صبح کے وقت جب شنگھائی کی گلیوں میں نرم دھند اترتی ہے اور بلند عمارتیں کسی خواب کی مانند آسمان کی آنکھوں میں گھل جاتی ہیں، تو میں اکثر سوچتی ہوں کہ ان فٹ پاتھوں پر چلتے ہوئے ہم کیا تلاش کرتے ہیں؟ کبھی کتاب، کبھی رشتہ، کبھی اپنا آپ… اور کچھ لوگ صرف ایک کھلونا۔جی ہاں، ایک کھلونا لبوبو۔
جسے میں نے ایک دکان میں نہیں، بلکہ ایک خاموش لڑکی کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ وہ لڑکی میرے سامنے Pop Mart کی ایک دکان میں کھڑی تھی، اور اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا باکس تھا۔ وہ باکس کھولا، اور اس میں سے لبوبو برآمد ہوا ۔ بڑی بڑی دانتوں والی مسکراہٹ، غیر متوازن سی ساخت، اور آنکھیں جیسے کسی درد سے بھری ہوئی ہوں۔۔
دکاندار نے بتایا “یہ لبولبو ہے، دی مون ، مون فاریسٹ سے آیا ہے۔ چین اور کوریا میں بچے اس کے دیوانے ہیں۔”
وہیں پہلی بار میں نے لبوبو کی کہانی سنی ، ایک شرارتی، جنگلی مگر دل کا نرم کردار جو فینسی کھلونوں کی اس دنیا میں الگ پہچان رکھتا ہے۔ پھر اُس نے کہا، “یہ صرف کھلونا نہیں، ایک مکمل شخصیت ہے، جس کا ہر ورژن بچوں کے جذبات سے جڑا ہے۔”
میں دیر تک کھلونے دیکھتی رہی۔ ہر ایک کے چہرے پر کوئی نہ کوئی کہانی لکھی ہوئی تھی ۔ کوئی خوشی، کوئی غصہ، کوئی حیرت۔ لبوبو ہی نہیں، Molly Dolls، Dimoo، Skull Panda، Pucky اور Bunny Play جیسے کردار بھی دکان میں آراستہ تھے۔ یہ Pop Mart برانڈ کے انقلابی کھلونے تھے، جو نہ صرف بچوں بلکہ بڑے لوگوں کے دل بھی جیت چکے ہیں۔
میرے دل میں سوال آیا ۔ کیا یہ کھلونا ہے؟ یا کوئی علامت؟ یا شاید آج کے انسان کا آئینہ؟
پوچھنے پر پتہ چلا، یہ گڑیا لبوبو کہلاتی ہے ۔ ہانگ کانگ کے آرٹسٹ Kasing Lung کی تخلیق، جو Pop Mart کمپنی کے تحت چین بھر میں پھیلا ہے۔ یہ کوئی عام کھلونا نہیں۔ یہ “designer toy” ہے، جو blind box میں بند ہو کر بیچا جاتا ہے، یعنی آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس بار کون سا لبوبو ملے گا۔ خوش قسمتی، یا بدقسمتی دونوں خریداری میں شامل ہیں۔ میرے چینی دوستوں کا کہنا ہے کہ “ لبوبو وہ چیز ہے جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم مکمل نہیں اور اسی میں ہماری خوبصورتی ہے۔”
لبولبو جو ہانگ کانگ سے تعلق رکھتا ہے ۔ یہ کردار سب سے پہلے The Monsters series میں 2016 کے آس پاس متعارف ہوا۔
اس کی دنیا کا نام تھا The Monster Forest ایک تخیلاتی جنگل جہاں “غیر روایتی، غیر خوبصورت، مگر ایماندار” کردار رہتے تھے۔
لبولبو دراصل اسی جنگل کی ایک چھوٹی سی مخلوق تھا، جو شرارت پسند تھا، جنگلی تھا، مگر دل سے صاف۔
اسے شہرت Pop Mart نے دی ہے ۔ چین کی ایک مشہور آرٹ ٹوائے کمپنی، جو ہر کھلونے کو ایک چھوٹی کہانی، ایک منفرد انداز، اور خاص حد تک محدود بناتی ہے تاکہ “نایابی” کا جادو برقرار رہے۔
، لبوبو (Labubu) کی دنیا میں کچھ ایسے ماڈلز بھی بنائے گئے ہیں جو اتنے نایاب (rare) اور محدود تعداد میں جاری ہوئے کہ ان کی قیمتیں سن کر واقعی حیرت ہوتی ہے۔ اب تک کا سب سے مہنگا لبوبو
“Labubu Crystal Ghost Limited Edition”
• قیمت (ریسیل مارکیٹ میں):
تقریباً ¥18,800 RMB سے لے کر ¥22,000 RMB تک (یعنی تقریباً 2600 سے 3000 امریکی ڈالر یا 8 لاکھ پاکستانی روپے سے زائد) یہ ایڈیشن اتنا نایاب ہے کہ اسے صرف خاص ایونٹس پر یا لکی ڈرا کے ذریعے ہی خریدا جا سکتا تھا، اور زیادہ تر collector-to-collector resale کے ذریعے خریدا گیا۔ دیگر مہنگے اور نایاب لبوبو ایڈیشنز ایڈیشن اندازاً قیمت
Golden Dancer Labubu ¥12,000+ RMB
Pop Mart 10th Anniversary میں جاری ہوا
Labubu x Skull Panda (Black Gold) ¥9,000 RMB مشہور “Monster Series” کا کراس اوور
Labubu Forest Elf Glow Edition ¥6,500 RMB روشنی میں چمکتا ہے، محدود ریلیز
Labubu x Pokémon Crossover ¥5,000 RMB Pokémon کے ساتھ خاص تعاون نوٹ یہ قیمتیں ریسیل مارکیٹ (Xianyu, Xiaohongshu, Pop Mart Collector Groups) میں رائج ہیں، اصل دکان کی قیمتیں اس سے کہیں کم ہوتی ہیں قیمت اس بات پر منحصر ہے کہ وہ edition کتنا نایاب ہے، کتنا پرانا ہے، اور مارکیٹ میں اُس وقت طلب کتنی ہے۔
میں نے اسے ہاتھ میں اٹھایا۔ کچھ دیر دیکھا۔ وہ خاموش تھا، مگر جیسے بہت کچھ کہہ رہا ہو۔ شاید “تم بھی تو لبوبو ہو، بس انسانی شکل میں۔”
2024 سے 2025 کے درمیان چین میں لبوبو کی مانگ دیوانگی کی حد تک بڑھ گئی۔ 2024 تک، لبولبو کی 60 سے زیادہ منفرد اقسام (Variants) مارکیٹ میں آ چکی ہیں اور نئے editions ہر چند ماہ بعد متعارف کروائے جاتے ہیں 2025 کا مہنگا ترین Labubu:
• Golden Dragon Labubu (Ultra Rare, 2025 Lunar Edition• ماربل finish، سونے کے رنگ کا تاج، ہاتھ میں طِفل اژدہا• مارکیٹ پرائس: $4000 USD
(تقریباً 11 لاکھ PKR)• Only 99 units worldwide
لبوبو کو دنیا کے مختلف ممالک کے لباس و ثقافت میں ڈھالا گیاہے جس میں خلیجی ممالک سر فہرست ہیں ۔ عربی لباس میں Labubu ہاتھ میں لالٹین اور ستاروں سے سجا لباس بطور خاص متعارف کروایا گیا ہے ۔
ان دنوں لبوبو سے وابستگی کا عالم یہ ہے کہ Pop Mart کی دکانوں میں قطاریں لگنے لگی ہیں ۔ Douyin پر ہر دوسری ویڈیو لبوبو کی۔ Xiaohongshu پر “My Healing Corner with Labubu” جیسے ہیش ٹیگ وائرل ہوئے ۔ اور مارکیٹ؟ وہ تو پاگل ہو گئی۔
