جون کی شام جیسے کسی پرانی نظم کی آخری سطر ہو تھوڑی تھکی ہوئی، ذرا نم آلود، اور کچھ کچھ خوابیدہ۔ میں شینزن کے ایک گلی نما بازار میں کھڑی تھی، جہاں نیون روشنیوں کا جال بُنا گیا تھا اور ہوا میں فرائیڈ ٹوفو، مینگو آئسکریم اور عطرِ لیچی کی مہک معلق تھی۔ شہر نے جیسے کپڑے بدل لیے ہوں ۔ دن کی تیز روشنیوں والے کاروباری لباس کی جگہ ایک ڈھیلا، رنگین کرتا پہن لیا ہو جس پر چھوٹے چھوٹے جگنو کڑھائی کی صورت چمک رہے ہوں۔
یہ “618 شاپنگ فیسٹیول” کا وقت تھا۔چین کی سال کی سب سے بڑی آن لائن سیل۔ مگر میرے لیے بازاروں کی اصل دلکشی نہ JD.com کی موبائل ایپ میں تھی، نہ Alibaba کی ڈیجیٹل ویب پر ۔ میرے دل کی دنیا تو انہی چھوٹے نائٹ مارکیٹس میں آباد تھی، جو ہر شام ایک نئی کہانی کی طرح کھلتے، اور رات گئے تک آنکھوں میں رنگ بھر کے بند ہو جاتے۔
جون کی گرمی میں جب ہوا سست ہو جاتی ہے، چین کے ڈیجیٹل آسمان پر ایک تہوار اترتا ہے 618 یہ عام میلے جیسا نہیں، جہاں پتنگیں اڑتی ہوں یا ڈھول بجتے ہوں ۔ یہ تو کلاؤڈ کی دنیا میں ہونے والا وہ کاروباری جشن ہے، جہاں ہر کلک میں خواہش، ہر آئٹم میں رعایت، اور ہر کارٹ میں ایک چھوٹا سا خواب ہوتا ہے۔
یہ فیسٹیول دراصل آن لائن بازاروں کی عید ہے JD.com، Taobao، Tmall جیسے دیو قامت پلیٹ فارم صارفین کو وہ سب کچھ دیتے ہیں جو وہ برس بھر صرف “Wishlist” میں رکھتے ہیں۔
یہ سیل نہیں، ایک تجربہ ہے ۔ جہاں قیمتیں جھکتی ہیں اور دل خریداری کے رنگین کینوس پر اپنی پسند کا انتخاب کرتا ہے۔
618 نہ دکان ہے، نہ بازار ، یہ ایک ڈیجیٹل دریا ہے، جس میں چین کے کروڑوں کارخانے، دکاندار، اور خریدار سب بہتے ہیں اور ہر سال جون میں، یہ دریا جوش میں آتا ہے ۔سودوں کا، سچائی کا، اور خوابوں کا۔
اس بازار میں میرا پہلا قدم ایک کتابوں کی دکان کی جانب تھا۔ میں نے پوچھا “یہ 618 کا مطلب کیا ہے؟ کوئی میلہ ہے؟ کوئی تہوار؟”
سامنے بیٹھے ایک نوجوان نے ہنستے ہوئے چائے کا کپ رکھا اور کہا “نہیں، یہ تو JD.com کی سالگرہ ہے۔ جون کی اٹھارہ تاریخ۔”
اور تب مجھے احساس ہوا کہ چین کی ڈیجیٹل دنیا میں تاریخیں بھی تہوار بن جاتی ہیں۔618 صرف ایک نمبر نہیں، ایک یاد ہے، ایک ابتدا ہے۔18 جون 1998 کو جب JD.com نے اپنی بنیاد رکھی تھی، شاید کسی نے نہ سوچا ہو کہ ایک دن یہی تاریخ چین کے کروڑوں خریداروں کے لیے سال کی سب سے بڑی امید بن جائے گی۔
آج 618، صرف JD کا جشن نہیں،بلکہ پورے چین کا وہ ڈیجیٹل میلہ ہے، جہاں ہر کلک میں تجارت، ہر رعایت میں خواب اور ہر خرید میں ایک چھوٹی سی خوشی بندھی ہوتی ہے
کتابوں کے شو روم سے نکلتے ہی دائیں طرف ایک خاتون بانس کی پنکھیاں بیچ رہی تھیں۔ ہر پنکھے پر ہاتھ سے پینٹ کی گئی تصویر تھی کہیں غروب ہوتا سورج، کہیں پہاڑوں کے بیچ بہتی ندی۔ وہ خاتون خود بھی کسی پرانی تصویر کی طرح لگتی تھی ۔ دھیمے لباس میں، چہرے پر خاموش مسکراہٹ، جیسے ہر پنکھا بیچتے وقت ایک پرانی یاد کسی کے ہاتھ رکھ دیتی ہو۔
تھوڑی دور ایک نوجوان لڑکا، جس کے بال نیلے رنگ میں رنگے تھے، موبائل فون کے کورز بیچ رہا تھا۔ اس کی دکان کے پیچھے ایک بڑا سا بورڈ لگا تھا: “Buy 2, Get 1 Smile Free!” اور سچ مانیے، وہ واقعی ہر خریداری پر ایک ہنسی ضرور دیتا تھا۔ شاید یہی چھوٹے بازاروں کی اصل دولت تھی مسکراہٹیں۔
بائیں طرف جب مڑی تو جیسے کسی خوشبو کی گلی میں آ نکلی۔ یہاں ایک کُھلے کاؤنٹر پر ایک بوڑھا آدمی جڑی بوٹیوں سے بنے صابن بیچ رہا تھا۔ وہ ہر صابن کے ساتھ اس کی “کہانی” بھی سناتا
“یہ والا لیونڈر کا ہے ۔دل کی اداسی کے لیے اور یہ چائے کے پتے والا تھکے قدموں کے لیے۔”
میں نے ایک ہلکے سبز رنگ کا صابن لیا، جس کی خوشبو میں جیسے نانی کے صحن کی صبحیں لپٹی ہوئی تھیں۔ بوڑھے آدمی نے جذباتی انداز میں کہا۔
“یہ تمہارے خوابوں کو نرم کر دے گا، بیٹی۔”
بازار میں کئی اسٹال ایسے بھی تھے جو 618 فیسٹیول کی چمک لیے ہوئے تھے۔ ایک نوجوان جوڑا “فلیش سیل” چلا رہا تھا۔ ایک لمحہ، ایک ڈیل۔ گاہک فون نکال کر QR کوڈ اسکین کرتا اور اگلے ہی لمحے ای-والٹ سے ادائیگی، ایک چھوٹا سا پرنٹر رسید اگلتا، اور پھر ہاتھوں میں ایک نیا الیکٹرانک پنکھا، یا ایل ای ڈی لائٹ، یا کمر سیدھی کرنے والا آلہ۔
ان تمام خریداروں میں ایک چیز مشترک تھی ۔آنکھوں کی وہ چمک جو صرف “ڈسکاؤنٹ میں خوشی” سے جنم لیتی ہے۔
آخر میں، میں بازار کی آخری گلی میں جا نکلی۔ وہاں زمین پر کپڑے بچھا کر کھلونے بیچے جا رہے تھے۔ ایک چھوٹی لڑکی اپنی ماں کے ساتھ رنگ بدلنے والے بالز دیکھ رہی تھی۔ ایک لڑکا، جس نے خود بنایا ہوا روبوٹ بیچنے کی کوشش کی، میرے پاس آیا اور بولا “یہ ناچتا بھی ہے، دیکھیں؟”اور روبوٹ واقعی ناچا، ایک بارگین قیمت پر صرف دس یوان۔
میں نے ایک مینگو قلفی لی، اور کرسی پر بیٹھ کر اس ذائقے میں اپنے بچپن کی گرمیوں کی خوشبو ڈھونڈی۔ قلفی کا رس، انگلیوں سے ہوتا ہوا کلائی تک بہا جیسے کوئی پرانا خواب بہہ جائے۔اوپر آسمان پر ہلکی دھند تھی، اور کہیں دور سے جگنوؤں کی مدھم روشنی آ رہی تھی۔
جب میں بازار سے نکلی، تو ہاتھ میں ایک صابن، ایک فینسی پنکھا، اور ایک جگنو سا لمحہ تھا مگر دل میں ایک مکمل تصویر ان چہروں کی، ان رنگوں کی، ان چھوٹے جملوں کی جنہوں نے ایک بازار کو میری روح کی گلی بنا دیا تھا۔
“بازار تو ہر شہر میں ہوتے ہیں، مگر کچھ بازار دل کے اندر بس جاتے ہیں جیسے کسی پرانی کتاب کے صفحے میں رکھے پھول کی خوشبو، جو برسوں بعد بھی مہک دیتی ہے۔
اگلی صبح، میں نے قلفی کے رس سے بنے یادوں کے دائرے کو پیچھے چھوڑا، اور بس میں سوار ہو کر چین کے اُس بازار کی طرف روانہ ہوئی، جس کا نام دنیا بھر کے چھوٹے تاجروں کے لیے خواب جیسا ہے علی بابا۔
مگر یہ کوئی غار نہیں، جہاں “کھل جا سم سم” کہا جائے اور خزانے ظاہر ہو جائیں یہ تو ایک ڈیجیٹل سلطنت ہے، جہاں تجارتی ذہانت، آنکھوں کا مشاہدہ، اور دل کی سچائی چاہیے۔
شینزن کی نرم دھوپ میری کھڑکی سے آ کر گالوں کو چوم رہی تھی اور میں سوچ رہی تھی “کیا پاکستان میں بیٹھا کوئی نوجوان، ایک لیپ ٹاپ، تھوڑی سی نیت اور ذرا سی سمجھ بوجھ سے چین سے تجارت کر سکتا ہے؟”
علی بابا صرف ایک ویب سائٹ نہیں، یہ چین کے کروڑوں کارخانوں کی دکان ہے، جہاں ایک ایک پیچ، پرزہ، بوتل،کنگھی، چائے کی پتی، اور کپڑے کی ہر قسم آپ کے کلک کی منتظر ہے۔
ایک بوڑھے چینی تاجر نے کہا تھا
“Alibaba is not a store, it is a gateway to a thousand villages.”
اور وہ سچ کہتا تھا۔ ہر پروڈکٹ کے پیچھے ایک خاندان، ایک شہر، ایک قصبہ ہوتا ہے اور ہر خریدار کے پیچھے ایک خواب۔
جب میں Yiwu International Trade City پہنچی ۔ جسے اکثر “دنیا کا سب سے بڑا ہول سیل بازار” کہا جاتا ہے تو ایک لمحے کو دل ڈر گیا۔ پانچ منزلیں، ہزاروں دکانیں، لاکھوں اشیاء اور ہر ایک اپنی آواز میں پکارتی تھی “آئیے، چھونے سے قیمت نہیں بڑھتی!”
“پاکستان؟ جی جی، ہم شپنگ کرتے ہیں!”
یہاں آپ کو ہر وہ چیز ملے گی جو ایک دکان دار، درآمد کنندہ یا ایمازون/درزن پر کام کرنے والا چاہتا ہے زیورات ، کھلونے ، کچن کا سامان ، سٹیچنری ، ہینڈ بیگز ، رمضان/عید ڈیکوریشن
مجھے ایک پُرانی طرز کے اسٹال نے بہت متاثر کیا، جہاں ایک بزرگ خاتون خود کڑھائی کی گئی ربن بیچ رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا
“آپ روز اتنا سفر کرتی ہیں؟” وہ ہنس دی
“ہاں، اور ہر ربن ایک کہانی ہے، جو شاید تم پاکستان لے جاؤ گی۔”
اگر فیشن کی دنیا میں کاروبار ہے، تو Guangzhou کا سفر فرض ہے۔
یہاں کے ہول سیل بازار Baima Clothing Market، Shahe Wholesale City اور Zhanxi Garment Market میں داخل ہونا ایسا ہے جیسے ایک متحرک قوس و قزح میں قدم رکھنا۔ ہر دکان پر کپڑے جیسے خوابوں کی طرح جھولتے ہیں۔ ریشم، لینن، کاٹن، جینز ، ہر سیزن، ہر اسٹائل۔
میں ایک دکان میں داخل ہوئی تو دکان دار نے پوچھا۔
“ری سیل کریں گی یا بوتیک چلانا چاہتی ہیں؟”
اور مجھے اندازہ ہوا کہ چین میں صرف خریدار نہیں پوچھے جاتے، خوابوں کی نیت پوچھی جاتی ہے۔
اگر کوئی پاکستانی چین سے درآمد کرنا چاہتا ہے تو درج ذیل راستے سب سے موثر ہیں
1. علی بابا (Alibaba.com) سے آرڈر دینا
Minimum Order Quantity (MOQ) سمجھیں Supplier کی Trade Assurance چیک کریں۔
Sample منگوائیں، پھر Bulk Order دیں۔
2. Yiwu / Guangzhou سے براہِ راست خریداری
آپ یہاں آ کر براہِ راست خرید سکتے ہیں یا چینی ایجنٹ کے ذریعے۔
Shipping کے لیے FCL (Full Container Load) یا LCL (Less than Container Load) استعمال کریں۔کراچی، لاہور، سیالکوٹ میں Customs Clear کرنے کے لیے مقامی ایجنٹس موجود ہیں۔
3. پاکستان میں بیچنے کے پلیٹ فارمز
Daraz.pk , Wholesale Facebook Pages Instagram Boutique ,
Local Bazaars (Anarkali, Tariq Road)
شام ڈھلے، میں Guangzhou کے Beijing Road Night Market میں پہنچی یہ بازار کچھ کچھ لاہور کی انارکلی جیسا تھا۔ لوگ، روشنی، کھانے کی خوشبو، اور کپڑوں کی سجی سجائی دکانیں۔
میں نے وہاں ایک لڑکی کو دیکھا جو ایک چھوٹا سا بوتیک چلا رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ Alibaba سے مال منگوا کر بیچتی ہے ۔اس کے فون میں پاکستانی کلائنٹس کے واٹس ایپ تھے، وہ اردو کے پیغامات بھی سمجھتی تھی۔ میں نے اس سے کہا
“تم تو پاکستان کے بازاروں میں بیٹھی ہو، چین میں رہ کر!”
وہ مسکرائی
“بازار کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، صرف بھروسے کی ضرورت ہے۔”
جب میں واپس آئی، تو کمرے میں خاموشی تھی، مگر دماغ میں ہزاروں آوازیں گونج رہی تھیں
“MOQ صرف 100 پیس!”
“پاکستانی مارکیٹ میں یہ بہت چلتا ہے۔”
“ہم CIF کراچی تک شپ کرتے ہیں۔”
“ڈیل پکی؟”
میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا دور ایک چینی لڑکی، چائے کی پیالی لیے، لیپ ٹاپ پر کچھ سرچ کر رہی تھی۔ شاید وہ بھی کسی پاکستانی دکاندار کو پروڈکٹ دکھا رہی ہو۔مجھے لگا، بازار صرف چیزوں کے نہیں ہوتے، خوابوں کے بھی ہوتے ہیں۔
اگر آپ کو خواب دیکھنے آتے ہوں، تو علی بابا کے دروازے کھلنے میں دیر نہیں لگتی۔اور اگر آپ میں ہمت ہو، تو Yiwu،Guangzhou، اور Hangzhou کے بازار صرف منزل نہیں، خود ایک درسگاہ بن جاتے ہیں۔
میں اُس دن علی بابا کے ہیڈکوارٹر کے قریب واقع ایک کیفے میں بیٹھی تھی، جہاں چینی طالبات، کاروباری خواتین اور نوجوان لڑکیاں اپنے لیپ ٹاپ کھولے، خاموشی سے کام کر رہی تھیں۔ ہر ایک کے سامنے گرین ٹی کا کپ، اور اسکرین پر یا تو Alibaba.com کھلا تھا، یا پھر Douyin (چینی TikTok)، یا WeChat Mini Store۔ ایسا لگتا تھا کہ ہر میز ایک چھوٹا سا دفتر ہے ایک ڈیجیٹل دکان۔
میرے برابر بیٹھی ہوئی لڑکی نے اپنا تعارف ہلکی مسکراہٹ سے کروایا۔
“میرا نام ژیاؤلین ہے، میں ہانگژو کی لوکل پروڈیوس کو پاکستان، دبئی اور انڈونیشیا بھیجتی ہوں۔”
میں چونک گئی، کیونکہ وہ محض بائیس برس کی لگتی تھی، اور اس کے ہاتھوں میں نہ کوئی روایتی رسید تھی، نہ کوئی رجسٹر صرف اس کا فون، ایک چھوٹا بارکوڈ اسکینر، اور Alibaba Seller App۔
ژیاؤلین نے مجھے بتایا کہ وہ چھوٹے کسانوں سے شہد، چائے، خشک پھول، اور قدرتی صابن خریدتی ہے، اور انھیں خوبصورت پیکیجنگ کے ساتھ مختلف ممالک کو برآمد کرتی ہے — سب کچھ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے Alibaba & 1688.com پر پروڈکٹ لسٹ کرنا
Canva اور Photoshop پر پیکیجنگ ڈیزائن
TikTok/Douyin پر پروڈکٹ کی ویڈیوز
WeChat Pay اور AliPay سے ادائیگیاں
Lazada, Shopee, Daraz جیسے پلیٹ فارمز پر سیل
اس نے کہا۔ “مجھے بازار جانے کی ضرورت نہیں، میرا بازار میری انگلیوں کے نیچے ہے۔”
میں نے اسے بتایا کہ پاکستان میں بہت سی خواتین ہنر رکھتی ہیں مگر وہ مارکیٹ تک رسائی نہیں رکھتیں۔ وہ حیران ہوئی
“ہمیں صرف ایک فون، تھوڑی انگریزی، اور سیکھنے کی لگن چاہیے باقی سب ہم نے خود سیکھا ہے۔”
ہانگژو میں میں نے درجنوں ایسی لڑکیاں دیکھیں جو Alibaba یا Taobao پر “seller” تھیں۔ ان کی دکانیں نہ فٹ پاتھ پر تھیں، نہ پلازوں میں بلکہ کلاؤڈ پر۔ انھوں نے یہ جان لیا تھا کہ علم، نیٹ ورکنگ، اور برانڈنگ سے کہیں بھی کچھ بھی بیچا جا سکتا ہے۔
چین کی ڈیجیٹل مارکیٹ نے “تھوک فروش” (wholesale) کو موبائل میں قید کر دیا ہے اور “خریدار” کو دنیا کے کسی بھی کونے سے جوڑ دیا ہے۔ یہاں بازار کا شور نہیں ہوتا،مگر ہر نوٹیفیکیشن، ہر آفر، ہر کلک ، ایک نئی داستان کا آغاز ہوتا ہے۔
واپسی پر جب میں مغربی جھیل کے کنارے چہل قدمی کر رہی تھی، تو ہوا میں بارش کی نمی اور چائے کی مہک مل رہی تھی۔ ذہن میں ژیاؤلین کا جملہ گونج رہا تھا “بازار اب صرف دکانوں میں نہیں، دلوں میں ہوتے ہیں جو جوڑ سکے، وہ بیچ سکتا ہے۔”
اور مجھے لگا، پاکستان کی بیٹیوں، بیٹوں، ہنر مندوں اور خواب دیکھنے والوں کے لیے بھی یہ دروازے کھلے ہیں۔
کسی کو چین آنے کی ضرورت نہیں اگر آپ کے ہاتھ میں علم، فون، اور سچائی ہو، تو آپ کا بازار آپ کے ساتھ چلتا ہے
چین کی ڈیجیٹل دنیا کوئی ایک ایپ، ویب سائٹ یا ٹیکنالوجی کا نام نہیں یہ ایک نئی تہذیب ہے، جہاں بازار شور سے نہیں، کلک سے آباد ہوتے ہیں۔جہاں خریدار کے پاس وقت کم ہے، مگر چوائس بے شمار۔
جہاں دکاندار چھت تلے نہیں بیٹھتا، بلکہ کلاؤڈ میں تجارت کرتا ہے۔
یہاں ہر آرڈر، ایک الگ کہانی ہے۔ہر پیکیج، ایک شہر سے دوسرے ملک تک امیدوں کا سفر کرتا ہے۔اور ہر نوجوان، خواہ وہ ہانگژو کی گلی میں بیٹھا ہو یا کراچی کی چھت پر،اپنے موبائل سے دنیا کی مارکیٹ میں داخل ہو سکتا ہے۔
چین نے ہمیں یہ سکھایا کہ
بازار بدل سکتے ہیں، طریقے بدل سکتے ہیں، مگر خواب وہی رہتے ہیں خود کو بہتر بنانے کے، کچھ بیچنے کے، اور کچھ پا لینے کے۔اب بازار صرف سڑکوں پر نہیں، بلکہ ہمارے دلوں، انگلیوں اور سوچوں میں بسا کرتے ہیں۔
ارم زہراء ۔ چین
چین کی ڈیجیٹل مارکیٹ 618 کی کہانی ۔۔۔ارم زہرا
