جب سورج بیجنگ کے بادلوں سے جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا میرے کمرے میں رات جاگ رہی تھی۔
میری آنکھوں کے نیچے حلقے گواہی دے رہے تھے کہ رات بھر نیند کا کوئی پیامبر میرے پاس نہیں آیا۔ موبائل کی اسکرین پر انگلی بار بار سرکتی، چینل بدلتا، خبر بدلتی، لیکن دل کی دھڑکن نہیں۔ آج موبائل میرے ہاتھوں میں کانپ رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس چھوٹی سی اسکرین میں پورا پاکستان سما گیا ہو۔
جیو نیوز، اے آر وائی، سماء۔۔۔ہر پل، ہر لمحہ، ایک نئی سرخی، ایک نیا دھچکا، ہر خبر جیسے نیا دھماکہ ۔سیالکوٹ پر ڈرون حملہ ، لاہور میں ایمرجنسی نافذ، کراچی پورٹ پر میزائل حملہ، اور میرے دل میں جیسے ہر خبرایک دھماکے کی طرح گونج رہی تھی ۔ میری انگلیاں موبائل پر خبروں کواسکرول کر رہی تھیں اور دل میں اضطراب یوں ہلچل مچا رہا تھا جیسے سرحد پار توپیں نہیں، میری روح پر گولے برس رہے ہوں۔کبھی میں پاکستان فون کرتی ۔ بہنوں سے خیریت طلب کرتی کہ سب خیریت ہے؟ لاہور میں سسرال ہے تو وہاں کے حالات جاننے کی کوشش کرتی ، سیالکوٹ کے احباب سے رابطہ کرتی کہ کیا صورتحال ہے؟ میری آواز میں جو کپکپاہٹ تھی، وہ بیجنگ کی سردی کی نہیں پاکستان کے آسمان پر منڈلاتی گن گرج کی تھی۔
ایک لمحہ تھا ، ایک اسکرین اور ساری دنیا جیسے اُس میں قید ہو گئی تھی اور میں بیجنگ میں بیٹھی ہوئی، وہ لڑکی، جو نہ سپاہی ہے، نہ سیاستدان صرف ایک پاکستانی بیٹی ہے ۔
جس کا دل اس وقت پاکستان کے آسمان پر اُڑتے ہر سائے سے زخمی ہو رہا تھا۔ اپنے وطن سے ہزاروں میل دور جو گھر بیٹھ کر الفاظ سے تاریخ کا پہرہ دے رہی ہے مگر ان خبروں کے بیچ کہیں میرا دل تھا بےچین، پریشان اور تنہا ۔ ایک جنگ کا خدشہ، ایک دشمن کی سازش، اور ایک وطن جو ہمیشہ ہماری محبتوں کی ضد میں قربانی کا کفن اوڑھ لیتا ہے۔ میرے دل میں وہی دھڑکن جاگ اٹھی، جو کبھی کراچی کے مزار قائد پر قومی پرچم تھامے نعرے لگاتے ہوئے ہوتی تھی۔
اسکرین پر خبریں بار بار پلٹ رہی تھیں ۔ بھارت کی جھوٹی خبروں نے جیسے پاکستان کا جغرافیہ ہی مٹا دیا تھا۔ایک خبر میں لاہور میں سمندر تھا،
اور اُس پر بنا “لاہور پورٹ” دشمن کے حملے میں جل کر راکھ ہو چکا تھا ۔دوسری خبر میں کراچی کا ساحل مٹ چکا تھا ۔جہاں میرے بچپن کی یادیں تھیں، وہاں اب صرف بارود کی راکھ تھی۔اسلام آباد میرے خیالوں کا خوبصورت شہر خبرناموں میں “تباہ شدہ دارالحکومت” بن چکا تھا۔اور سیالکوٹ نقشے سے ایسے غائب، جیسے کبھی وجود ہی نہ رکھتا ہو۔ اور میری آنکھیں ایسی سچائی تلاش رہی تھیں جو اُس وقت کہیں بھی نہیں تھی۔
میری سانسیں رکتی جا رہی تھیں کبھی میں پاکستان کال کرکے حالات کی خبریں سنتی اور کبھی انڈین میڈیا کے جھوٹے دعووں اور بے بنیاد سرخیوں کا سامنا کرتی۔کبھی کراچی پورٹ کی تباہی کی خبر آتی، کبھی لاہور اور سیالکوٹ کے حوالے سے ڈرون حملوں کی بات کی جاتی۔
یہ سب کچھ اتنا افسوسناک تھا کہ دل دہل رہا تھا اور ہر نئی سرخی جیسے امید کا دامن چھین لیتی تھی ۔ یہ صرف جنگ نہ تھی، بلکہ خبر اور جھوٹ کے بیچ لٹکتی وہ سچائی تھی جس کا بوجھ صرف دور بیٹھا ایک محب وطن دل ہی محسوس کر سکتا ہے۔ تب ہی ایک اور خبر نے چونکا دیا لیکن یہ سرخی خوف سے نہیں، امید سے بھری ہوئی تھی۔
چین نے پاکستان کی مکمل حمایت کا اعلان کر دیا ، دفاعی ٹیکنالوجی،
سیٹلائٹ سسٹمز، اور عسکری مدد فوراً فراہم کی جائے گی۔
چین، وہی ملک جہاں میں بیٹھی تھی۔جس کی زبان مجھے ابھی مکمل نہیں آتی مگر جس کے لہجے میں اُس دن میرے لیے دوستی، پناہ اور ایک وعدہ تھا جیسے دور کہیں بارود کی گھن گرج میں ایک دوستی کی صدا نے مجھ تک راہ بنا لی ہو۔ چینی وزارت خارجہ کا اعلان آیا ۔ سادہ، مضبوط اور دوستی سے لبریز
پاکستان ہمارا سٹریٹیجک اتحادی ہے۔ ہم اس کے دفاعی حق کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ اگر پاکستان پر حملہ ہوا تو اسے چین پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
یہ صرف الفاظ نہ تھے یہ ایک پیغام تھا،جو بھارت سے زیادہ دنیا کو سنانا تھا۔
چین نے نہ صرف پاکستان کو جدید میزائل سسٹم، ڈرون جیممرز اور سیٹلائٹ ڈیٹا فراہم کیا، بلکہ چین کے ماہر انجینئرز نے براہِ راست پاکستان کے کمانڈ سینٹرز میں آن لائن سپورٹ بھی فراہم کی۔
JD-2 ہائپرسونک میزائل، جو حالیہ برسوں میں چین نے ڈیولپ کیا
پاکستان کے حوالے کیے گئے تاکہ کسی بھی بھارتی جارحیت کا فوری اور فیصلہ کن جواب دیا جا سکے
چین کی اے آئ ٹیکنالوجی نے پاکستانی ریڈار سسٹمز کو تقویت دی جس کی بدولت دشمن کی نقل و حرکت پل پل سامنے آتی بھارت نے سی پیک پر بھی حملے کی کوشش کی مگر چینی کمپنیوں نے اعلان کیا
اگر ہماری تعمیراتی سائٹس پر حملہ ہوا، تو ہم صرف ٹھیکے دار نہیں، شریک محافظ بن کر کھڑے ہوں گے
اور یوں گلگت سے گوادر تک، چینی اہلکار اور پاکستانی فورسز ایک ساتھ کھڑے ہو گئے۔
چین کی حمایت کی خبر نے میرے دل میں ایک انوکھا جذبہ پیدا کیا۔ ایک ایسا جذبہ جو ایک پاکستانی لڑکی کو اپنے وطن کے لیے کچھ کرنے کی ترغیب دے رہا تھااور پھر چین کی اس پہلی صدا نے نہ صرف میری پریشانیوں کو کم کیا بلکہ دنیا کو یہ بتا دیا کہ پاکستان اکیلا نہیں ہے۔
اسی دوران سوشل میڈیا پر جیسے ہی جنگ کی بازگشت گونجی، ایک نیا محاذ کھل گیا۔ جہاں نہ بندوقیں تھیں نہ بارود، صرف الفاظ تھے، میمز تھے، اور ہیش ٹیگز جو دلوں کی گہرائیوں سے نکلے تھے۔ میں بیجنگ کی بارش میں بھیگتی کھڑکی کے پاس بیٹھی، موبائل اسکرین پر بہادری کی نئی قسم دیکھ رہی تھی۔ پاکستانی نوجوانوں نے دشمن کی جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈے کو ایسی زبان میں جواب دیا، جو نہ صرف طنز سے لبریز تھی بلکہ مزاح سے بھرپور بھی۔ “سندور بنا تندور” ہر ٹائم لائن پر جلتا ہوا نظر آ رہا تھا، “چائے تھی شاندار ۔ پارٹ 2” کی گونج پھر سے سنی جا رہی تھی، اور “پگڑی کے نیچے خالی جہاز” جیسے ہیش ٹیگز نے دنیا کو بتایا کہ ہم صرف وار ہی نہیں کرتے، وار کا مزاحیہ پوسٹ مارٹم بھی کرتے ہیں۔ “را کی راکھ”، “ٹوی پلین آرمی”، اور “میڈیا وار کا جواب میم وار” جیسے نعرے صرف کلک نہیں تھے، یہ وہ وار تھے جو قوم کے حوصلے سے نکلے تھے۔ بیجنگ کی خاموشی میں، یہ آوازیں پاکستان کے عزم کی بازگشت تھیں۔ایسی گونج جوسرحدوں کو بھی چیر کر دشمن کے کانوں تک پہنچی۔
جنگ کی پہلی صبح یا چین کی پہلی صدا کہہ لیجئے کہ
صبح ابھی پوری طرح جاگی نہیں تھی، بیجنگ کی سڑکیں خاموش تھیں،جیسے کسی بے نام انتظار میں ہوں اور میرے کمرے کی کھڑکی سے چھن چھن کر آتی ہلکی روشنی یوں لگ رہی تھی جیسے کسی ماں کے ہاتھوں کی لرزتی چادر ہو جو اپنے بچے کو جنگ کے شور میں سمیٹنا چاہتی ہو۔
میں نے آنکھیں ملیں اور سب سے پہلے موبائل اٹھایا وہی موبائل جواب خواب اور حقیقت کے درمیان پل کا کام دے رہا تھا۔ اسکرین پر سَرخی اب بھی لال تھی
پاکستان کی جوابی کارروائی بھارت کے تین ایئر بیس تباہ، دشمن پسپا
میرے لب ہولے سے لرزے، اللہ تیراشکر
رات کے سائے ابھی مکمل چھٹے نہ تھے کہ بھارتی فوج نے ایک بار پھر سرحد پار اشتعال انگیزی کی۔ لیکن اس بار جواب پہلے سے مختلف تھا۔
پاکستانی فضائیہ کے شاہین، گرجتے ہوئے افق میں اترے۔ ان کے پیچھے “JF-17 تھنڈر” تھے، جو اب “چینی اپ گریڈڈ راڈار سسٹمز” اور “لیزر گائیڈڈ میزائلوں” سے لیس تھے۔
پاکستان نے زمین سے ہدف کو مار گرانے والے سسٹم کا استعمال کیا، جس میں چینی ساختہ “HQ-9B “ دفاعی میزائل سسٹم شامل تھا۔
کشمیر کی فضا میں، پاکستانی طیارے دشمن کے غرور کو توڑتے ہوئے، اس کی فضائی برتری کو مٹی میں ملا چکے تھے۔
ادھر راجھستان کے محاذ پر “پاکستان آرمی کے کمانڈوز” نے دشمن کے مورچوں کو گھیر لیا۔
سوشل میڈیا پر ویڈیوز آنے لگیں بھارتی ٹینک جل رہے تھے، اور ان کے سپاہی پسپائی اختیار کر رہے تھے۔
چین کی طرف سے جاری ہتھیاروں اور انٹیلیجنس شیئرنگ نے دشمن کی پوزیشنوں کو پہلے ہی آشکار کر دیا تھا۔چین نے نہ صرف سفارتی سطح پر بھارت کو تنبیہ کی ، بلکہ سیٹلائٹ کی مدد سے پاکستانی افواج کو ہر لمحے کی نگرانی میں رکھا۔
۱۰ مئی کو جیسے ہی پاکستان کی فتح کی تصدیق ہوئی،
میرے کمرے میں خوشی کا طوفان تھا، لیکن میں خاموش تھی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ یہ آنسو فتح کے تھے، دعا کے تھے، اور اُس یقین کے تھے کہ محبت اگر خالص ہو، تو خدا بھی راستے کھول دیتا ہے۔ میں نے قلم اٹھایا، اور پہلی سطر لکھی
“یہ جنگ پاکستان نے صرف ہتھیاروں سے نہیں، سچائی، وفاداری، اور ایک مخلص دوست “ چین “کے ساتھ مل کر جیتی ہے”
چینی اخبارات آن لائن کھولے تو حیرت نے مجھے تھام لیا۔ ہر سرخی میں پاکستان کا ذکر تھا لیکن خوف کے ساتھ نہیں، احترام کے ساتھ۔ چینی حکومت نے نہ صرف پاکستان کے مؤقف کی تائید کی، بلکہ دنیا کو پیغام دیا ۔پاکستان تنہا نہیں چین اُس کے ساتھ ہے، ہر سطح پر۔
10 مئی بھارت جنگ ہار چکا تھا،
نیوز چینلز پر اب وہی لہجہ تھا جو صرف فتح کے بعد آتا ہے۔ پراعتماد، سربلند، اور جوشیلہ ، وطن کی محبت سے بھرپور جیسے ہر جملہ پہلے دل سے ہو کر گزرا ہو
پاکستان نے بھارتی فوج کی پانچ بڑی تنصیبات تباہ کر دیں ، را جونیئر کی سائبر حملے کی سازش بے نقاب ، سیالکوٹ کے محافظوں نے دشمن کو پسپا کر دیا ۔ میرے وطن کا ہر سپاہی اُس دن ایک داستان بن چکا تھا۔
چین کی سڑکوں پر، چینی نوجوان پاکستانی پرچم اٹھائے جشن منا رہے تھے کچھ نے ’دل دل پاکستان‘ بجایا، کچھ نے وی چیٹ پر پاکستانی دوستوں کو فتح کی مبارکباد دی۔ بیجنگ یونیورسٹی کے باہر لگی LED اسکرین پر چینی زبان میں لکھا گیا ۔
“پاکستان کی فتح — ہمارے بھائی کا فخر ہمارا فخر ہے”
میں نے پڑھا، چینی طلباء پاکستانی طلباء کے ساتھ مل کر پاکستانی پرچم اٹھائے سڑکوں پر نکلے۔ کچھ نے پاکستانی سفارتخانے کے باہر موم بتیاں جلائیں اور بینرز پر لکھا
”Pak-China Dosti Zindabad”
دل میں عجیب سا سکون اترا جیسے رات بھر کی گرج دار خاموشی کے بعد کسی دوست نے کندھے پر ہاتھ رکھا ہو، بغیر کچھ کہے، صرف موجودگی سے تسلی دی ہو
جنگ ختم ہو چکی تھی دھوئیں کی وہ لپٹ جو دل تک اتری تھی، اب چھٹنے لگی تھی لیکن ایک اور محاذ کھلا تھا طنز کا، فن کا، اور وہ بھی اُس سرزمین سے جس نے دوستی صرف ہتھیاروں سے نہیں، دل سے نبھائی تھی۔
بیجنگ کے چائنا میڈیا گروپ نے ایک گانا نشر کیا۔ پہلی بار تو میں حیرت سے فقط دیکھتی رہ گئی۔ اسکرین پر چینی نوجوان تھے رنگ برنگی پگڑیاں، سر پر کھلونہ طیارے، لباس میں مزاح کا طنز، اور رقص میں وہ چال، جس نے دشمن کو جگت میں بھی شکست دے دیا۔
گانے کے بول کچھ یوں تھے۔
”Ek taara, do missiles — sab fake news ka khel,
Pakistan toh shaheen hai — tum ho sirf rail “
یہ نغمہ صرف ایک فنکارانہ ردِعمل نہ تھا۔ یہ چین کا نغمہ تھا۔ جب دوستی نے دشمنی پر رقص کیا ۔ یہ تاریخ کا نیا باب تھا جہاں دوستی نے جنگ کے زخموں پر مرہم رکھا اور دشمن کی جھوٹی بڑکوں پر ہنسی کا نشتر چلا دیا۔
چین کے سوشل میڈیا پر یہ گانا ٹرینڈ کر گیا #ToyPlaneDance، #PakChinaAnthem #چاہینہ راکڈ فرانس شاکڈ اور سب سے زیادہ دل کو چھو لینے والا #ThankYouPakistan
علی ظفر اور چینی گلوکارہ ژیانگ منقی نے پاک چین دوستی اور سفارتی تعلقات کے حوالے سے جو گیت گایا تھا وہ ایک بار پھر چین میں ٹرینڈ بن گیا۔ “You Have Stolen My Heart “
چین میں پاکستان کی فتح کا جشن نہایت گرمجوشی اور محبت سے منایا گیا ، جس نے دونوں ممالک کے درمیان “آہنی دوستی” کو مزید مضبوط کیا۔
چینی شہریوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ویبو اور ژیاؤہونگشو پر پاکستان کی حمایت میں پوسٹس اور ویڈیوز شیئر کیں۔ ان پوسٹس میں پاکستانی پرچموں، “پاکستان زندہ باد” کے نعروں، اور پاک چین دوستی کے جذباتی اظہار شامل تھے۔ کئی چینی صارفین نے پاکستانی فوج کی بہادری کو سراہتے ہوئے “پاک فوج زندہ باد” جیسے ہیش ٹیگز استعمال کیے۔
بیجنگ اور دیگر شہروں میں پاکستانی کمیونٹی اور چینی دوستوں نے مشترکہ تقریبات منعقد کیں، جن میں موم بتیاں روشن کی گئیں، قومی ترانے گائے گئے، اور دونوں ممالک کی دوستی کا جشن منایا گیا۔ ان تقریبات کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جن میں چینی شہریوں کو “پاک چین دوستی زندہ باد” کے نعرے لگاتے دیکھا جا سکتا ہے۔
چینی حکومت نے بھی پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا۔ چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے پاکستانی ہم منصب اسحاق ڈار سے گفتگو میں پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کا یقین دلایا۔ انہوں نے پاکستان کے تحمل اور ذمہ دارانہ رویے کی تعریف کی اور کہا کہ چین ہر حال میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔
مجھے بیجنگ کی ان گلیوں میں وہ بچے یاد آئے جو دو دن پہلے پاکستانی جھنڈے کے رنگوں سے بنے غبارے اُڑا رہے تھے۔ اب وہی بچے اُسی نغمے پر ناچ رہے تھے چینی زبان میں، لیکن اُن کے دل پاکستان کی محبت سے معمور تھے ۔
ایک لڑکا، جسے میں صرف “لیو” کے نام سے جانتی ہوں، اس کی پروفائل پر تحریر تھا
Pakistan Zindabad! Iron Brothers Forever!
میرے ہونٹ بے اختیار مسکرائے، اور آنکھوں میں ایک ان دیکھی نمی تیر گئی۔
بیجنگ کے مرکزی چوک پر پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ چینی نوجوانوں نے موم بتیاں روشن کیں۔ وہ لمحہ گویا روشنیوں میں لپٹا ایک خاموش پیغام تھا دوستی، وفاداری اور امن کا۔ چینی لڑکیاں پاکستانی قومی ترانہ گنگنا رہی تھیں، اور بینرز پر جلی حروف میں لکھا تھا ۔ پاک چین دوستی زندہ باد ۔
میرے دل نے پہلی بار محسوس کیا کہ دوستی اگر دلوں سے نکلے تو زبان اور نسل کی قید نہیں مانتی۔
بیجنگ کی گلیوں میں بہار آ چکی تھی درختوں کی شاخوں پر زندگی جھوم رہی تھی اور فضا میں چائے کی بھاپ میں ملی ہوئی امن کی مہک تیر رہی تھی۔ میں چائے کا کپ تھامے کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی دُور کہیں پاکستان کا جھنڈا ہوا سے باتیں کر رہا تھا اور ایک بچہ زور زور سے بول رہا تھا
”Bakesitan he wo bhai hai jo humesha madad karta hai “
میرے آنکھوں میں ایک مسکراہٹ سی پھیل گئی۔ میں نے تصور کیا اگر کراچی میں ابھی فجر کی اذان ہو رہی ہے تو شاید وہی اذان میرے دل کے اندربھی گونج رہی ہے۔
فاصلے اب فقط جغرافیہ تھے۔ محبت نے انہیں مٹا دیا تھا۔ کبھی سوچا نہ تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب جنگ جیتنے کے بعد میں گولہ بارود نہیں، بلکہ بینرز، موم بتیاں، اور پگڑی والے طنزیہ گیت یاد رکھوں گی۔ کبھی سوچا نہ تھا کہ بیجنگ کے کسی کوچے میں، کوئی اجنبی، صرف ایک جملہ کہہ کر مجھے اپنا بنا لے گا
ہمیں تمہاری جیت پر فخر ہے اور شاید یہی وہ لمحہ تھا جب چین اور
پاکستان کے بیچ کا فاصلہ ایک لفظ میں سمٹ گیا اور وہ لفظ تھا دوستی۔
اور اس لمحے مجھے یوں لگا جیسے تاریخ نے اپنے اوراق پر ایک نیا باب رقم کر دیا ہو۔ ایسا باب، جہاں گولیوں کی گونج کو دوستی کی نرمی نے خاموش کر دیا۔جہاں سرحدیں صرف نقشے پر تھیں، دلوں میں نہیں اور میں، ایک عام سی لڑکی، ہزاروں میل دور بیٹھی یہ سوچ رہی تھی کہ شاید اصل فتح توپ و تفنگ سے نہیں احساس، رشتے اور سچے جذبوں سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ صرف جنگ کا اختتام نہیں تھا بلکہ ایک پائیدار رشتہ، ایک گہری محبت کا نیا آغاز تھا۔ پاک چین دوستی، جو ہمیشہ سے ہمارے دلوں میں تھی،اب صرف نعرہ نہیں بلکہ ایک حقیقت بن چکی تھی جو وقت اور حالات کے امتحان میں مزید مضبوط ہوئی تھی۔
ارم زہرا
چین کی سڑ کوں پر پاکستان کی فتح کا جشن،،،،ارم زہرا
