چین میں مقیم ہونا صرف تعلیم یا رہائش کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ ایک نئی تہذیب اور منفرد ثقافت کا سامنا کرنے جیسا تجربہ ہے۔ یہاں رہتے ہوئے اکثر ہمیں ہسبینڈ کے ادارے کی جانب سے مختلف تفریحی یا ثقافتی دوروں پر لے جایا جاتا ہے، جو ایک طرف خوشگوار تفریح ہوتے ہیں تو دوسری طرف ہمیں چین کی روایات کو قریب سےسمجھنے کا موقع دیتے ہیں لیکن جب کبھی ان دوروں میں کسی قدیم مندر جیسے مقام کی سیر کا حصہ بننا پڑے، تو دل کے اندر ایک الجھتا ہوا احساس جنم لیتا ، عقیدے اور مشاہدے کے درمیان جھولتا ہوا۔ جاؤں یا نہ جاؤں ؟
ہر بار دل میں ایک عجیب سی الجھن اورکشمکش جنم لیتی ہے ۔ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایسے مقامات پر جانا اور وہاں کا ماحول سمجھنا ایک الگ ہی سوچ و فکر کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
یہ وہ جگہیں ہیں جہاں ہر سال ہزاروں زائرین آتے ہیں، جہاں دھواں، گھنٹیاں، اور پرانی دعاؤں کی گونج ہے۔ وہاں جانے سے پہلے ہم نے کئی سوال اپنے دل میں رکھے
کیا ہمیں جانا چاہیے؟ اگر جانا ہے، تو کیا ہمیں صرف خاموش رہنا چاہیے، یا اپنے مذہب کی طرف لوگوں کی توجہ دینی چاہیے؟ کیا یہ ایک موقع ہے کہ ہم اپنے ایمان کی مضبوطی کو پرکھیں؟ یا پھر یہ بہتر ہوگا کہ سادگی سے منع کر دیں؟ مگر چونکہ یہ دورے ثقافتی نوعیت کے ہوتے ہیں اور اکثر ان کا مقصد کوئی فلم یا ڈاکیومینٹری بنانا ہوتا ہے، اس لیے ایسی جگہوں پر جانا اور وہاں کے مناظر، تاریخ اور ماحول کو سمجھنا ہر بار ضروری بن جاتا ہے۔
میں نے سوچا، شاید ایمان کا مطلب یہی ہے کہ ہم دوسروں کے عقیدے کا احترام کریں اور اپنے ایمان کو بھی دل میں سلامتی کے ساتھ بسائیں۔ جس خدا کو میں مانتی ہوں، وہی سب کا خدا ہے، بس مختلف ناموں اور صورتوں میں۔ یہ بات میرے دل کو ایک سکون دیتی ہے کہ شاید یہ مندر میرے ایمان کے خلاف نہیں، بلکہ اس کا
ایک مختلف اظہار ہے۔
چین میں قیام کا ہر دن ایک نئی کہانی، ایک نیا منظر، اور ایک نیا تجربہ لے کر آتا ہے۔یہاں رہتے ہوئے کئی بار ایسے دوروں میں مختلف مندروں تک جانے کا موقع ملا، ہر ایک اپنی تاریخ اور ماحول میں منفرد تھا، لیکن آج میں جس سفر کی داستان لکھنے جا رہی ہوں وہ چنگدو کے نواح میں واقع ایک قدیم بدھ مندر کی ہے۔ ایک ایسا مقام جو اپنے سکوت، تاریخ اور روحانی فضا کے باعث چین میں ایک خاص مقدس مقام کی حثیت رکھتا ہے
صبح کی ہلکی دھند ابھی فضا میں باقی تھی جب ہم یونیورسٹی کی بس میں سوار ہوئے۔ کھڑکی سے باہر کا منظر جیسے کسی چینی مصور کی پینٹنگ ہو۔ اونچے پہاڑ دھوئیں کی طرح اُڑتے بادلوں میں چھپے ہوئے، اور کہیں کہیں چیری بلاسم کے درخت اپنی نرم گلابی پنکھڑیوں کے ساتھ خاموشی سے موسمِ بہار کی آمد کی خبر دے رہے تھے۔ بس میں ہلکی ہلکی گفتگو اور کیمروں کی کلک کلک تھی، مگر میرے دل میں ایک ہلکی سی خلش بھی تھی کیونکہ ہمارا سفر ایک ایسے مقام کی طرف تھا جو مذہبی طور پر میرے لیے اجنبی اور کسی حد تک حساس تھا۔
