ڈائر وولف: کیا واقعی دوبارہ زندہ ہو گیا ہے؟….حمیرا گل تشنہ

امریکا میں ڈائر وولف (Dire Wolf) پر حالیہ سائنسی تحقیق نے اس معدوم جانور کو دوبارہ زندہ کرنے کے دعووں کو مرکزِ توجہ بنا دیا ہے۔ ڈالاس کی بائیوٹیکنالوجی کمپنی “کولوسل بائیو سائنسز” نے اعلان کیا ہے کہ اس نے جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے ڈائر وولف جیسے جانوروں کو دوبارہ تخلیق کر لیا ہے۔
ڈائیر وولف (Dire Wolf)، جس کا سائنسی نامCanis” dirus” ہے، ایک معدوم قسم کا بھیڑیا تھا جو تقریباً 125,000 سے 9,500 سال قبل شمالی اور جنوبی امریکا میں پایا جاتا تھا۔ یہ جانور اپنے دور کا ایک بہترین طاقتور شکاری تھا اور آج کے بھیڑیوں (Gray Wolf) سے کئی لحاظ سے مختلف تھا۔ ڈائر وولف کو اکثر فلموں، کتابوں اور گیمز میں دکھایا جاتا ہے، جیسے کہ مشہور ٹی وی سیریز Thrones” of “Gameمیں بھی جہاں یہ اسٹارک خاندان کا علامتی جانور ہے۔
ڈائیر وولف آج کے بھیڑیوں سے بڑا اور زیادہ طاقتور تھا۔ اس کی اہم جسمانی خصوصیات درج ذیل ہیں:
1) جسمانی ساخت: ڈائیر وولف کا وزن تقریباً “60 سے 80 کلوگرام” تک ہوتا تھا، جبکہ اس کی لمبائی “1.5 میٹر” تک ہو سکتی تھی۔ اس کے مقابلے میں موجودہ بھیڑیا (Gray Wolf) کا وزن عام طور پر “30 سے 50 کلوگرام” ہوتا ہے۔
2) مضبوط جبڑے: ڈائیر وولف کے جبڑے بہت طاقتور تھے، جو اسے بڑے شکار کو مارنے اور ہڈیاں توڑنے میں مدد دیتے تھے۔
3) موٹی کھال: کیونکہ یہ برفانی دور (Ice Age) میں رہنے والا جانور تھا۔ اس لیے سخت سرد موسم کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کی کھال بہت موٹی اور بھاری ہوتی تھی۔
ڈائیر وولف کی باقیات زیادہ تر شمالی امریکا، خاص طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکا اور میکسیکو سے ملی ہیں۔ جنوبی امریکا میں بھی اس کے کچھ فوسلز دریافت ہوئے ہیں۔ یہ جانور عام طور پر جنگلات، گھاس کے میدانوں اور برفانی علاقوں میں رہتا تھا۔ مزید یہ کہ، یہ ایک “کارنیور” (گوشت خور) جانور تھا اور یہ بڑے جانوروں کا شکار کرتا تھا۔ اس کے شکار میں شامل تھے:
– بائسن (Bison)
– مستھڈن (Mastodon)
– گریٹر بڑے ہرن
– اور دیگر چھوٹے جانور
وہ تنہا نہیں بلکہ اکثر گروہ کی شکل میں شکار کرتے تھے، جس سے انہیں بڑے جانوروں کو گرا نے میں آسانی ہوتی تھی۔
ڈائیر وولف کم از کم تقریباً “9,500” سال قبل معدوم ہو گیا۔ اس کی معدومیت کی چند ممکنہ وجوہات یہ ہیں:
1) موسمیاتی تبدیلی: برفانی دور کے ختم ہونے سے ماحول تبدیل ہوا، جس سے ڈائیر وولف کے شکار کم ہو گئے۔
2) انسانوں کا دباؤ: قدیم انسان ( Indians Paleo ) نے بھی زندگی گزارنے کے لیے ان کے شکار پر انحصار کیا، جس سے دیئر وولف کی خوراک کم سے کم ہو گئی۔
3) مسابقتی دباؤ: چھوٹے اور زیادہ موافق بھیڑیوں (جیسے Wolf Gray ) نے ڈائیر وولف کے لیے خوراک کے حصول کو مشکل بنا دیا۔ ڈائیر وولف کو جدید ثقافت میں کئی جگہوں پر دکھایا گیا ہے جیسے کہ Thrones” of “Gameکی سیریز میں بھی ڈائیر وولف اسٹارک خاندان کا علامتی نشان ہے۔ کئی فلموں اور کتابوں میں کئی فکشن کہانیوں میںڈائیر وولف کو ایک خطرناک اور پراسرار جانور کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ – آج کے دور میں کھیرے جانے والے کئی گیمز جیسے Evolved” : Survival ARK “میں ڈائیر وولف کو ایک طاقتور جانور کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ حال ہی میں، “ڈی این اے تحقیق” سے پتہ چلا ہے کہ ڈائیر وولف موجودہ بھیڑیوں سے جینیاتی طور پر بہت مختلف تھا اور یہ ایک الگ نسل تھی۔ اس تحقیق نے سائنسدانوں کو قدیم جانوروں کے ارتقاء کو سمجھنے میں مدد دی ہے۔ ڈائیر وولف ایک دلچسپ اور طاقتور جانور تھا جو اپنے دور کا ایک اہم شکاری تھا۔ اگرچہ یہ معدوم ہو چکا ہے، لیکن اس کی کہانیاں اور فوسلز ہمیں قدیم دنیا کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ جدید ثقافت میں اس کی شبیہہ ایک رومانوی اور پراسرار مخلوق کے طور پر زندہ ہے، جو اسے ہمیشہ یادگار بنا دیتی ہے۔ لیکن ہم کیوں کہ اب جدید سائنسی دور میں جی رہے ہیں۔ سو اب سائنس کی مدد سے انہونی ہونا کوئی انہونی بات نہیں رہی۔ کولوسل بائیو سائنسز نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے “تین ڈائیر وولف کے بچوں” (Romulus, Remus, اور Khaleesi) کو جنم دیا ہے، جو تقریباً 10,000 سال قبل معدوم ہو گئے تھے۔ یہ بچے گرے وولف ( Wolf Gray) کے جینوم میں 20 جینیاتی تبدیلیاں کر کے تخلیق کیے گئے ہیں، جس سے ان میں ڈائیر وولف جیسی خصوصیات (جیسے سفید بال، مضبوط جبڑے، اور بڑا جسم) پیدا ہوئی ہیں۔اگرچہ کولوسل کے دعووں نے دنیا بھر میں توجہ حاصل کی ہے، لیکن سائنسی برادری میں اس پر شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ تحقیق جینیاتی انجینئرنگ کی طاقت کو ظاہر کرتی ہے، لیکن اس کے اخلاقی، ماحولیاتی اور حفاظتی اثرات پر مزید بحث کی اور اقدامات کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں