چین کے شہر ،لِنشیا کی مویشی منڈی میں۔۔ارم زہرا

ہوا میں خنکی تھی، اور لِنشیا کی صبح کچھ ایسی پرسکون تھی جیسے وضو کے بعد کی خاموشی۔ میں، ایک پاکستانی لڑکی، جب اس چینی شہر کے دروازے میں داخل ہوئی تو دل میں ایک ہی سوال تھا یہاں کی مویشی منڈی کیسی ہوگی ؟
چین کی زمین پر قدم رکھے کئی سال ہو چکے تھے، لیکن لِنشیا کی کشش کچھ اور ہی ہے۔ سنا ہے اس شہر کو “چین کا چھوٹا مکہ” کہا جاتا ہے اور واقعی، یہاں ہر گلی میں ایک خاموش سی دینداری چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہے۔ مسجدوں کے اونچے گنبد، سفید ٹوپی پہنے بوڑھے اور بچیاں جن کے اسکارف ہوا کے ساتھ ہلکے سے لرزتے ہیں۔ مجھے لگا جیسے یہ شہر خود دعا میں مصروف ہے۔
صبح دس بجے، ہم نے ٹیکسی لی اور مویشی منڈی کی طرف روانہ ہوئے یعنی میں اور میرے ہمسفر ، راستے میں سبزہ، پہاڑ، اور پھلوں کے اسٹالز ایسے لگے تھے جیسے کسی پرانے لوک داستان کی جھلک ہو۔ ٹیکسی ڈرائیور Hui مسلمان تھا، اس نے عربی میں “السلام علیکم” کہا تو میری آنکھوں میں نمی اتر آئی۔ اس سلام میں اپنائیت تھی، جیسے کراچی کی کسی سڑک پر اجنبی اردو بول اٹھے۔
منڈی کے دروازے پر پہنچ کر ہم کچھ لمحے رک گئے۔ دروازے کے پاس CCTV کیمرے، صاف صفائی، اور نظم و ضبط کا وہ عالم تھا جو ہمارے ہاں عید سے تین دن پہلے ناپید ہو چکا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں… ایک عجب ترتیب تھی۔ کوئی شور نہیں، کوئی آواز نہیں۔ بس جانور تھے اور ان کی آنکھوں میں قربانی کی خاموشی۔
بکرے قطار میں بندھے ہوئے تھے۔ کچھ Hui بچے اپنے والدین کے ساتھ جانور دیکھنے آئے تھے۔ میں نے ایک چھوٹے بچے کو دیکھا جو بکرے کے کان کو سہلا رہا تھا۔ اس کی ماں نے آہستہ سے کہا
“بس دیکھو، چھونا نہیں۔”
میں نے سوچا، یہ ہدایت صرف بکرے کے لیے نہیں، شاید مذہب کے اظہار کے لیے بھی ہے۔
مجھے ایک بکرا بہت پسند آیا۔ سفید رنگ کا، ہلکی بھوری دھاری کے ساتھ۔میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا تو لگا وہ مجھ سے کہہ رہا ہو
“تم پاکستان سے آئی ہو؟ وہاں بھی مجھے قربان کیا جاتا ہے نا؟”
دل کچھ لرز سا گیا۔ میں نے مسکرا کر سر ہلا دیا۔
منڈی کے ایک کونے میں چینی رسم الخط میں کچھ بورڈز تھے
زندہ بکریاں برائے فروخت
اردو کا ترجمہ ذہن میں آیا تو عجیب سا لگا، جیسے میرے گاؤں کی منڈی کسی اور زبان میں چل رہی ہو۔
میں نے وہاں کچھ Hui دکانداروں سے بات کرنے کی کوشش کی۔ وہ شرمیلے تھے، لیکن احترام سے پیش آئے۔ میرے ہاتھ میں ڈائری دیکھ کر ایک بزرگ نے پوچھا “کیا آپ لکھاری ہیں؟” میں نے کہا “جی، تھوڑا بہت لکھتی ہوں۔ انہوں نے کہا “تو ہماری عید بھی لکھ دیجیے، جو آوازوں سے خالی ہے لیکن قربانی سے بھری ہوئی ہے۔”
یہ سن کر میں خاموش ہو گئی۔ دل میں ایک نوک سی چبھی۔ واقعی، یہاں کی مویشی منڈی صرف گوشت کی خرید و فروخت کی جگہ نہیں، یہ ایمان، صبر اور نظم کی ایک جیتی جاگتی تفسیر تھی۔
یقینا یہ منڈی کراچی جیسی نہ تھی۔نہ وہ شور، نہ ہنگامہ، نہ لاؤڈ اسپیکر پر بکروں کی تعریف۔یہاں سب کچھ خاموش، سلیقے سے اورمختلف انداز سے تھا۔
بکرے رسیوں سے بندھے، سایہ دار چھتوں کے نیچے اور ہر ایک کی پیشانی پر چھوٹی سی تختی
حلال، رجسٹرڈ، قیمت ¥xxxx
ہم نے ایک درمیانے قد کے، چمکدار سفید بکرے کا انتخاب کیا۔
آنکھوں میں سکون تھا، جیسے وہ خود بھی تیار ہو، اپنی آخری منزل کے لیے۔ بیچنے والا
Hui
مسلمان تھا دھیما لہجہ، صاف لباس، اور گہری مسکراہٹ۔
ہم نے کہا “ہم دوپہر کا کھانا کھا کر واپس آئیں گے، بکرا ہمارے لیے رکھ دیجیے گا؟” وہ مسکرایا، سر ہلایا، اور اگلے ہی لمحے اْس نے جیب سے ایک چھوٹی سی سرخ اسٹیمپ نکالی جس پر چینی زبان میں SOLDلکھا تھا۔
اْس نے وہ اسٹیمپ بکرے کی تختی پر لگائی
ایک پرانی سی تختی، جس پر جانور کا وزن، عمر اور قیمت درج تھی،
اور اب اْس پر سرخ رنگ میں مہربند ہو گیا تھا: “SOLD”۔
یہاں شور مچانے، رسی باندھنے، یا بکرا کھینچنے کی ضرورت نہ تھی۔
ایک اسٹیمپ، ایک وعدہ، اور خریدار کا نام یہی اس منڈی کی شناخت تھی۔
منڈی سے نکلتے ہی سورج بلند ہو چکا تھا،لیکن ہمارے دلوں میں ایک اور روشنی جاگی مسجد جانے کی خواہش۔ہم نے سیدھا لنشیا کی جامع مسجد کا رخ کیا۔
وہ مسجد جس کے بارے میں سْنا تھا کہ چینی اور اسلامی طرزِ تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔گول مینار، سبز و سفید رنگت، اور دروازے پر خوشبو بکھیرتی لکڑی۔
مسجد کے صحن میں داخل ہوتے ہی ایسا لگا جیسے کراچی کی کسی پرانی جامع مسجد میں قدم رکھ دیا ہو۔
میں پہلی بار Hui کمیونٹی کی مسجد میں گئی تو حیران رہ گئی۔ نہ کوئی لاوڈ اسپیکر، نہ جمعہ کا ہجوم، نہ اذان کی آواز۔ لیکن دروازے کے باہر جوتوں کی ترتیب نے بتایا کہ عبادت اندر جاری ہے۔ میں مسجد کے باہر رکی رہی، جیسے کسی پرانے خواب کے دروازے پر دستک دے رہی ہوں۔
کچھ دیر بعد، سفید ٹوپی پہنے بزرگ حضرات باہر نکلے۔ ان کے چہروں پر چین کی شہری زندگی کا تھکن زدہ رنگ بھی تھا، اور اللہ کی رضا کا نور بھی۔ ان کے ہلکے ہلکے سلام، دھیمے لہجے، اور محتاط قدم مجھے بتا رہے تھے کہ یہاں دین جتنا مضبوط ہے، اتنا ہی خاموش بھی۔
میں نے ایک بزرگ سے پوچھا “آپ لوگ عید الاضحیٰ کیسے مناتے ہیں؟”
وہ مسکرائے اور بولے “ہماری عید بہت چھوٹی ہے بیٹی، بس چند گھنٹے، خاموشی سے قربانی، پھر گوشت کا تین حصوں میں بٹوارہ، اور پھر روزمرّہ کی زندگی۔” میں نے دل ہی دل میں سوچا۔ کیا یہ چھوٹی عید، درحقیقت سب سے بڑی عبادت نہیں؟
حکومتی قوانین کی وجہ سے وہ زیادہ مذہبی اجتماعات منعقد نہیں کرتے، لیکن ان کے گھروں میں، ان کے دلوں میں، قربانی کا جذبہ زندہ ہے۔ بکرے، بھیڑیں، حتیٰ کہ کبھی کبھار گائیں — سب کو چپکے سے خریدا جاتا ہے، ذبح کیا جاتا ہے، اور گوشت قریبی غریبوں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
یہاں Hui مسلمان اپنے دین کو لباس، خوراک، اور زبان سے نہیں، رویے سے ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے کھانے حلال ہیں، ان کے دل صاف، اور ان کے انداز مہذب۔ میں نے ان کے چہروں پر وہ “خاموش عبادت” دیکھی جو نہ مسجد میں ملتی ہے، نہ کتاب میں، بلکہ صرف دل میں بستی ہے۔
فضا میں سکون تھا، ٹھنڈک تھی، اور دل میں ایک عجیب سی راحت ہم نے وضو کیا، نماز پڑھی، اور دل میں شکر ادا کیا کہ برسوں کا ارمان، آج ایک دن میں پورا ہو رہا ہے نہ صرف لنشیا دیکھا،
بلکہ اْس مویشی منڈی میں پہنچے جہاں ایمان اور قربانی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلتے ہیں
لِنشیا کی منڈی سے واپسی کے بعد ایک سوال دل میں گونجتا رہا “اگر کبھی وقت نہ ملے، تو کیا چین میں بکرا آن لائن بھی خریدا جا سکتا ہے؟”
کراچی کی گلیوں میں بکروں کے درمیان چلنا، ان کے سینگ چھونا، آوازیں سننا یہ سب ایک تہذیب ہے لیکن یہاں، چین میں، جہاں ہر چیز QR کوڈ سے جڑی ہو، وہاں قربانی بھی شاید ‘‘ایپ’’ میں بدل چکی ہے۔
میں نے لیپ ٹاپ کھولا، JD.com کی ویب سائٹ پر زندہ بکری لکھا، اور انٹر کا بٹن دبا دیا۔
چند لمحوں میں اسکرین پر درجنوں آپشنز نمودار ہو گئے۔ وزنی بکرے، مختلف نسلیں، قیمتیں، اور ہر جانور کی تفصیل۔ حیرت ہوئی، جیسے مویشی منڈی میری انگلیوں کے نیچے آ گئی ہو۔
مجھے وہ وقت یاد آیا جب ہم کراچی میں بکرا خریدنے نکلتے تھے۔ والد صاحب ہر جانور کی ٹانگیں، دانت اور عمر کا حساب لگاتے، اور ہم بچوں کا کام صرف محبت سے نام رکھنا ہوتا “چمپو”، “لالا”، “راجو” لیکن JD.com پر کوئی جانور کا نام نہیں تھا، صرف کوڈ تھا۔ ، حلال، ترسیل بشمول ذبح’’
یہاں قربانی صرف عبادت نہیں، ایک “سروس” بن چکی ہے۔ JD.com پر آپ بکرا خریدتے ہیں، وہ مخصوص دن پر کسی حلال سلاٹر ہاؤس میں ذبح ہوتا ہے اور گوشت پیک ہو کر آپ کے دروازے پر آ جاتا ہے۔ نہ کوئی خون، نہ گلی میں بہتا پانی، نہ تکبیرات کی گونج۔

بس ‘‘اوڈر کنفرم’’ اور ‘‘ڈیلیوری کمپلیٹ’’۔
میں نے ایک Hui دوکاندار لڑکی سے اس بارے میں پوچھا۔ اس نے مسکرا کر کہا “یہاں ہم عبادت کو آسان بنانے کے قائل ہیں، لیکن دل میں قربانی کا احساس باقی ہے۔” میں خاموش ہو گئی۔ شاید عبادت کا رنگ بدل گیا ہے، لیکن نیت کا خلوص وہی ہے۔ چینی زبان میں آن لائن قربانی کی ترسیل کو کہتے ہیں
“آن لائن ذبح خدمات”
یہ اصطلاح نئی تھی، لیکن روح پرانی وہی ابراہیمی جذبہ، بس انداز کچھ جدید۔ میں نے JD.com پر ایک بکری کو منتخب کیا، صرف تجربے کے لیے لیکن دل میں ایک ہچکچاہٹ تھی کیا عبادت بغیر مٹی کے لمس کے مکمل ہوتی ہے؟
“دل کہہ رہا تھا تْو قربانی چاہتا ہے، یا قربت؟”اور میں سوچتی رہی…کہ کلک کی قربانی اور ہاتھ کی دعا میں فرق کتنا ہے؟
چین جیسے جدید ملک میں جہاں ہر چیز موبائل سے کنٹرول ہوتی ہے، قربانی کے جانور بھی آن لائن ان پلیٹ فارمز سے خریدے جا سکتے ہیں اور وہ بھی حلال طریقے سے ذبح کے وعدے کے ساتھ۔
میرے موبائل کی اسکرین پر وہ تین پلیٹ فارمز جگمگا اٹھے جن پر چینی مسلمان بکرا، دْنبہ یا گائے آن لائن آرڈر کرتے ہیں:
1. Taobao
یہاں مخصوص سرچ جیسے Halal Goat For Eid کرنے پر کئی فروخت کنندگان سامنے آتے ہیں۔
ہر پوسٹ کے نیچے ذبح کی تاریخ، وزن، حلال سرٹیفیکیٹ اور ڈیلیوری تفصیلات لکھی ہوتی ہیں۔
2. JD.com
تھوڑی زیادہ منظم اور تیز سروس فراہم کرتا ہے، خاص طور پر شہر کے اندر slaughterhouses Halal -certified سے قربانی کے جانور پیش کیے جاتے ہیں۔
بعض صورتوں میں، آپ جانور کی ویڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں۔
3. Pinduoduo
یہاں کچھ سستے آپشنز ہوتے ہیں، اور Hui علاقوں سے مقامی جانور فروخت کیے جاتے ہیں۔
گروپ خریداری کا نظام بھی ہے، جس سے قیمت میں کمی آتی ہے۔
چین میں رہتے ہوئے مجھے جو سب سے خوبصورت تضاد دیکھنے کو ملا، وہ Hui مسلمانوں کی زندگی میں چھپا تھا۔ایک طرف گہری مذہبی روایت، اور دوسری طرف مکمل جدیدیت یہ امتزاج مجھے اکثر الجھا دیتا، اور پھر حیران بھی کرتا۔

لِنشیا کی ایک گلی میں، میں نے ایک نوجوان لڑکے کو دیکھا۔ سفید ٹوپی پہنے، ہاتھ میں اسمارٹ فون، اور ایئرپوڈز کان میں وہ مسجد کے صحن میں داخل ہو رہا تھا۔ میں نے دل میں کہا”یہ روایت کا بیٹا ہے یا ٹیکنالوجی کا پجاری؟
لیکن جیسے جیسے میں Hui کمیونٹی کو جاننے لگی، میں نے سیکھا کہ وہ دونوں ہیں اور دونوں میں توازن رکھتے ہیں۔
یہاں Hui لوگ نماز پڑھنے کے بعد WeChat پر حلال گوشت کی ترسیل آرڈر کرتے ہیں، عید کی کھانے کی تصویریں Xiaohongshu پر لگاتے ہیں، اور بچوں کو Zoom پر عربی کلاس دلواتے ہیں۔
ان کے گھروں میں قرآن بھی ہوتا ہے، اور Alexa بھی۔
Huiنوجوان لڑکیاں برقعے میں کالج جاتی ہیں، اور واپسی پر تاؤباؤ
پر جوتے خریدتی ہیں اْن کے دل ایمان سے بھرے ہیں اور دماغ آگے بڑھنے کے خوابوں سے۔
یہ تضاد نہیں، بلکہ ہم آہنگی ہے جو کسی پاکستانی لڑکی کے لیے، جیسے میں، حیران کن بھی ہے، اور سبق آموز بھی۔ ہم نے اکثر سنا کہ روایت اور جدیدیت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
لیکن Hui لوگوں نے مجھے سکھایا کہ جب دل صاف ہو، تو چہرے پر نور بھی رہتا ہے، اور ہاتھ میں فون بھی۔
خیر ذکر مویشی منڈی کا ہو رہا تھا۔ کراچی کی مویشی منڈی کا نام آتے ہی دل میں ایک شور اٹھتا ہے۔شور سے بھرپور، زندگی سے لبریز، دھول اور خوشبو کا امتزاج۔ جہاں بچے اپنی پسند کا بکرا ڈھونڈتے ہیں اور والد صاحب قیمت میں کمی کے لیے ایک لمبی بحث چھیڑ دیتے ہیں لیکن چین میں… سب کچھ الگ ہے۔شاید ایک دْھن ہے یہاں، لیکن وہ شور سے خالی ہے۔شاید جذبات ہیں، مگر اظہار مہذب اور خاموش سا۔
جب میں نے JD.com یا Taobao جیسے چینی آن لائن پلیٹ فارمز پر Halal Goatلکھا، تو سامنے آیا ایک ایسا جہاں جہاں بکرے تصویروں میں تھے، قیمت ساتھ درج تھی، اور نیچے چھوٹے چھوٹے نوٹس ‘‘حلال تصدیق شدہ، مخصوص ذبح خانے سے فراہمی، صرف مجاز علاقوں میں ڈیلیوری’’دل میں ایک الجھن ہوئی کیا یہ وہی قربانی ہے جسے ہم ہاتھوں سے چھوتے تھے؟ جس کی رسی تھام کر ہم تکبیر کہتے تھے؟
چین میں مسلمانوں کے لیے مذہبی زندگی ایک الگ نظم میں بندھی ہے۔
قربانی کے لیے جانور خود ذبح کرنا منع ہے۔ صرف لائسنس یافتہ، حکومت سے منظور شدہ مقامات پر قربانی ہو سکتی ہے۔
گھروں میں، گلیوں میں، یا کھلے میدان میں ذبح کرنا ، ‘‘ قانونی طور پر قابلِ سزا’’ہے۔
یہ قانون بظاہر صاف ستھرا نظام قائم رکھنے کے لیے ہیلیکن ایک پاکستانی مسلمان کے لیے، جو مذہب کو اظہار کے ساتھ جیتا ہے، یہ ایک ‘‘خاموش سی دوری’’ کا احساس دے جاتا ہے۔

پاکستان میں ہم جس چیز کو روایتی خوشی کہتے ہیں وہ شور، وہ بکرے کی گھنٹی، وہ چھری دھار کرنا۔ یہاں وہ سب کچھ قانون، ضوابط اور احتیاط کے خول میں بند ہے۔ حلال گوشت کی دستیابی بھی آسان ہے، مگر مشروط۔بڑے شہروں میں مخصوص Hui دکانیں ہوتی ہیں، جہاں “حلال” کا بورڈ صرف سجاوٹ نہیں، بلکہ اجازت کا ثبوت ہوتا ہے۔
ریسٹورنٹس پر جانے سے پہلے اکثر ایپ پر دیکھنا پڑتا ہے کہ “حلال” نشان موجود ہے یا نہیں۔ یہ آسانی بھی ہے اور مسلسل احتیاط بھی۔
کراچی میں ہم دین جیتے ہیں کھل کر، گلیوں میں، مسجدوں سے باہر نکل کراور چین میں…مسلمان ‘‘دین محسوس کرتے ہیں۔اندر، دل میں، خاموشی، لیکن پْراثر۔
تو ہاں، یہاں جانور خریدنے کا تجربہ ایک کلک میں مکمل ہو جاتا ہے،
لیکن وہ لمس، وہ انتظار، وہ نام رکھنے والا جذبہ وہ کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔
شاید یہی قربانی ہے صرف جانور کی نہیں، اپنی خواہشوں کی بھی اور میں یہ سب دیکھ کر سوچنے لگی
‘‘اگر روایت اور جدیدیت ایک ساتھ چل سکتی ہیں، تو کیا میرے دل میں بھی قربانی کے جذبے اور ڈیجیٹل دنیا کا امتزاج ممکن ہے؟”
مگریہ جان کر خوشی ہوئی کہ چین میں نہ صرف ڈیجیٹل قربانی کے لیے آن لائن بکرے دستیاب ہیں، بلکہ مویشی منڈیاں بھی باقاعدہ موجود ہیں جو روایت اور جدیدیت کے حسین امتزاج کا ثبوت ہیں۔
کیا میں بھی لِنشیا کی زمین پر وہی عیدالاضحیٰ منا سکتی ہوں، جو کبھی کراچی کی گلیوں میں منائی تھی؟ کیا وہی قربت، وہی جذبات، یہاں بھی ممکن ہیں؟
یہ سوالات لے کر میں اپنی قربانی کی تیاریوں میں مصروف ہو گئی ہوں۔ نہ صرف ایک جانور کے انتخاب میں، بلکہ خود کو ایک نئی زمین پر اپنے ایمان کی خوشبو کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش میں بھی۔ اگلی بار لکھوں گی۔ عید الالضحی کے دن کی داستان، جب لِنشیا کی خاموش گلیوں میں ہماری تکبیر گونجے گی اور قربانی صرف ایک رسم نہیں بلکہ دل اور رب کے درمیان بندگی کا تعلق بن جائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں