہی ہے۔ شاید یہی زندگی کا حسن ہے کہ خوف اور امید، روایت اور ایجاد، سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
اور میں،ان دونوں جہانوں کے بیچ کھڑی حیران ہوں۔ کبھی ڈریگن کے رقص پر مسکرا دیتی ہوں، کبھی لیبارٹری کے منظر پر ششدر رہ جاتی ہوں۔ اور میرا دل کہتا ہے چین محض ایک ملک نہیں، یہ ماضی اور مستقبل کا سنگم ہے جہاں تقدیر کے خواب بھی بستے ہیں اور سائنس کے چراغ بھی جلتے ہیں۔
چین کی سرزمین پر گزرتے یہ دن مجھے یوں لگتے ہیں جیسے میں دو متضاد دریاؤں کے سنگم پر کھڑی ہوں ایک دریا جس کے پانی میں سرخ رنگ کی لالٹینیں، ڈریگن کے ناچ اور آٹھ کے جادو کی جھلک ہے، اور دوسرا دریا جس کی موجوں میں دماغ اور مشین کی سرگوشیاں بہتی ہیں۔ ایک طرف خوف اور عقیدے کی کہانیاں، دوسری طرف سائنس اور مستقبل کے خواب… اور میں ان دونوں کو دیکھ کر سوچتی ہوں کہ شاید یہی چین کی اصل پہچان ہے۔ روایت اور ایجاد کا وہ سنگم جہاں قسمت کے تعویذ بھی زندہ ہیں اور نئی دنیا کے چراغ بھی روشن۔
چین میں توہم پرستی اور ٹیکنالوجی کا امتزاج….ارم زہرا ۔ چین
