گیارہ مخروطی جھیلیں ….حمیرا گل تشؔنہ

اس بات کا تو ہم کو یقین ہے کہ اللہ تعالٰی نے ہمارے ہاتھ میں سفر کی لکیر کھینچی ہے۔ اس بار میموریل ویک اینڈ پر ہمارے میاں جی کو لاڈ آیا اور پیکنگ کا حکم صادر کیا۔ اب اندھا کیا چاہے؟ دو انکھیں! ہم نے بھی فرمانبرداری کا ثبوت دیتے ہوئے رخت سفر باندھا اور نکل پڑے خدا کی قدرت کے کچھ اور جلوے دیکھنے کو جیسے اونگھتے کو ٹہلنے کا بہانہ مل گیا ہو۔
لیکن اس بار سفر کے لیے جو نکلے تو طے کیا کہ باہر کا کھانا کم سے کم کھایا جائے گا۔ اب کیا کریں ہماری موئی زبان کو بازار کے کھانے ذرا نہیں بھاتے۔ بس اسی لیے ہم اپنے ہاتھوں سے گھر پہ بیگل bagal بنائے اور ناشتے کے سامان کے طور پر پیک کیے۔ اس کے علاوہ حلیم، شامی کباب و پلاؤ بنا کر شب کی ضیافت کا اہتمام کیا اور گنگناتے ہوئے نکلے
“میں نگری نگری گھوموں۔۔۔میں عشق میں تیرے جھوموں”
اس بار گاڑی کا رخ “فنگر لیک finger lakes” نیویارک کی جانب تھا جو کہ تقریبا کنیکٹ ٹی کٹ سے پانچ گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ اسے آپ پتلی لمبی گیارہ جھیلوں کا گروپ کہہ لیں ۔ یہاں 1720 میں نیٹو امریکن native American قبیلے آباد ہوا کرتے تھے۔ یہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ اس جگہ کا نام فنگر لیکز کیسے پڑا؟ البتہ united states geological survey by Thomas Chamberlin نے 1883 میں اس علاقے کی رپورٹ شائع کی جس میں اس جگہ کے لیے فنگر لیکز کا لفظ استعمال ہوا بعد میں 1893 میں قانونی طور پر اس جگہ کو فنگر لیکز کا نام دیا گیا۔ ویسے اگر سیٹلائٹ کی مدد سے یا بلندی سے اس جگہ کو دیکھا جائے تو یہ مخروطی جھیلیں اپنے نام کی عکاسی کرتی ہوئی ملتی ہیں۔
خیر، ہم پانچ گھنٹے کے اس طویل سفر میں صرف ایک ریسٹ ایریا پر زرا سی دیر سستانے کو رکے اور پھر گاڑی کاٹج (ہوٹل) کے دروازے پر ہی جا کر رکی۔ کیونکہ یہ کاٹج کی طرز پہ بنا ہوٹل تھا جس کا ویلکم روم بند تھا۔ اب نہ آدم نہ آدم زاد، سفر کی تھکان الگ، بندہ بےزار ہو ہی جاتا ہے (ہم بھی ہوگئے)۔ ہم نے اپنے میاں کو آنکھیں دکھائیں (جو انھوں نے جان بوجھ کر نہیں دیکھیں) اور کہنا چاہتے تھے کہ کیا یہی جگہ ملی تھی؟ لیکن اس سے پہلےکہ ہم کچھ کہتے ہوٹل کے مالک صاحب اپنی والدہ کے ہمراہ ٹہلتے ہوئے سامنے سے آتے دکھائی دیئے۔
کاٹج میں داخل ہوتے ہی سمجھو تھکان دور ہوگئی۔ ہلکے سبز رنگ کا کمرہ اور سفید و گلابی رنگ کے کمفرٹر نے ذہن پر خوشگوار اثرات مرتب کیے۔ بس پھر کیا تھا گاڑی سے سامان کمرے میں منتقل کیا اور پھر نکل گئے آوارہ گردی کرنے لیے۔ اور پہنچے لوکل آئس کریم کی دکان پر وہاں سے ایس کریم لی اور جھیل کنارے بیٹھ کر سکوں کھاتے ہوئے غروب آفتاب کا منظر دیکھا۔
دوسرے دن صبح تقرینا دس بجے تک ہم پہنچے کورننگ میوزیم آف گلاس (corning museum of glass) اور وہاں پہنچ کر وقت کا اندازہ کرنا واقعی بہت مشکل کام ہے۔ ان کی آرٹ گیلری میں ہر شے شیشے سے بنی ہوئی اور عام ایگزیبیشن سے بہت ہی مختلف ہے۔
ایک طرف شیشے کی ساڑھی پہنے عورت کا مجسمہ تھا تو دوسری طرف پیرامڈ بنے ہوئے تھے۔ ایک جانب شیشے کا ٹوٹا ہوا سرخ رنگ کا فانوس تو دوسری طرف گلاسوں سے سجا چھت کو چھوتا ریک۔ ابھی ہم ایگزیبیشن دیکھنے میں مگن تھے کہ ایک انڈین خاتون نے مسکراتے ہوئے مخاطب کیا اور پوچھا، “آپ حمیرا گل تشؔنہ ہیں ناں؟” ہم جو سکون سے شیشے کی دنیا میں گم تھے واپس زمینی دنیا میں آئے اور غائب دماغی سے بولے، جی ہاں، اور آپ؟ وہ خاتون مسکرا کر کہنے لگیں میں گیتا ہوں نیوجرسی سے آئی ہوں یہاں۔ آپ کو مشاعرے میں سنا تھا آپ کی شاعری بہت اچھی ہے۔ ہم نے مسکرا کر ان کا شکریہ ادا کیا۔ ان کی فیملی سے بڑھ کر ہیلو ہائے کی اور ان کی خواہش کے مطابق ایل سیفی بھی کھینچوائی اور ان سے رخصت لی۔ ہمارے میاں جی ساری کاروائی سکون سے دیکھتے رہے پھر بولے، “لگتا ہے مشہور ہو گئی ہو۔”

گلاس ایگزیبیشن کے حصے سے جیسے ہی نکلے سامنے بڑا سا دروازہ دکھائی دیا۔ ہم بھی شتر مرغ کی طرح منہ سیدھے دروازے سے داخل ہوئے تو سامنے ہی کانچ کی بوتلوں کا چھت کو چھوتا شیلف دکھا جہاں کانچ سے شراب کی پہلی بنائی گئی بوتل بھی ڈیمو کے طور پر رکھی تھی۔ بائیں جانب کانچ کی بے شمار پلیٹوں کا شیلف تھا۔ آگے بڑھے تو کاریگر کانچ سے بنائی گئی مختلف چیزوں کے بارے میں آگاہی دے رہے تھے۔ ہم بھی موقع ملتے ہی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ کاریگر نے کانچ کو پگھلا کر چھوٹی سی پرفیوم کی بوتل تیار کی۔ آگ کی حدت کا اندازہ کرنا شیشے کو ایک مخصوص شکل دینا اور بوتل کی شکل دینے کے لیے شیشے کے دوسرے رخ سے خاص تناسب سے پھونک مارنا واقعی حیران کن عمل تھا۔ کیونکہ شام کو ہم کو واپس گلاس میوزیم آنا تھا اس لیے ہم وہاں سے نکل کر سیدھا پارکنگ کی جانب بڑھے۔
اب ہمارا رخ فنگر لیک کے علاقے میں موجود واٹکنز جین اسٹیٹ پارک (Watkins genn state park) کی جانب تھا۔ وہاں پہنچ کر دس ڈالر داخلے کی فیس دی اور پارک کا نقشہ حاصل کیا۔ تقریبا پندرہ سے بیس منٹ تو اس نقشے کا بغور جائزہ لیا تاکہ راستے کا تعین کیا جا سکے کہ کون سا راستی منزل تک پہنچنے کے لئے لینا بہتر ہوگا اور جی پھر شروع ہوئی ہماری ہائیکنگ۔ اور سچ پوچھیں تو وہاں پہنچ کر ہماری اور میاں جی کی شروع ہوئی ریس۔ کبھی وہ آگے بڑھ جاتے تو کبھی ہم۔ یونہی ہنسے کھیلتے اونچے نیچے رستوں پر سے گزرتے ہوئے تقریبا ایک گھنٹہ چلنے کے بعد ہم ایک غار میں داخل ہوئے۔