چین میں مندروں کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے، اور یہ صرف مذہبی عبادت گاہیں نہیں بلکہ فن، فلسفہ، سیاست، اور معاشرتی زندگی کا مرکز بھی رہی ہیں۔ چینی مندروں کا تعلق تین بڑے مذاہب یا روحانی نظریات سے رہا ہے ۔ جن میں بدھ مت ، معروف مندر ، تاؤمت مندر شامل ہیں
چینی مندروں میں جانا صرف مذہبی یا سیاحتی عمل نہیں بلکہ یہ چین کی تہذیب، آرٹ، تاریخ، اور روحانیت سے جڑنے کا ایک راستہ ہے۔
Zhaojue Temple
جو چنگدو کے نواح میں واقع ہے اور اس کا آغاز ہان خاندان کے دور سے منسوب کیا جاتا ہے ۔
یہ زمانہ (206 ق م – 220 عیسوی) نہ صرف چین کی سلطنتی طاقت کا سنہرا باب تھا، بلکہ فکری، روحانی اور ثقافتی بیداری کا آغاز بھی یہی تھا۔ اس عہد میں پہلی بار بدھ مت شاہراہِ ریشم کے ذریعے چین پہنچا، اور شہنشاہوں نے اس نئے عقیدے کو اپنانے والوں کو نہ صرف آزادی دی بلکہ بعض اوقات سرپرستی بھی فراہم کی۔
بدھ راہب ہندوستان سے آئے، اور ان کے ساتھ علم، نسخے، مجسمے، اور مراقبے کے فلسفے بھی آئے۔ ہان دربار میں ان کی بات سنی گئی، ترجمے ہوئے، اور پھر کچھ شہروں میں ابتدائی بدھ مندروں کی بنیاد رکھی گئی۔
یہی وہ وقت تھا جب بانس کی کھپچیوں پر مقدس صحیفے لکھے جاتے تھے، اور چٹانوں میں مجسمے تراشے جاتے تھے یعنی
جب انسان لکڑی کے قلم اور بانس کی کھپچیوں پر الفاظ رقم کرتا تھا اور سوچنے کے لیے وقت، تنہائی اور سکون ہر شخص کے پاس موجود ہوتا تھا۔ جیسے ہی ہم مندر کے دروازے پر پہنچے، ایک گہری خاموشی نے ہمارا استقبال کیا۔ بلند و بالا دروازے، جن پر صدیوں پرانی نقش و نگار ثبت تھے، ایسے لگتے تھے جیسے وقت وہاں تھم سا گیا ہو۔
مندر کے احاطے میں داخل ہوتے ہی ہر شے خاموش، پُراسرار اور اپنی جگہ پر جامد محسوس ہوئی۔ سرخ رنگ کی دیواروں کے درمیان گونجتی ہوا، جلتی اگر بتیوں کی مہک، اور زرد رنگ کے چغے پہنے ہوئے راہب یہ سب کچھ کسی فلم کا منظر لگتا تھا۔ اور چونکہ اس دورے کا مقصد بھی ایک ڈاکیومینٹری بنانا تھا، اس لیے نہ صرف دیکھنا بلکہ محسوس کرنا بھی ضروری تھا۔
میں نے کیمرہ اٹھایا، اور ایک لمحے کے لیے خود کو اس داستان کا حصہ محسوس کیا جو صدیوں سے ان در و دیوار میں قید ہے۔ مذہبی اختلافات اپنی جگہ، مگر ثقافت، تاریخ اور انسان کی جستجو کا احترام کرنا بھی اس سفر کا اہم سبق تھا۔
یہ ایک ایسا لمحہ تھا جہاں عقیدے اور مشاہدے کا سنگم ہوا۔ ایک ایسی جگہ جہاں میں ایک سیکھنے والے کی حیثیت سے کھڑی تھی، خاموش، متجسس، اور اندر ہی اندر بہت کچھ سمیٹتی ہوئی۔
مندر کے دروازے پر پہنچ کر میری سانس رک سی گئی۔ ہزار سال پرانی لکڑی کی کھڑکیاں، پھولوں کی خوشبو، اور ہوا میں گھلتی ہوئی خاموشی یہ سب کچھ ایک دوسرے میں گھل مل کر ایک ایسی دنیا بناتے تھے جو الفاظ سے باہر تھی۔ راہوں پر دھوئیں کے بادل، دیواروں پر کندہ پتھر کے نقش و نگار، اور ہر گوشے میں ایک داستان چھپی ہوئی تھی۔
یہ وہی جگہیں ہیں جہاں راہب صدیاں گزارتے ہیں، دعا کرتے ہیں، اور خود کو دنیا کی عارضی چمک دھمک سے دور رکھتے ہیں۔ وہ اپنے اندر کی دنیا کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ ایک ایسی تلاش جو شاید مذہب سے بھی بڑھ کر انسان کی روح کی گہرائیوں میں اترنے کا عمل ہے۔
میں نے ایک کونے میں بیٹھ کر گرد و پیش کو غور سے دیکھا۔ لوگ اپنی دعائیں مانگ رہے تھے، گھنٹی بجا رہے تھے، اور موم بتی جلائی جا رہی تھی۔ ہر ایک کا چہرہ خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا، مگر ان آنکھوں میں گہرائی تھی، سکون تھا، اور ایک ربانی پیار کی جھلک تھی۔
میری نظر ایک کنول کے پھول پر پڑی جو پانی کے حوض میں کھلا ہوا تھا۔ اس پھول کی خوبصورتی میں ایک پاکیزگی تھی جو میرے دل کو چھو گئی۔ میں نے سوچا، شاید یہی وہ خوبصورتی ہے جو ہر مذہب کا پیغام دیتا ہے ایک ایسی روشنی جو دل کے اندھیروں کو روشن کر دے۔
اس مندر کی خاموشی مجھے بہت کچھ کہہ رہی تھی
میں نے اپنے مسلمان ہونے پر فخر محسوس کیا، اور ساتھ ہی ان لوگوں کے عقیدے کی عزت بھی کی جن کی عبادت کا طریقہ مختلف تھا۔ یہ ایک خوبصورت توازن تھا جہاں دل میں ایمان کی گرمی ہو اور دماغ میں دوسروں کے عقیدے کی عزت۔
مندر کے دروازے پر دو بوڑھے راہب بیٹھے تھے۔ ان کے چہروں پر عمر کی تہیں یوں جمی تھیں جیسے کسی کھنڈر پر وقت نے اپنا دستِ ہنر رکھا ہو۔ ان کے چہروں پر خوف نہیں تھا، نہ کوئی جلدی، نہ کوئی طلب صرف ایک ٹھہری ہوئی روشنی، جیسے کوئی ایسی بات وہ جانتے ہوں جو ہم سب بھول گئے ہیں۔ میں نے انہیں نی ہاؤ کہا یعنی سلام کیا۔ ان کی آنکھوں میں گہرا سکون تھا
ایک مسلمان لڑکی ہونے کے ناتے، میرا دل ان مندروں کے دیوی دیوتاؤں کے مجسموں کو دیکھ کر تذبذب میں تھا، لیکن ساتھ ہی میرے ایمان کی بنیاد اس قدر گہری ہو چکی تھی کہ اب مجھے فرق دیکھنے میں دقت نہیں ہوتی تھی مجھے ہر چہرے میں خدا کی تلاش نظر آتی تھی، نہ کہ اس کا انکار۔
میں نے خود کلامی کی جو دل ہر رنگ میں رب کو پہچانتا ہے، وہ کبھی دھوکہ نہیں کھاتا اور شاید یہ وہی لمحہ تھا جب میں نے سوچا کہ ایمان صرف مسجد کی اذان میں نہیں، وہ اس خاموشی میں بھی ہے جو ایک راہب اپنے تکیے پر چپ چاپ چھوڑ دیتا ہے۔ میں نے شکر ادا کیا کہ میں ایک مسلمان ہوں، پاکستانی ہوں، اور اس خامشی کو سننے کے لیے مجھے یہاں، اس غیرملکی، غیرمسلم سرزمین پر بھیجا گیا کیونکہ بعض اوقات اللہ اپنے بندے کو ہدایت کے لیے کسی بہت دور جگہ بھی بھیجتا ہے، تاکہ وہ اپنے دل کی گہرائی میں وہ روشنی دیکھ سکے جو اپنے شہر میں دھواں بن گئی تھی۔
مندر کے احاطے میں داخل ہوتے ہی سکون کی ایک دبیز چادر نے ہمیں گھیر لیا۔ سرخ دیواریں، زرد چغے میں ملبوس راہب، ہوا میں معلق اگر بتیوں کی خوشبو سب کچھ جیسے وقت کو تھامے کھڑا تھا۔ کچھ طلباء راہبوں سے گفتگو میں مصروف تھے، کچھ عقیدت سے سر جھکائے مجسموں کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔
اسی لمحے ایک مقامی ساتھی نے مجھ سے پوچھ لیا، “کیا تم بھی ان مجسموں کے آگے جھکتی ہو؟”
میں مسکرائی اور نرمی سے کہا
تم بتوں کے سامنے جھکتے ہو، اور ہم اپنے رب کا سجدہ کرتے ہیں لیکن یہ سجدہ کسی مورت یا شبیہ کے لیے نہیں ہوتا۔ ہمارا سجدہ اُس رب کے لیے ہے جو بے صورت ہے، مگر ہر شے پر حاوی ہے؛ جو نظر نہیں آتا، مگر ہر دل کی دھڑکن میں موجود ہے۔ اللہ کو نہ کوئی شکل دی جا سکتی ہے، نہ ہی کوئی حد—مگر دل اس کی موجودگی کو ہر سانس میں، ہر لمحے محسوس کرتا ہے۔ یہی سجدہ ہے، سراسر تسلیم و رضا، خالص اپنے خالق کے لیے۔”
میری یہ بات سن کر وہ خاموش ہو گیا۔ شاید حیران تھا، یا سوچ میں گم۔ مگر میں جانتی تھی، کہ میں نے اپنے عقیدے کی روشنی سے اُس لمحے کے سکوت میں ایک چراغ سا جلا دیا تھا۔ یہی وہ لمحے ہوتے ہیں جب ثقافتوں کے بیچ فرق نہیں، فہم جنم لیتا ہے۔
مندر کے صحن میں ایسی خاموشی تھی جس میں پتوں کے گرنے کی آواز بھی سنائی دیتی تھی، جیسے کائنات کسی اہم مکالمے سے پہلے توقف میں ہو۔
پھر میں نے رک کر کہا، “ہمارے خدا کا نام اللہ ہے۔ وہ ایک ہی ہے، سب کا خالق، سب کا مالک۔” وہ لمحہ میرے لیے وضاحت کا نہیں، بلکہ تصدیق کا تھا۔ میرے ایمان کی تصدیق کہ میں جہاں بھی ہوں، اللہ میرے ساتھ ہے، اور میرا عقیدہ کسی دیوار سے نہیں بندھا۔ میرا دل اس زمین پر بھی اپنے رب کو پکار سکتا ہے، جہاں لوگ ہزاروں سالوں سے اپنے معبودوں کو پوجتے آئے ہیں۔ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا مگر مجھے اس کے چہرے پر ایک گہری سوچ دستک دیتی نظر آئ ۔
یہ سچ ہے کہ یہاں کے مندروں میں گوتم بدھ کے مجسمے ہیں، جن کے سامنے دیے جلتے ہیں، اگر بتیاں سلگتی ہیں، اور زائرین جھکتے ہیں لیکن میں نے ان چہروں پر سجدہ نہیں دیکھا، صرف تلاش دیکھی ایک ایسی تلاش جو انسان کو اپنے سے ماورا کسی شے کی طرف لے جاتی ہے۔
میں نے مندر کے ایک کونے میں بیٹھے بوڑھے راہب کو دیکھا۔ وہ خاموشی سے آنکھیں بند کیے مراقبے میں تھا۔ مجھے لگا جیسے وہ اپنے ہی سوالوں سے بات کر رہا ہو۔
میں دل ہی دل میں مسکرائی اور سوچا ہم سب تلاش میں ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی اسے ‘نروان’ کہتا ہے، کوئی ‘وصال’، کوئی ‘نور’، اور کوئی ‘سکونِ قلب ۔
اور میں سوچ رہی تھی ۔ جب انسان اپنے خالق کی طرف ایک قدم بڑھاتا ہے، تو مذاہب کی دیواریں نہیں بلکہ دروازے بن جاتے ہیں اور ہر دروازے کے پیچھے وہی روشنی ہے، جو ایک سجدے میں ملتی ہے۔
مندر سے نکلتے وقت میں نے چپکے سے اپنے رب کو دل ہی دل میں یاد کیا۔ میری زبان خاموش تھی، مگر دل ایک اذان بن چکا تھا۔
اسی لمحے مجھے محسوس ہوا خدا واقعی ایک ہی ہے، اور وہ وہاں بھی ہے جہاں کوئ اُسے مانتا نہیں، لیکن وہ پھر بھی ہمیں سن رہا ہوتا ہے۔
میں نے آسمان کی طرف دیکھا، اور دل میں ایک شکر کے آنسو گرے۔
شکر اس بات کا کہ میرا عقیدہ مجھے بند نہیں کرتا، بلکہ وسعت دیتا ہے۔ شکر اس بات کا کہ میں کسی بھی جگہ جا کر، کسی بھی مذہب کو دیکھ کر، یہ کہنے کے قابل ہوں کہ میرا اللہ سچا ہے، اور میرا ایمان زندہ ہے۔
مندر کے اندر ایک چھوٹا سا باغ تھا ۔چاروں طرف بانس کے درخت، اور بیچ میں ایک پتھر کا حوض، جس میں کنول کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ کنول جسے بدھ مت میں پاکیزگی کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔کنول کی لطافت اور استقامت مجھے ہمیشہ سے متاثر کرتی رہی ہے۔ کیچڑ سے نکل کر کھلنے والا پھول، جیسے انسان کا دل ہو جو دنیا کی غلاظتوں سے بلند ہو کر کسی ربانی روشنی میں کھلتا ہے۔
میں ایک ستون کے سائے تلے بیٹھی تھی، ہاتھ میں نوٹ بک، مگر قلم رکا ہوا تھا۔ ایسے وقت میں الفاظ کم پڑ جاتے ہیں، اور دل خود کو خاموشی کی گود میں رکھ کر سنتا ہے۔ اتنے میں، ایک دبلی پتلی سی عورت آہستہ آہستہ چلتی میرے قریب آ کر رک گئی۔ سفید لباس، چپ چاپ چال، اور آنکھوں میں ایسی چمک جیسے برسوں سے روشنی کو پیا ہو۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا پیالہ تھا جس میں گرم چائے بھاپ بن کر اٹھ رہی تھی۔
وہ خاموشی سے بیٹھ گئی۔ چند لمحے گزرے، پھر اس نے میرے چہرے کی طرف دیکھا اور آہستہ سے کہا،تم بہت کچھ سوچ رہی ہو۔میں ہنس پڑی۔سوچ تو رہی ہوں، مگر شاید سمجھ کم رہی ہوں۔اس نے چائے کاپیالہ اپنی چینی روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے میری طرف بڑھایا۔”
تم مسلمان ہو؟”اس نے پوچھا۔ ہاں میں نے جواب دیا
اور تمھارا خدا؟
ایک، یکتا، بغیر کسی شکل کے، جو ہر جگہ موجود۔ میں نے پرسکون اندازمیں کہا
وہ مسکرائی، اس نے کہا،
ہمارے بدھ کی بھی کوئی حتمی شکل نہیں، صرف سکون ہے، آگہی ہے، مہربانی ہے۔ ہم سب یہاں کسی روشنی کو تلاش کرتے ہیں اور اس تلاش میں عمریں بیت جاتی ہیں ۔
میں نے اسے بتایا کہ میں پاکستان سے ہوں، کہ میرے گھر میں جب اذان کی آواز آتی ہے، تو میں خاموشی سر جھکا لیتی ہوں کہ ہم اپنے رب کو ہر سانس میں پکارتے ہیں، ہر پریشانی میں یاد کرتے ہیں، اور ہر خوشی میں اس کا شکر ادا کرتے ہیں ۔ وہ بہت غور سے سن رہی تھی۔
تمہارا شکر، ہمارے مراقبے جیسا ہے۔اس نے برجستہ کہا
میں نے اس لمحے میں کچھ سیکھا کہ روحانی تجربہ کبھی کسی مذہب میں قید نہیں ہوتا، وہ ہر اس دل میں داخل ہوتا ہے جو صداقت کے لیے کھلا ہو۔
جب وہ جانے لگی تو رک کر بولی،
تم یہاں بار بار آنا، لیکن باہر کی خاموشی سے زیادہ اندر کی آواز سننا۔
میں دیر تک وہاں بیٹھی رہی۔ وہ چائے کا پیالہ خالی ہو چکا تھا، مگر میری روح ایک نئے ذائقے سے لبریز تھی۔ شاید یہ ذائقہ دعا کا تھا ایسی دعا جو بغیر الفاظ کے، بغیر آداب کے، صرف احساس کی زبان میں ہوتی ہے۔
انسان کا دل اگر سچا ہو، تو ہر عبادت گاہ مسجد بن جاتی ہے اور ہر خاموشی اذان۔ میں اپنی بے ترتیب سوچوں کو یکجا کیا اور الفاظ ترتیب دیئے ۔آج میں نے خاموشی سے سیکھا، اور دعا کی زبان سمجھی جو نہ عربی تھی، نہ چینی، بلکہ دل کی تھی۔
واپسی کی راہ پر جب مندر کی چھتیں پیچھے رہ گئیں اور چنگدو کی بل کھاتی سڑکیں سامنے آنے لگیں یونیورسٹی کی بس میں بیٹھے سبھی طلبہ ہنس بول رہے تھے، کسی نے چھوٹے چھوٹے تحفے خریدے، کسی نے مجسموں کے ساتھ تصویریں بنوائیں اور کسی نے ہاتھ جوڑ کر ویڈیوز بنائیں۔ میرے پاس کوئی چیز نہ تھی سوائے اس ایک نوٹ بک کے، جس میں اب خاموشی کے ساتھ ایک مکمل دعا بند تھی۔
یونیورسٹی میں رہتے ہوئے میں نے کئی بار اپنے مذہب پر تنقید سنی تھی، اور کئی بار خود بھی دوسروں کے عقائد کو ناسمجھی سے دیکھا تھا۔ مگر آج، اس مندر کی خاموشی، ایک راہبہ کی سادہ باتیں، اور کنول کے پھولوں کی نرم خوشبو نے مجھے یہ سکھایا کہ اصل علم وہ نہیں جو کتابوں میں لکھا ہو، بلکہ وہ ہے جو انسان کے دل میں نرمی اور آنکھوں میں روشنی بھر دے۔
میرا مسلمان ہونا میری شناخت ہے، مگر میری انسانیت میری اصل پہچان ہے۔ میں فخر سے کہتی ہوں کہ میں ایک خدا کو ماننے والی ہوں ۔جو مجھے چین کے ایک مندر میں بھی سن لیتا ہے، اور پاکستان کے کسی گاؤں کی مسجد میں بھی اور یہی ایمان مجھے دوسروں کو عزت دینے کا سبق دیتا ہے کیونکہ سچ یہ ہے کہ ہم سب، کسی نہ کسی “وان نیان سی” کے مسافر ہیں کچھ اسے مندر کہتے ہیں، کچھ مسجد، اور کچھ محض ایک لمحہ۔
اس سفر کے بعد جب میں اپنی یونیورسٹی کی لائبریری واپس پہنچی، تو پہلا کام یہی کیا کہ اس مندر کی تاریخ پر ایک تحقیقی مضمون لکھا۔ مگر میرا اصل مضمون وہی تھا جو میرے دل پر لکھا جا چکا تھا بغیر کسی زبان کے، بغیر کسی عنوان کے، صرف ایک احساس کے ساتھ۔
کہتے ہیں سفر وہی سچا ہوتا ہے جو واپسی پر تمھیں وہ نہ رہنے دے جو تم پہلے تھے اور میں اب وہ نہ رہی تھی۔ میں اب خاموشی کو سننے لگی تھی، اختلاف کو سمجھنے لگی تھی، اور دعاؤں کو صرف عربی الفاظ میں نہیں، بلکہ ہر اس دل کی دھڑکن میں پہچاننے لگی تھی جو اپنے رب سے راستہ مانگ رہا ہواور تب مجھے احساس ہوا کہ رب تک پہنچنے کے لیے راستے مختلف ہو سکتے ہیں، مگر طلب کی سچائی ہی وہ واحد پُل ہے جو سب کو جوڑ دیتا ہے اور بس، وہی لمحہ ہوتا ہے جب انسان کا دل زمین سے اٹھتا ہے اور آسمان سے جا ملتا ہے۔
میں جہاں بھی ہوں اللہ میرے ساتھ ہے،ارم زہرا ۔چین