ایک عام لبوبو باکس 59 RMB میں ملتا تھا، مگر rare editions جیسے “Golden Labubu”, “Crystal Ghost”, یا “10th Anniversary” ایڈیشنز کی قیمتیں 8000 سے 18000 RMB تک جا پہنچیں۔ کچھ تو 2600 امریکی ڈالر میں نیلام ہوئے۔
بلیک مارکیٹ، ڈجیٹل نیلامی، کولیکٹرز کی دوڑمیں سب سے آگے نظر آتے ہیں اور لڑکیوں کا یہ کہنا کہ “لبوبو میرے دل کا وہ حصہ ہے، جو کسی کو دکھایا نہیں جا سکتا مگر اسے گلے لگایا جا سکتا ہے۔”
کیا یہ صرف کاروبار ہے ؟ نہیں یہ ان کے مطابق آج کے تنہا دل کی ایک خاموش دعا ہے۔
اگلے دن میں نے اپنے گھر کے قریب مکسی مال کے Pop Mart سٹور پر دوبارہ جانا چاہا۔ میری دوست نے بتایا کہ لبوبو کا ایک نیا ورژن آیا ہے
“Fairy Forest Edition”۔
میں نے قیمت پوچھی RMB 89 سے 129 یعنی پاکستانی کرنسی میں تقریباً 3500 سے 6000 روپے فی کھلونا۔ اگر Rare Edition ہو، تو قیمت 30000 روپے سے بھی اوپر جا سکتی ہے!
دکاندار نے بتایا “یہ کھلونے صرف بچے نہیں خریدتے، بڑے لوگ انہیں بطور سرمایہ بھی رکھتے ہیں۔” یہ بات میرے دل میں چبھی ۔ کیا بچپن کا مطلب صرف nostalgia کا بیوپار رہ گیا ہے؟
کیا اب کھلونا وہی قیمتی ہے جو مہنگا ہو، یا جو محدود ہو؟
کیا دل سے بنایا گیا رشتہ بھی اب پلاسٹک میں ڈھال دیا گیا ہے؟
چین اور کوریا میں لڑکیوں کی ایک نئی نسل لبوبو کو “ugly-cute” کہتی ہے یعنی وہ پیارا ہے کیونکہ وہ عجیب ہے۔
دنیا نے ہمیشہ بتایا کہ خوبصورتی بڑی آنکھیں، باریک ناک، یا گلابی ہونٹ ہیں۔ لبوبو نے کہا نہیں، خوبصورتی وہ ہے جو اندر کے ٹوٹے ہوئے پن کو سچائی سے دکھا دے اور شاید اسی لیے لبوبو therapy toy بن گیا۔
چین کی یونیورسٹیوں میں، دباؤ اور تنہائی میں گھری لڑکیاں لبوبو کے ساتھ تصویریں لیتی ہیں، diary لکھتی ہیں، رات کو گلے سے لگا کر سوتی ہیں۔
2025 میں چین کے شہروں ۔ بیجنگ، شنگھائی، شینزین میں Labubu Cafés کھل چکے ہیں۔
Labubu-themed مشروبات، cupcakes، نشستیں، اور دیواروں پر لبوبو کے جملے: “تم جیسے ہو، ویسے ہی قیمتی ہو۔”
Pop Mart نے ایک World Tour Mini Museum بھی لانچ کیا جس نے کوریا، جاپان، سنگاپور، اور اب یورپ تک قدم رکھ دیے۔
چین میں اب لبوبو صرف کھلونا نہیں، بلکہ identity کا اظہار ہے خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کے لیے، جو “soft but sad” culture کو اپناتی ہیں۔
ان دنوں تقریبا” ہر لڑکی نے اپنے ہاتھ میں ایک ننھا سا کھلونا تھام رکھا ہے ۔ بڑے بڑے کان، باہر نکلتے دانت، اور الجھی سی آنکھیں۔ وہ اس کے ساتھ ایسے تصویر بنوا رہی ہوتی ہیں جیسے کوئی محبوب چیز ہو۔
Pop Mart کی روشنیوں سے لے کر سوشل میڈیا پر لڑکیوں کی چیخوں تک لبوبو ہر طرف تھا۔شاید میں کسی اور دنیا میں آ چکی تھی۔
ایک شام جب میری چینی دوست نے کہا “چلو، تمہیں لبوبو دکھاتی ہوں!”
تو میں نے دل میں کہا “بس یہی دیکھنا باقی رہ گیا ہے لیکن اس بار میں نے سوچا کہ اسے اب اپنی تحریر کا حصہ بناؤ گی ”
“میں دیکھ چکی ہوں اور اس کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہوں “ میں نے مسکراتے ہو ئے کہا
ہم Pop Mart کی ایک برانچ میں داخل ہوئے۔ شیشے کے ڈبوں میں رنگ برنگی لبوبو گڑیاں سجی تھیں کوئی سونے کی، کوئی چمکدار، کوئی پری، کوئی روح۔ لڑکیاں قطار میں لگی تھیں، اور ہر ایک کے ہاتھ میں بند ڈبہ تھا جیسے قسمت کا کوئی سندیسہ کھول رہی ہوں۔
یوئن نے خوشی سے کہا،اس بار اگر ‘Ghost Labubu’ نکل آیا تو میں رو دوں گی۔”اور میں؟
میں خاموشی سے ان سب کو دیکھتی رہی ایک اجنبی پن کے ساتھ، جیسے کوئی اپنی زمین پر کسی اور زبان کی پکار سن رہا ہو۔
میں نے یوئن سے پوچھا،
“یہ اتنا خاص کیوں ہے؟”
اس نے بڑی سنجیدگی سے کہا ۔ لبوبو ugly ہے، لیکن سچ ہے۔ ہم سب لبوبو ہیں، تھوڑے بگڑے، تھوڑے تنہا۔
میں نے لبوبو کو ہاتھ میں لیا وہ واقعی عجیب تھا۔ معصوم بھی، مگر کسی خواب سے بچھڑا ہوا۔مگر میرا دل اس سے نہ جڑ سکا۔ نہ اس کی خاموشی سے، نہ اس کے بکھرے پن سے۔مجھے لبوبو میں وہ گڑیا نظر نہ آئی، جو میرے بچپن کی ساتھی تھی ۔
یوئن نے لبوبو مجھے تحفہ کے طور پر دیا اور کہا یہ تمھیں ہمیشہ میری یاد دلاتا رہے گا ۔ میں نے بے ساختہ کہا یوئن تم اس گڑیا سے زیادہ پیاری ہو ۔
اب جب بھی میں شاپنگ مال جاتی ہوں، تو لبوبو ہر طرف ہوتا ہے موبائل کور پر، کپ پر، جوتے کے نشان پر ۔ تکئیے پر ، چادر پر ۔ کی چین اور بالوں کی کلپ سے لے کر جیولری تک میں نظر آتا ہے
کیا یہ کھلونا ہے؟ یا کوئی علامت؟ یا شاید آج کے انسان کا آئینہ؟
چین میں اب لبوبو صرف کھلونا نہیں، بلکہ identity کا اظہار ہے خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کے لیے، جو “soft but sad” culture کو اپناتی ہیں۔
لبوبو شاید آج کی نسل کا سچ ہے، مگر وہ میرے خواب کا ساتھی نہیں۔
اور شاید ہر سفر میں ایک راستہ ایسا بھی ہوتا ہے جو سب کے لیے ہو، مگر آپ کے لیے نہیں۔ان دنون چین سے اُڑ کر یہ گڑیا جب پاکستان کی زمین پر اُتری، تو اس کے کانوں کی لمبائی، دانتوں کی بے ترتیبی اور آنکھوں کی بھٹکی ہوئی معصومیت نے ہر نظر میں سوال بُو دیے۔
کچھ نے کہا “واہ! کیوٹ ہے، یونیک ہے!”
اور کچھ نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے فرمایا
“یہ ہے کیا؟ خوفناک سی لگتی ہے۔”
یہ گڑیا نہیں، جیسے دل کے ذائقے کا امتحان تھی۔
کراچی کی کسی فینسی شاپ میں، یا لاہور کے کسی جدید بوتیک کے گوشے میں لبوبو اب دکھائی دینے لگی ہے۔وہ نوجوان لڑکیاں، جنہوں نے کبھی باربی کی چمک دیکھی تھی، اب لبوبو کے خاکی چہرے سے اپنے آپ کو جوڑنے لگی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کیا واقعی یہ “پسند” ہے؟
یا ایک رجحان؟ یا وہ خلاء جو کسی سچی بات کے بجائے کسی عجیب شئے سے پُر ہو رہا ہے؟ اسلام آباد سے ایک ویلاگر لڑکی کہتی ہے
لبوبو مجھے میرے anxiety attacks سے نکالتا ہے۔ میں اسے دیکھتی ہوں اور ہنستی ہوں کیونکہ وہ میرے جیسا ہے تھوڑا بکھرا، تھوڑا تنہا اور اسی شہر کی ایک اور لڑکی نے کہا
مجھے ڈر لگتا ہے اس کھلونے سے۔ جیسے کوئی آپ کو دیکھ رہا ہو، پر ہنس بھی رہا ہو۔”
لبوبو کی مقبولیت صرف جمالیات پر مبنی نہیں، ذہن کے حال پر مبنی ہے۔ وہ لوگ جو دنیا کی مکمل شکلوں سے تھک چکے ہیں، وہ اس ادھورے کھلونے کو اپنا عکس سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں لبوبو کی قیمت عام طور پر 3500 سے 7000 روپے کے درمیان ہے، لیکن اگر کوئی rare edition ہو، تو قیمت 15000 روپے سے بھی اوپر چلی جاتی ہے۔
مگر خریدنے والے اب بھی ایک مخصوص طبقے سے تعلق رکھتے ہیں زیادہ تر شہری، اپر مڈل کلاس لڑکیاں، یا سوشل میڈیا انفلوئنسرز ہیں ۔۔
باقی لوگ، جن کی دنیا میں آج بھی “پیارے کھلونوں” کی جگہ ہے، وہ لبوبو کو دیکھ کر سر جھٹک دیتے ہیں۔
کیا ہم واقعی اس کھلونے سے جڑتے ہیں؟ یا سوشل میڈیا نے ہمیں قائل کر لیا ہے کہ ہمیں اس سے جُڑنا چاہیے؟
کیا لبوبو واقعی ہماری اندرونی حقیقت ہے یا بس ایک چینی برانڈ کی کامیاب پیشکش؟ یہ سوال کھلا ہے۔
مگر یہ طے ہے کہ لبوبو ایک عہد کی علامت بن چکا ہے ۔ ایک ایسا کھلونا جو ہمیں اپنے آپ سے سوال کرواتا ہے
“ہم کتنے مکمل ہیں؟ اور اگر نہیں، تو کیا ہم خود کو قبول کرتے ہیں؟”
پاکستان کی سرزمین پر جب چین کی گڑیا “لبوبو” نے قدم رکھا، تو کچھ آنکھیں چمکیں، کچھ لب مسکرائے، اور کچھ دل دھڑک اٹھے تیزی سے پاکستانی سوشل میڈیا پر اس کی خبریں گردش کرنے لگیں مگر کچھ نگاہیں جھک گئیں، اور کچھ دلوں نے کراہ کر سوال اٹھایا
“کیا یہ ہمارے بچوں کے لیے ہے؟”
اسلام ایک ایسا دین ہے جس نے تزکیۂ نفس، طہارتِ نظر اور حسنِ اخلاق کو زندگی کی بنیاد بنایا ہے۔ ہر شے جو دل کو غیر فطری خوف، الجھن یا فتنہ میں ڈالے، اس پر قرآن اور سنت خاموش نہیں۔
لبوبو کی شکل و صورت بڑی بڑی کانیں، باہر نکلتے دانت، اور کسی حد تک “جناتی” یا “ماورائی” تاثر جب معصوم بچوں کے کمزور دل و دماغ سے ٹکراتی ہے، تو روحانی ماؤں اور علما کے لیے سوال بنتی ہے
“کیا یہ کھیل ہے یا شعور کی تشکیل کا ایک نیا سانچہ؟”
اسلامی فقہ میں تصویری شکلوں، خاص طور پر ایسی شکلوں کا بنانا یا رکھنا جو جانداروں کی ہو اور غیر ضروری ہو، ہمیشہ ناپسندیدہ رہا ہے۔
لبوبو کی موجودہ شکل جسے کچھ علماء “creepy” اور “jin-like” قرار دیتے ہیں اسلامی معاشرت میں ایک نرم فتنہ کی مانند ابھری ہے۔ نہ بالکل حرام کہ دیا جائے، نہ مکمل حلال۔
حالیہ مہینوں میں کئی پاکستانی والدین نے مساجد میں علما سے استفسار کیا “کیا یہ کھلونا گھر میں رکھنا جائز ہے؟ “کیا بچے کے کمرے میں اس جیسی شکل والا کھلونا رکھنا روحانی اثر ڈال سکتا ہے؟”
علماء کا عمومی رجحان یہ ہے کہ اگر کوئی کھلونا خوف، بدصورتی، یا غیر شرعی تصور کو فروغ دے رہا ہو،اگر وہ بچے کو جناتی، شیطانی، یا ماورائی اشکال سے مانوس کر رہا ہو اور اگر وہ معصوم ذہن کو حقیقی جمالیات سے ہٹا رہا ہو، تو وہ کھلونا ناپسندیدہ (مکروہ) اور بعض اوقات روحانی ضرر کا باعث ہو سکتا ہے۔
اسلامی ذہن رکھنے والے والدین لبوبو کو صرف ایک کھلونا نہیں، ثقافتی اثر سمجھتے ہیں جو باہر سے آ رہا ہے، مگر اندر کے نظریات کو چپ چاپ بدل رہا ہے۔
جہاں اسلام ہمیں روشنی، توازن، جمال اور فطرت کی طرف بلاتا ہے، وہاں لبوبو جیسی مخلوق ابہام، بےچینی اور غیر فطری جمالیات کی نمائندہ بن رہی ہے۔ لبوبو کی کہانی ابھی نئی ہے، مگر اسلامی نقطۂ نظر سے یہ سوال پرانا ہے “کیا ہر وہ شے جو مقبول ہو، مفید بھی ہوتی ہے؟” شاید نہیں اور شاید ہر ماں کے دل میں ایک چھوٹا سا مفتی چھپا ہوتا ہے ۔ جو کہتا ہے “یہ نہیں، بیٹا، یہ نہیں…”
اس موضوع پر مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ پاکستان میں کئی دینی علماء اور مفتیان کرام نے جدید، “خیالی مگر خوفناک” کھلونوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔
1. چہرہ بگاڑنے والے کھلونے:
شریعت میں ایسی اشیاء کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو تخلیقِ الٰہی کا مذاق اڑائیں یا ایسی مخلوق کی شبیہ بنائیں جو شیطانی یا جنّاتی ہو۔
لبولبو کے دانت، اس کی عجیب سی آنکھیں، اور اُس کی wild سی جسمانی ساخت اکثر والدین کو غیرمناسب لگتی ہے۔
2. روحانی اثرات:
علماء کی رائے میں ایسے کردار جو خوف اور غیر معمولی صفات رکھتے ہوں، بچوں کی روحانی نشوونما پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔
ایک دینی اسکالر نے یوٹیوب پر تبصرہ کیا:
“بچوں کو جنوں، آسیب، اور دیو کی مخلوقات سے مانوس کرنا اُن کے فطری امن کو متاثر کرتا ہے۔”
3. مغرب زدگی اور ثقافتی یلغار:
کئی اسلامی اسکالرز کا ماننا ہے کہ یہ کھلونے صرف ظاہری شکل میں ہی عجیب نہیں، بلکہ تہذیبی حملے کا خاموش ہتھیار ہیں۔
یہ ہمارے بچوں کو اُن کہانیوں سے دور کر رہے ہیں جن میں حضرت لقمان کی دانائی، اصحاب کہف کی وفاداری، یا حضرت یوسف کی پاکیزگی کا سبق
پاکستان میں زیادہ تر دکان داروں نے بتایا کہ لبولبو جیسے غیر ملکی کھلونے ابھی نایاب ہیں، اور اگر آتے بھی ہیں تو زیادہ تر نوجوان کالج یا یونیورسٹی کے طلبہ انہیں بطور ‘collectibles’ خریدتے ہیں۔
شاید لبولبو صرف کھلونا نہیں ایک نظریہ ہے۔ ایسا نظریہ جو آزادی کا، انفرادیت کا، اور فنکارانہ سوچ کا دعویٰ کرتا ہے مگر ہمارے معاشرے کے اسلامی مزاج میں اسے “خودسری”، “بےخوفی”، اور “نرم شر” کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
پاکستانی والدین کا خدشہ یہ نہیں کہ بچہ کھلونا دیکھ کر روئے گا بلکہ یہ ہے کہ کہیں وہ اُس کردار کو “آئیڈیل” نہ سمجھ لے۔
کہیں وہ دانت نکالتے ہوئے شرارتی لبولبو میں “مظلومیت” یا “ہمدردی” تلاش نہ کرے اور کہیں یہ سب اُس کے دل سے اللہ کے ڈر، حیاء اور ادب کو کم نہ کر دے۔
چین کی شامیں بھی عجیب ہوتی ہیں آسمان پر سورج دیر تک رُکنے کی ضد کرتا ہے، جیسے کسی بچے کی ضد ہو کہ کھیل ابھی ختم نہ ہو۔
میرے ہاتھ میں یوئین کا دیا تحفہ لبوبو تھا جو اپنے دانت نکالے، اپنی مخصوص شرارتی مسکراہٹ لیے جیسے مجھے ہی دیکھ رہا تھا ۔ میں نے اُسے میز پر رکھا، اور خود اپنے خیالات کے جنگل میں نکل گئی۔میرے وطن میں ایسا کیوں نہیں؟
دل میں ایک سوال اُبھرا
“کیا کبھی میرے پاکستان میں بھی ایسے کھلونے ہوں گے؟ ایسے کردار، جو صرف دلچسپ نہ ہوں بلکہ سبق آموز بھی ہوں؟”
میرے ذہن میں ایک تصور بننے لگا۔ ایک چھوٹا سا کھلونا، جس نے سفید دوپٹہ اوڑھا ہو، ہاتھ میں تسبیح ہو، چہرے پر سکون ہو یا ایک ننھا مجاہد، جو بچوں کو جھوٹ سے دور رکھے، سچائی کا راستہ دکھائے۔
میں نے لبولبو کی طرف دیکھا وہ مجھے بالکل غیر مانوس لگا۔ نہ اُس میں وہ پاکیزگی تھی، نہ وہ سادگی، نہ وہ نور جو میری تہذیب میں بچپن سے پروان چڑھا۔ کھلونوں سے تربیت؟ کیا یہ ممکن ہے؟
چینی بچوں کو دیکھتی ہوں لبولبو، مولی، ڈیمو، ہر ایک کے ساتھ وہ جڑ جاتے ہیں جیسے دوست ہو۔ کیا یہ محض کھلونے ہیں؟ نہیں… یہ دراصل کردار سازی کے خاموش ہتھیار ہیں۔
تو پھر ہم کیوں خاموش ہیں؟ ہمارے بچے کیوں صرف Barbie، Batman یا اب لبولبو سے مانوس ہیں؟ کہاں ہیں وہ کھلونے جو حضرت علیؓ کی دانائی، حضرت فاطمہؓ کی شفقت، یا امام حسینؓ کی قربانی کا تصور دیں؟
میری آنکھوں کے سامنے ایک مکمل منظر کھلنے لگا
ایک چھوٹا سا کھلونا بازار ہے ۔ کراچی ، لاہور یا سوات کی کسی گلی میں۔ دکان کی الماری میں گڑیا ہے مشرقی لباس میں جو سر پر دوپٹہ لیے بیٹھی ہے۔ ایک گڈا ہے جو پگڑی باندھے بچوں کو سلام سکھاتا ہے۔ ایک اور کھلونا ہے جو درخت لگا رہا ہے، ساتھ ہی ایک تختی: “زمین اللہ کی امانت ہے۔”
کاش! میں نے دل میں کہا کاش یہ خواب حقیقت بنے۔
یہ سوال بھی ذہن میں آیا کہ کیا فن اسلامی ہو سکتا ہے؟
کیا ایک کھلونا، جو دل کو لبھائے، نظر کو بھائے، مگر ساتھ ہی دل کو سیدھی راہ دکھائے، ممکن ہے؟
چین میں بیٹھ کر بھی مجھے پاکستان کی گلیاں، مدارس کی رونق، اور امی کی سنائی ہوئی وہ کہانیاں یاد آ رہی تھیں “حضرت یونسؑ مچھلی کے پیٹ میں”،“اصحاب کہف کی نیند” واقعہ کربلا “، “حضرت خدیجہؓ کا سچّا کاروبار” یہ سب وہ کردار تھے جو ہمارے دل کے کھلونے تھے۔
مگر آج کے بچوں کے ہاتھ میں کیا ہے؟
ایک دانت نکالتا لبولبو؟ یا ایک Barbie جو حیا سے خالی ہے؟
یا ایک Superhero جو طاقتور تو ہے، مگر اطاعت گزار نہیں؟
میں نے فیصلہ کیا شاید میرے ہاتھ میں لکڑی، پلاسٹک یا کاروبار کا ہنر نہیں۔مگر میرے پاس قلم ہے، خواب ہے، اور دعا ہے۔
میری خواہش ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسا شخص اٹھے ۔ جو کھلونوں کو صرف “کھیل” نہ سمجھے، بلکہ تربیت کا چراغ بنائے۔ جو بچوں کے لیے وہ کردار بنائے جنہیں دیکھ کر وہ محبت، سچ، حیا، قربانی اور دعا سیکھیں۔ میں نے لبولبو کو آہستہ سے الماری کے خانے میں رکھ دیا۔
نہ نفرت سے، نہ غصے سے بس ایک نرمی سے، جیسے کسی خواب کو “خیر باد” کہنا ہو۔ اور ایک نئی ڈائری کھولی اور پہلے صفحے پر لکھا
“ایک دن ایسا کھلونا ہوگا
جو بچوں کو صرف ہنسائے گا نہیں
بلکہ اُنہیں اللہ کے قریب لے جائے گا…”
لبوبو کی دنیا میں۔۔ ارم زہراء