اس غار میں پہنچ کر اندازہ ہوا اک ہم نہیں دنیا میں، دیوانے ہزاروں ہیں۔ بے شمار لوگ خدا کی قدرت کے جلوے دیکھنے کے لیے بیتاب تھے۔ یہی وجہ تھی کہ بہت رش تھا۔ دوسری وجہ رش کی ہمیں آگے پہنچے کر سمجھ آئی۔ غار سے نکلتے ہی جو راہداری ہے اس کے عین اوپر سے آبشار گر رہی ہے۔ تو بے شمار لوگ وہاں رک کر پس منظر میں گرتے ہوئے پانی کے ساتھ تصاویر لے رہے ہیں جس کی وجہ سے آمد و رفت کا سلسلہ متاثر ہو رہا تھا۔ خیر ہم نے تصویر تو نہیں لی لیکن ہاتھوں کے پیالے بنا کر آبشار کا پانی ضرور پیا اور جیسے پانی پیتے ہی ساری تھکن دور ہوگئی۔ آگے رک کر تھوڑی دیر اس منظر سے لطف اندوز ہوتے رہے اور واپسی کی راہ لی کیونکہ ابھی ایک گھنٹہ واپس گاڑی تک پہنچنے کے لیے چلنا بھی تھا اور پانچ بجے تک گلاس میوزیم بھی واپس پہنچنا تھا۔
وہاں سے نکلے تو تقریبا ساڑھے تین بج رہے تھے اور شدید بھوک کا احساس بھی ہو رہا تھا۔ اب ہم واپس میوزیم کے راستے میں تھے کہ تندوری پیزے (wood fire pizza) کی چھوٹی سی دکان دکھی۔ بس نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ فورا گاڑی روکی. آپ کو کیا لگا یہ کوئی تندوری مصالحہ پیزا ہوگا، جی نہیں یہ پیزا چھوٹی سی بھٹی میں لکڑی جلا کر بنایا جاتا ہے اور اسی لیے اس کا ذائقہ بہت عمدہ ہوتا ہے۔ خیر، یہاں سے کھانا کھا کر واپس کورننگ میوزیم آف گلاس پہنچے اور گفٹ شاپ سے یادگار کے طور پر ایک دو چیزیں لیں۔ اور پانچ بجے ساتھ ہی بنی دوسری بلڈنگ شیشے کے کارخانے میں گئے۔
عجیب شوق ہیں ہمارے ہر چیز ہر کام کا تجربہ کرنا۔ اس کو محسوس کرنا، دیکھنا، پرکھنا۔ تو اس کارخانے میں بھی تجربہ کرنے پہنچ گئے۔ اور اس بار یہ طے کیا کہ شیشے سے لاکٹ بناؤں گی وہ بھی اپنے ہاتھوں سے۔
یہ تجربہ کرنے کی فیس الگ سے پینتالیس ڈالر تھی۔ وہاں پہنچے تو اس کے دو کاریگر ہمارے ساتھ تھے ہمیں فورا ایپرن، آستینیں، اور کالا چشمہ پہننے کو کہا۔ اس کے بعد شروع ہوا ہمارے لاکٹ بنانے کا عمل جس کے لیے ہم نے کالا، سفید، اور نیلا ان تین رنگوں کا انتخاب کیا۔ آگ پہ شیشے کو پگھلانا، اس پگلے ہوئے شیشے میں دوسرے رنگوں کو ملانا۔ شیشے کو ایک خاص حدت پہ رکھنا اور اس کو اپنی مرضی کی شکل دینے کے لیے بڑے تحمل سے گزرنا پڑا۔ یہ نہ ہو کہ تپش زیادہ ہوجائے اور یہ بھی نہ ہو کہ لاکٹ کی شکل ہی بگڑ جائے۔ خیر ہماری مدد کرنے والے کاریگر کی مدد سے جب لاکٹ تیار ہوگیا تو اس کو ایک خاص کیمیکل میں ڈالا تاکہ وہ وقت کے ساتھ ٹھنڈا ہو سکے۔ اس کاروائی کے بعد ہمیں ایسا لگا جیسے پیسے وصول ہوگئے۔ زندگی میں بے شمار تجربے کیے لیکن یہ کافی الگ تھا۔
وہاں سے واپس ہوٹل آتے ہوئے سینیکا لیک ( seneca lake) پر رکے اور واک کرتے ہوئے غروب آفتاب کا منظر دیکھا اور فنگر لیکز finger lakes کی شام کو پھر آنے کا کہہ کر خدا حافظ کہا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں