یہ چین نہیں، کسی خواب کا در تھا، جہاں ہر تہوار ایک نئی دُنیا کا دروازہ کھولتا ہے۔جیسے یہ ملک اپ تہواروں اور روایات کے پیچ و خم میں کچھ کہہ رہا ہو ۔جیسے دو مختلف جہاں ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو گئے ہوں۔ ایک طرف عید الاضحیٰ کی روحانیت تھی، جہاں قربانی کا عہد اور ایمان کا ارمان دلوں میں رچ بس رہا تھا، اور دوسری طرف ڈریگن فیسٹول کا دھواں تھا، جس میں ماضی کی روایات اور جدیدیت کا حسین امتزاج ایک دھوم مچائے ہوئے تھا۔ چین میں عید اور ڈریگن فیسٹول کے درمیان یہ وہ لمحے تھے جو دل میں گہرے نقش کی طرح بس گئے۔
جیسے کوئی پرانی کتاب کھل جائے اور اس کی سفید صفحے پر رنگوں کا کھیل
شروع ہو جائے۔ عید کے موقع پر ، جب پورے شہر کی گلیوں میں خوشبوؤں کے دھارے تیر رہے تھے تو دوسری طرف ڈریگن کی مورتیاں، رنگین پرچم اور روایتی کھانے بازاروں میں سجے ہوئے تھے۔
میرے ذہن میں یہ سوال تھا کہ آیا یہ دو تہوار اپنے رنگوں اور خوشبوؤں کے باوجود ایک دوسرے سے کیسے ہم آہنگ ہو گئے ہیں؟ کیا چین کے مسلمان اس دن کو جس قدر مقدس جانتے ہیں، ویسے ہی اس دن کی خوشی میں ڈریگن فیسٹول کو شامل کر پاتے ہیں؟ یا پھر یہ تقاضا، یہ ہم آہنگی، کہیں ایک خاموش تہوار کی صورت میں سامنے آئی ہے؟
میں ان گلیوں میں گھوم رہی تھی، جہاں ڈریگن کی رنگین چمک اور عید کی روحانیت نے ایک نیا رشتہ قائم کیا تھا، اور میرا قلم ان مناظر کو ناپنے کے لیے بے چین تھا۔
چین، جہاں کی ہر گلی، ہر کوچہ اپنی منفرد تہذیب اور رنگینی میں رچا بسا ہے، وہاں مسلمانوں کا عید منانا ایک الگ ہی رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ ڈریگن فیسٹول کی چمک دمک، کشتیوں کی دوڑ، اور خوشبوؤں میں لپٹی چینی روایات کی تہذیب ایک طرف، جبکہ دوسری طرف عیدالاضحی کی مقدس اور روحانی فضا، جہاں ہم قربانی کا گوشت تقسیم کرتے ہوئے اپنے رب کی رضا کے لیے دلوں کو صاف کرتے تھے۔
چین میں عید کی تعطیلات نہیں ہوتیں، لیکن جب ڈریگن فیسٹول کی چھٹیاں آئیں، تو ان چند دنوں میں ایک غیر معمولی سکون تھا۔ گویا دنیا کے تمام رنگ چین کی سرزمین پر سمٹ آئے تھے۔ ایک طرف رنگین جھنڈے، سڑکوں پر چمکتی لائٹس، اور کشتیوں کی دوڑ تھی تو دوسری طرف قربانی کی تیاری، گوشت کی تقسیم اور اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کا عمل۔ دونوں تہواروں کے درمیان ایک عجیب سا امتزاج تھا۔ ڈریگن فیسٹول کی ہنسی خوشی کی محافل اور عیدالاضحی کی عبادت کی تقدیس، جیسے ایک ہی سرزمین پر دو دنیاوں کا میل ہو۔ ڈریگن فیسٹول کا آغاز قدیم چین کی ایک کہانی سے جڑا ہوا ہے، جس کے مطابق یہ تہوار ایک عظیم سپہ سالار “کُو یوان” کی قربانی اور اس کی محبت کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ کُو یوان، جو کہ ایک بہت ہی ذہین اور بہادر شاعر تھا، اپنی قوم کے لئے لڑا اور آخرکار دریا میں غرق ہو گیا۔ اس کے بعد لوگوں نے اس کی یاد میں دریا میں چمچماتے ہوئے رنگین رنگوں والے ‘ڈریگن بوٹس’ میں لہریں ماری، اور اس دن کو ایک تہوار کے طور پر منایا۔
ہم اس دن دریائے ہوانگشو کے کنارے پہنچے تھے ۔ جہاں سینکڑوں لوگ جمع تھے۔ لمبی، رنگ برنگی کشتیاں، جن کے اگلے سرے پر ڈریگن کا منہ تراشا گیا تھا، پانی پر لرزتی کھڑی تھیں۔ ہر کشتی میں دس بارہ افراد، ہم رنگ وردی میں، ڈرم کی تھاپ پر چپو چلا رہے تھے۔ وہ نظارہ کچھ ایسا تھا جیسے کسی قدیم داستان کو آنکھوں کے سامنے جیتے جاگتے دیکھ رہی ہوں۔لوگ شور مچاتے، جھنڈے لہراتے، “چیا یو! چیا یو!” یعنی
حوصلہ رکھو! کے نعرے لگا رہے تھے ۔ دوسری جانب، چھوٹے چھوٹے اسٹالز پر بانس کے پتوں میں لپٹے چپچپے
چاولوں ژونگزی کی خوشبو تھی۔ ان چاولوں میں گوشت، انڈے یا میٹھا پیسٹ بھرا ہوتا ہے، اور انہیں کھانے کی روایت اس فیسٹول کا حصہ ہے۔ یہاں گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ
یہ تہوار شاعر ‘چو یوان’ کی یاد میں منایا جاتا ہے، جو اپنی قوم کے لیے جان دے گیا۔ لوگ اسے خراج دینے کو کشتیاں دوڑاتے اور ژونگزی دریا میں پھینکتے تھے تاکہ مچھلیاں اس کا جسم نہ کھائیں۔”
میں دم بخود رہ گئ ۔ایک تہوار، جو دکھ کی کوکھ سے نکلا تھا، آج خوشی کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ یہی تو کمال ہے تہذیبوں کا وہ آنسو کو بھی رنگ میں بدل دیتی ہیں۔
میں کنارے پر کھڑی سوچ رہی تھی، “عید پر ہم بھی قربانی کرتے ہیں، اپنی محبت، اپنی وفا کا اظہار۔ اور یہاں، ڈریگن فیسٹول پر وہی عقیدت، صرف انداز الگ۔بس یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے یہ احساس ہوا کہ اس تہوار میں نہ صرف تاریخ بلکہ جذبات اور روایات کا رنگ بھی بسا ہے۔ جہاں تک میں نے دیکھا، ہر طرف لوگوں کا جوش اور محبت بھرا ماحول تھا۔ ڈریگن بوٹ ریسز، رنگین ڈریگن کے مجسمے، خوشبو دار چاولوں سے بھرے پیکٹ اور لذت بھری روایات یہ سب ایک کہانی کی طرح ایک دوسرے میں گھل کر اس تہوار کو خاص بناتے ہیں۔
اور پھر، جب میں نے ان رنگوں اور روشنیوں میں گھومتے ہوئے لوگوں کے چہرے دیکھے، تو مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ یہ تہوار محض ایک کھیل یا جشن نہیں، بلکہ ایک پورے قوم کی تاریخ، محبت اور قربانی کی داستان ہے۔ یہ اس قوم کی جذباتی وابستگی اور اپنے ماضی سے تعلق کا اظہار ہے، جو نہ صرف اپنے عظیم ہیروز کو یاد کرتی ہے، بلکہ اپنے روایات، ثقافت اور فلسفے کو نسل در نسل منتقل کرنے کا عہد بھی کرتی ہے۔
ہمارے لیے اس وقت ڈریگن فیسٹول سے زیادہ عید الاضحی کا دن اہم تھا۔ ہم نے جب قربانی کے جانور کو اپنے ہاتھوں سے خریدا، اور پھر اس کی نگہداشت کے لیے چین کے خاص “شیرٹر” میں چھوڑا، تو دل میں یہ خیال آیا کہ قربانی محض گوشت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں روح کی صفائی، دل کی نیت کی پاکیزگی اور اپنے رب سے تعلق کی گہرائی چھپی ہوتی ہے۔
چین میں عیدالاضحی کی چھٹیاں نہیں ہوتیں، لیکن یہاں کی زندگی کا نظم و ضبط، اور تہواروں کا رنگ ہمیشہ دلکش ہوتا ہے۔ ان دنوں ڈریگن فیسٹول کی چھٹیاں ہماری عید کی چھٹیوں کا باعث بن گئیں۔ وہ لمحے، جب ہر طرف چھوٹے چھوٹے لال رنگ کے ڈریگن ہوا میں اُڑ رہے تھے، اور لوگوں کی مسکراہٹیں عید کے دن کی خوشیوں جیسی تھیں، دل نے سوچا، شاید دنیا کے سبھی تہوار دلوں کو جوڑنے کا ہنر جانتے ہیں۔
یہاں جب میں نے قربانی کے جانوروں کے لیے بنائے گئے “شیرٹرز” کو دیکھا، تو وہ مناظر نہ صرف مجھے حیران کن لگے، بلکہ دل میں ایک گہری سوالیہ فکر بھی جاگ اٹھی: “کیا واقعی قربانی کے جانوروں کی نگہداشت اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے جتنی ان کے مقصد کو پورا کرنے کی؟” چین میں، جہاں ہر کام کی ایک سلیقے سے ترتیب ہوتی ہے، قربانی کے جانوروں کی دیکھ بھال کا نظام بھی کسی شاندار ترتیب کی مانند تھا، جو نہ صرف جدیدیت کا عکاس تھا، بلکہ انسانیت کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔
لنشیا کے قریب ایک ایسا فارم دیکھنے کا موقع ملا جہاں قربانی کے جانوروں کی دیکھ بھال کی جاتی تھی۔ یہ فارم ایک جدید شیلف اسٹائل کی طرح تھا، جہاں ہر چیز اپنے مخصوص مقام پر رکھی ہوئی تھی۔ جانوروں کے لیے مخصوص “شیرٹرز” یعنی پناہ گاہیں ایسی بنائی گئی تھیں کہ نہ صرف انہیں آرام دہ زندگی گزارنے کا موقع ملتا، بلکہ ان کی صحت اور صفائی بھی بہت اچھے طریقے سے یقینی بنائی جاتی تھی۔ چھوٹے، کشادہ باڑے جہاں ہر بکرے اور بھیڑ کے لیے الگ الگ جگہ مختص کی گئی تھی، وہاں کی صفائی قابل ذکر تھی۔ ان “شیرٹرز” میں جدید آٹو میٹک صفائی کے نظام لگے ہوئے تھے، جن کی مدد سے جانوروں کی جگہیں دن بھر صاف اور خشک رہتی تھیں۔
سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ یہ فارم صرف جانوروں کی دیکھ بھال پر ہی نہیں، بلکہ ان کی نفسیاتی حالت پر بھی دھیان دے رہا تھا۔ ایک مخصوص “ریلیکس زون” تھا جہاں جانور ایک دوسرے کے ساتھ آزادانہ طور پر وقت گزار سکتے تھے۔ اس علاقے میں کچھ درخت اور گھاس بھی اُگائی گئی تھی تاکہ جانوروں کو قدرتی ماحول کا تھوڑا سا احساس ہو سکے۔
جہاں تک بات ہے جانوروں کی صحت کی، تو یہاں ہر جانور کی مکمل میڈیکل ہسٹری محفوظ رکھی جاتی تھی۔ فارم میں ایک چھوٹا سا کلینک بھی تھا، جہاں جانوروں کو باقاعدگی سے چیک کیا جاتا تھا۔ جانوروں کی کوئی بھی بیماری فوراً پتہ چل جاتی تھی، اور انہیں بہترین علاج فراہم کیا جاتا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ چین میں، جہاں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بہت زیادہ ہے، وہیں یہاں کے فارموں میں “ڈیجیٹل ہینڈلنگ” کا استعمال بھی کیا جاتا ہے، یعنی جانوروں کی صحت کے تمام ریکارڈ آن لائن محفوظ ہوتے ہیں، اور اگر کسی جانور کو کسی بھی قسم کی طبی مدد کی ضرورت ہوتی ہے، تو فارم کی میڈیکل ٹیم فوراً وہاں پہنچ جاتی ہے۔
یہ نظام اتنا محنتی اور نظم و ضبط سے بھرا ہوا تھا کہ مجھے لگتا تھا جیسے ہم کسی اعلیٰ معیار کے جانوروں کے لیے مخصوص فلاحی ادارے میں ہیں، جہاں ان کی ہر ضرورت کو بڑی باریکی سے سمجھا گیا ہے۔ یہاں قربانی کے جانوروں کی نگہداشت میں یہ جدید طریقے نہ صرف چینی معاشرت کی ترقی کو ظاہر کرتے ہیں، بلکہ وہ اسلامی تصورِ قربانی میں بھی ایک نیا پہلو شامل کرتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں جانور عید کی آمد تک اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہے ہوتے ہیں۔
عیدالاضحیٰ کے موقع پر یہاں کسی کو یہ پرواہ نہیں تھی کہ کس جانور کی قیمت کتنی ہے یا کون سا جانور سب سے خوبصورت ہے۔ یہاں قربانی کا اصل مقصد اپنی قربانی کی نیت اور ایمان کی گہرائی تھی۔ کسی کی نظر اپنے جانور کے وزن اور قیمت پر نہیں تھی، بلکہ اس بات پر تھی کہ وہ اللہ کی رضا کے لیے اپنے حصے کی قربانی کس طرح ادا کر رہا ہے۔ لوگوں کی آپس میں مقابلہ بازی یا نمائش کا کوئی رواج نہیں تھا، بلکہ سکون اور خاموشی میں قربانی کی روح کی تکمیل ہو رہی تھی۔
چینی مسلمان اپنے طور پر عیدالاضحیٰ کو مناتے ہیں، مگر ان کا انداز ہمارے پاکستانیوں سے تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔ یہاں اذان کی وہ گونج نہیں ہوتی جو ہمارے محلے کی مساجد سے ہر عید کی صبح سنائی دیتی ہے، نہ ہی بازاروں میں وہ عید کی خوشبو اور خریداروں کا ہجوم ہوتا ہے۔ یہ سکون، یہ ترتیب، شاید چین کی تہذیب کا حصہ تھا، جہاں ہر چیز کا ایک نظم اور ڈھنگ ہوتا ہے لیکن اس سکون میں ایک چیز تھی جو دل کو چھو جاتی تھی: قربانی کی روح۔
ہماری عید میں، جہاں ہر گلی میں قربانی کے جانوروں کی قیمتوں پر منڈیاں سجتی ہیں، وہاں چین میں قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت بھی بڑی ترتیب سے ہوتی ہے۔
چینی مسلمان اس دن کی نماز بڑی خاموشی سے ادا کرتے ہیں۔ مسجدوں میں داخل ہوتے ہی ایسا لگتا ہے جیسے یہ ایک پرانا خواب ہو، جہاں لوگوں کی مسکراہٹیں اور خاموشی سے کی جانے والی عبادتیں دل کی گہرائیوں میں اتر رہی ہوں۔ یہاں کی مساجد میں اذان کے بلند آواز کا فقدان تھا، لیکن یہاں کی خاموش عبادت نے مجھے ایک نئے روحانی پہلو سے آشنا کیا۔ ان کی عبادت میں ایک لطافت اور سکون تھا، جو ہماری مصروف زندگی سے کہیں دور تھا۔
پھرعید کی دن کی روایت ہے کہ خاندان کے ساتھ مل بیٹھ کر گوشت کے پکوان بنائے اور کھائے جاتے ہیں۔ یہاں بھی یہی منظر تھا ۔ چینی لوگ نہ صرف اپنے گھر والوں کو، بلکہ اپنے پڑوسیوں اور قریبی عزیزوں کو بھی بلاتے ہیں۔ چینی مسلمان اپنے مذہب کے ساتھ وہ خوبصورت ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں کہ ان کے طرز زندگی میں کبھی فرق نہیں آتا۔ وہ اپنے دلوں میں اللہ کی رضا اور قربانی کے جذبے کو محفوظ رکھتے ہیں، اور اپنی زندگی میں سکون اور ترتیب کے ساتھ اس پر عمل کرتے ہیں۔
چین میں عیدالاضحیٰ کا جشن ہمارے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ یہاں کا ہر منظر، ہر عمل ایک نئے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ وہ خاموشی، وہ ترتیب، وہ عبادت کا راز، ہمارے لئے نئی روشنی تھا۔ شاید ہم نے کبھی قربانی کو اتنی خاموشی اور اتنی گہرائی سے نہیں سمجھا، لیکن چین کے مسلمانوں نے اس عمل کو ایک نیا معنی دے دیا تھا۔
یہاں کی عید نے مجھے یہ سکھایا کہ عید کا جو اصل مقصد ہے، وہ صرف گوشت کی تقسیم یا جشن کا اہتمام نہیں، بلکہ اللہ کے ساتھ قربت کا ایک راستہ ہے، جو کہ ہر جگہ ایک الگ رنگ میں دکھائی دیتا ہے۔ اور یہ وہ رنگ تھا جو چین میں، ان خاموش لمحوں میں، میں نے محسوس کیا۔
یہاں، عید کی قربانی کا مقصد صرف گوشت نہیں تھا، بلکہ ایک نیا پیغام تھا سکون، عبادت، روحانیت کا اور میں یہ سوچ رہی تھی کہ
شاید یہی وہ عالمگیر سچائی تھی، جو تہذیبوں کی دیواروں سے ماورا ہو کر، خاموشی سے میرے دل کے دروازے پر دستک دے رہی تھی کہ عید کا اصل جشن دل میں اترتی ہوئی اُس روشنی کا نام ہے، جو قربتِ خداوندی سے روشن ہوتی ہے۔
چین میں عید الاضحی کا جشن ہمارے لئے ایک نیا تجربہ…ارم زہرا
