چینی خواتین اور سوشل میڈیا کے اثرات …..ارم زہرا

اس بار شنگھائی کے بازار نہیں، کیمپس کی رونقیں نہیں، بلکہ ایک عجیب سی خاموش چہچہاہٹ میرے سفر کی منزل بنی ۔ایک ایسی دنیا جہاں آوازیں ٹیکسٹ بن جاتی ہیں اور جذبات فالوورز میں بدل جاتے ہیں۔میں جس کیفے میں بیٹھی تھی، وہاں ہر میز پر ایک اسمارٹ فون جگمگا رہا تھا۔ کوئی لائیو تھا، کوئی فیس فِلٹر آزما رہا تھا، کوئی TikTok پر ٹرانزیشن کے لیے چائے کو اٹھا کر نیچے رکھ رہا تھااور ہر دوسرا چہرہ عورت کا تھا۔نوجوان لڑکیاں، مائیں، یہاں تک کہ بزرگ خواتین تک، ایک نئی زبان بولنے لگی تھیں سوشل میڈیا کی زبان۔ ایک دوپہر، میں ژیا ہونگ شو چینی انسٹاگرام کی ایک اسٹار بلاگر سے ملی اس کا نام تھا آن لی۔ نرم چہرہ، میک اپ کی ہلکی تہہ، اور اسکرین کے پیچھے چھپی ایک ماں۔اس کے دس لاکھ فالوورز تھے، مگر وہ خود بھی حیران تھی ۔تم جانتی ہو؟ میں نے صرف اپنے بیٹے کے ساتھ لنچ کی تصویر شیئر کی تھی اور سب نے کہنا شروع کیا تم ماں ہو کر بھی خوبصورت ہو! جیسے ماں ہونا ایک کمزوری ہومیں اس کی بات سن کر کچھ لمحوں کو ساکت رہ گئی۔ کیا ہم سب عورتیں، اسکرین پر خود کو ثابت کرنے کی دوڑ میں شامل ہو چکی ہیں؟چینی خواتین اب صرف گھروں کی زینت نہیں رہیں۔ سوشل میڈیا نے ان کے ہاتھوں میں طاقت، پلیٹ فارم، اور پہچان تھما دی ہے مگر اس کے ساتھ ہی ان پر خوبصورتی، مکمل ماں ہونے، مہذب بولنے اور ہر لمحہ پرفیکٹ دکھنے کا دباو بھی ڈال دیا ہے۔ایک نوجوان طالبہ، جیا وجیاو، نے بتایا کہ وہ روزانہ وی لاگ بناتی ہے:اگر میں دو دن ویڈیو نہ اپلوڈ کروں، تو فالوورز ناراض ہو جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا۔ اور تم تھکتی نہیں ہو کبھی۔ وہ خاموش ہو گئی۔ پھر آہستہ سے بولی یہاں، پر میں دکھا نہیں سکتی۔ یہاں دکھ کم اور تصویر زیادہ اہم ہے۔شنگھائی کی شامیں جیسے بڑی اسکرینوں پر فلم بن چکی تھیں۔ ہر خاتون چاہے وہ اسٹور کی سیلز گرل ہو یا مووی بلاگر کسی نہ کسی لینز میں قید ہو چکی تھی۔ایک اور لمحہ، جب میں میٹرو میں سفر کر رہی تھی، ایک ماں اپنی بچی کو روٹی کھلاتے ہوئے ویڈیو بنا رہی تھی مگر بچی کے چہرے پر خوشی نہیں، بیزاری تھی۔میں نے سوچایہ دکھ ہم نے خود چنا ہے؟ یا ہمیں دکھایا گیا ہے کہ بس ایسے جیو تاکہ پسند کیے جاوچین کی یہ خواتین سوشل میڈیا پر طاقتور، مگر نجی زندگی میں اکثر تنہا۔کسی کے 1 ملین فالوورز ہیں، مگر رات کو صرف نیند کی گولی ساتھ ہے۔کسی کی ویڈیوز وائرل ہیں، مگر دل ویران۔میں نے آن لی سے پوچھاتم اگر یہ سب بند کر دو، کیا خوش رہو گی؟اس نے قدرے توقف سے کہامیں شاید خاموش ہو جاوں، پر آزاد ہو جاوں گی۔چین کی جولائی کی وہ سہ پہر تھی، جب ہوا ہلکی سی گرم تھی، لیکن بارش کی نمی نے اسے خوبصورت بنا دیا تھا۔ میں شنگھائی کے ایک بڑے مال میں تھی رنگ برنگی دکانیں، سجی سجائی بیوٹی شیلوز، اور ہر طرف جگمگاتی روشنیاں۔میری نظریں ایک میک اپ کاونٹر پر ٹھہر گئیں۔ وہیں چند نوجوان چینی لڑکیاں کھڑی تھیں، ایک بیوٹی کنسلٹنٹ ان کے چہرے پر وائٹننگ فاونڈیشن لگا رہی تھی اور لڑکیاں آئینے میں خود کو دیکھ کر مطمئن تھیں، جیسے کسی خواب کو چھو لیا ہو۔ میں چونکی۔کیا خوبصورتی واقعی سفید ہونے سے جڑی ہے؟میرا دل آہستہ سے جیسے سوال کرنے لگا۔چین میں خوبصورتی کا معیار اب بھی ایک پرانی روایت سے جڑا ہوا ہے سفید چمکتا رنگ۔نوجوان لڑکیاں اسکول سے لے کر یونیورسٹی، پھر سوشل میڈیا تک، ہر جگہ fair, clear, porcelain skin کے خواب لے کر پھرتی ہیں۔وانگ لی جو ایک بیوٹی یوٹیوبر ہے، اس نے مجھے بتایامیں باہر نکلنے سے پہلے SPF 50+ لگاتی ہوں، چھتری لیتی ہوں، اور ہاتھوں پر دستانے پہنتی ہوں تاکہ جلد سانولی نہ ہو۔میں نے حیرانی سے پوچھاکیوں؟اس نے کہا کیونکہ چینی لڑکیاں گوری دکھیں، تبھی حسین مانی جاتی ہیں۔شنگھائی کی ایک بڑی بیوٹی شاپ میں میں نے درجنوں کریمیں دیکھیںSkin Lightening Cream, Snow Aura BB, Whitening Day Serumمیں نے ایک سیلز گرل سے پوچھایہ سب واقعی جلد کو سفید کرتی ہیں؟وہ مسکرائی اور آہستہ سے بولی یہ خواب بیچتی ہیں، اصل نہیں۔ مگر خواب ہی تو سب کچھ ہے۔یونیورسٹی کی ایک طالبہ ژاو مِن نے بتایا کہ بچپن میں اس کی ماں اسے کہتی تھی سورج میں مت نکلو، تم کالی ہو جاو گی، پھر کوئی پسند نہیں کرے گا۔میں نے محسوس کیا صرف رنگت ہی نہیں، قبولیت کا خوف بھی اس سفیدی میں چھپا ہوا ہے۔یہ صرف ایک بیوٹی ٹرینڈ نہیں، یہ ایک خاموش جنگ ہے خود سے، معاشرے سے، اور آئینے سے۔سوشل میڈیا پر ہر فلٹر، ہر فیس ایپ، لڑکی کو تھوڑا اور گورا کر دیتا ہے۔TikTok، Xiaohongshu، Douyin ہر جگہ لڑکیاں سفید اور نازک دکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔میئی لی، جو ایک ماڈل ہے، اس نے کہااگر میں تھوڑی گہری رنگت میں ویڈیو لگاوں، لوگ کہتے ہیں بیمار لگ رہی ہو۔ سفید رنگ صحت کی علامت ہے، کامیابی کی علامت ہے۔میں نے سوچا کیا سفید چہرہ اب خوشی، دولت اور عزت کا نشان بن چکا ہے؟ یا یہ سب ایک مارکیٹنگ کا جادو ہے؟شہر سے باہر، جب میں ایک گاوں گئی، تو وہاں لڑکیاں سورج میں کام کرتی تھیں۔ ان کے چہرے سانولے تھے، مگر آنکھوں میں سکون تھا۔ایک لڑکی، آئی لین، جو چاول کے کھیت میں کام کر رہی تھی، اس نے ہنستے ہوئے کہا ہمیں سانولا ہونے پر شرمندگی نہیں، ہم تو سورج کی بیٹیاں ہیں! اس کی بات نے میرے دل کو جیسے چھو لیا ہو۔سچ کی روشنی ہمیشہ سفید نہیں ہوتی کبھی کبھی وہ مٹیالی ہوتی ہے، مگر سچی ہوتی ہے۔اس سفر نے مجھے میرے ہی آئینے کے سامنے لا کھڑا کیا۔میں نے سوچا کیا کبھی میں نے بھی اپنی جلد کو کمتر سمجھا؟ کیا کبھی میں نے بھی whiteness کو برتری کا معیار جانا؟میں نے اس لڑکی کے چہرے پر میک اپ کی کئی تہیں دیکھی،پر جو چمک اس کی آنکھوں سے نکل رہی تھی، وہ کسی فاونڈیشن سے نہیں،اندر کے یقین سے تھی۔چین کی بیوٹی انڈسٹری، سوشل میڈیا، اور ماں کی نصیحتیں سب لڑکی کو بتاتی ہیں خوبصورتی سفید چمک میں ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ خوبصورتی احساس میں ہے اور رنگت، اس کا صرف ایک رنگ ہے، مکمل تصویر نہیں۔میں اس جولائی کے سفر کے بعد جان گئی ہوں۔ ہر چہرہ خوبصورت ہوتا ہے جب وہ خود کو قبول کر لے، خواہ وہ چینی ہو یا پاکستانی، سانولا ہو یا گورا۔جب میں شنگھائی سے ہانگژو کی طرف روانہ ہوئی تو راستے میں بارش شروع ہو گئی۔ کھڑکی کے پار نمی میں لپٹی کھیتیاں، ندیوں کے کنارے پر اٹھتی دھند، اور بجلی کے کھمبوں کے بیچ چمکتی روشنی۔ جیسے سب کچھ کسی فلم کا سین ہو۔ مگر میرے دل میں جو فلم چل رہی تھی، وہ حقیقت کی تھی۔اب تک میں سوشل میڈیا پر چینی خواتین کے چمکتے چہرے دیکھ چکی تھی ہر تصویر میں ایک جیسا سفید پن، ایک جیسی پرفیکٹ اسکن، جیسے سب نے ایک ہی فانڈیشن سے خود کو ڈھک رکھا ہو۔ مگر میں جانتی تھی کہ یہ صرف رنگت نہیں، یہ قبولیت کی جنگ ہے۔ میں اب ان کے ادھورے لمحے، دبے ہوئے جذبے، اورا سکرین سے باہر کی کہانیاں جاننا چاہتی تھی جہاں چمک نہیں، سچائی سانس لیتی ہے ہا نگژو میں میری ملاقات ہوئی لیو فینگ سے وہ ایک معروف بیوٹی انفلوئنسر تھی، جس کے ویڈیوز میں وہ روزانہ نیا میک اپ کرتی، تاْزہ کپڑے پہنتی، اور ہر بار کیمرے کے سامنے خوش دکھتی۔لیکن جس دن ہم ملے، وہ تھکی ہوئی تھی، اس کی آنکھوں کے نیچے حلقے تھے۔آج تم ویڈیو نہیں بنا رہیں؟میں نے پوچھا۔ وہ مسکرائی ایک بیرنگ مسکراہٹ، اور بولی آج میں بس جینا چاہتی ہوں۔ خود کو
دکھانا نہیں چاہتی۔میں چپ چاپ اس کے سامنے سے اٹھ گئی اور سوچتی رہی سوشل میڈیا نے ہمیں آواز دی، مگر کیا ہم نے خود کو کھو بھی تو نہیں دیا؟میں نے کئی خواتین کو دو الگ دنیا میں جیتے دیکھا۔ 1. سوشل میڈیا پر: پرکشش، ہنستی ہوئی، مکمل 2. حقیقی زندگی میں: تھکی ہوئی، سوال کرتی، خاموش میں نے ایک ماں کو دیکھا جو دن میں گھر میں جھاڑو دیتی، اور شام کو TikTok پر موٹیویشنل ویڈیوز بناتی ہے اس نے بتایالوگ کہتے ہیں میں انہیں حوصلہ دیتی ہوں اور مجھے لگتا ہے میں خود اندر سے ٹوٹ رہی ہوں۔یہ تضاد صرف چین کا نہیں، ہماری دنیا کی خواتین کا ہے جہاں ہم سچ سے زیادہ نظر آنے والے سچ کو اہمیت دیتے ہیں۔ایک نوجوان لڑکی، میئی لن جو ابھی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ روز صبح اٹھتے ہی ژیا وہونگ شو کھولتی ہے۔میں دیکھتی ہوں کہ باقی لڑکیاں کیا پہن رہی ہیں، کیا کھا رہی ہیں، کہاں جا رہی ہیں اور مجھے لگتا ہے میں پیچھے ہوں۔میں نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ ذہین تھی، سادہ تھی، مگر اپنے ہونے پر غیر مطمئن۔ یہی سب سے بڑا اثر ہے سوشل میڈیا کا:ہم وہ بننا چاہتے ہیں، جو ہم نہیں ہیں کیونکہ ہم وہ دیکھ رہے ہیں، جو حقیقت نہیں۔چین میں کئی خواتین نے سوشل میڈیا سے خود کو آزاد بھی کیا کاروبار کھولے، خیالات بیان کیے، عورتوں کے حقوق پر بات کی۔چن یان ایک فیمنسٹ پوڈکاسٹر ہے۔ اس نے مجھے بتایا:یہ پلیٹ فارم اب صرف بیوٹی یا پکوان کے لیے نہیں، ہم یہاں اپنے مسائل، اپنی زبان میں بیان کرتے ہیں۔لیکن جیسے ہی وہ معاشرتی یا خاندانی دباو پر بات کرتی ہے، کئی بار اس کے ویڈیوز سنسر ہو جاتے ہیں۔ہمیں سوشل میڈیا نے زبان دی ہے، مگر یہ زبان اگر زیادہ سچ بولے تو بند بھی کی جا سکتی ہے۔ یہ جملہ میرے دل میں چبھ گیا۔شہر کی چمک کے بعد، دیہی علاقے کی طرف اگر نظریں دوڑائی جائیں تو یہاں انٹرنیٹ تو ہے، مگر رفتار کم ہے۔مگر حیرت انگیز طور پر، یہاں بھی خواتین موبائل ہاتھ میں لے کر لائیو جا رہی تھیں ۔کبھی چاول بناتے ہوئے، کبھی سلائی کرتے ہوئے۔ہمیں لگا تھا ہم پیچھے رہ گئے، پر اب ساری دنیا ہمیں دیکھ سکتی ہے!ایک خاتون، جن کا نام آئی چن تھا، نے خوشی سے کہا۔یہاں سوشل میڈیا اظہار کا ذریعہ بنا، نہ کہ موازنہ یا مقابلہ۔یہ فرق میرے دل میں امید کی شمع روشن کر گیا۔سوشل میڈیا نے خواتین کو اظہار کی طاقت تو دی، مگر رشتوں سے دوری بھی دی۔ایک ماں نے کہامیری بیٹی میرے ساتھ کھانا نہیں کھاتی، وہ اپنے فالوورز کے ساتھ ورچوئل ڈنر کرتی ہے۔کیا ہم دکھانے کے چکر میں جینے سے غافل ہو چکے ہیں؟میں جب آئینے کے سامنے کھڑی تھی چہرہ تھکا ہوا، آنکھوں میں سوال تھا تو دل نے کہا۔سوشل میڈیا نے ہمیں دوسروں سے جوڑ دیا مگر کیا ہم خود سے بھی جڑے رہ گئے ہیں۔ یہ سفر اب محض ملکوں، شہروں یا چہروں کا نہیں رہا۔یہ ایک اندرونی تلاش ہے کہ عورت چاہے چین میں ہو یا کہیں اور، وہ سچ بولنے، خود کو پانے، اور سکون کی تلاش میں ہے۔سوشل میڈیا ایک آئینہ ہے کبھی حقیقت دکھاتا ہے، کبھی فریب۔چینی خواتین اب اپنی کہانیاں لکھ رہی ہیں کبھی وی لاگ میں، کبھی نظموں میں، کبھی خاموشیوں میں۔ ہمیں بس ان کی بات سننی ہے بغیر فِلٹر کے۔ مگر سوشل میڈیا سے ہٹ کر اگر مضافات کی خواتین کے بارے میں بات کی جائے تو ان کی آنکھوں میں، ان کے لبوں کی دراڑوں میں، ان کے سروں پر بندھے سادہ اسکارفوں میں، ان کی ہتھیلیوں کی خاموش لکیروں میں ایسی سچائیاں چھپی ہیں، جو کسی ویڈیو میں کیپچر نہیں ہو سکتیں، بس محسوس کی جا سکتی ہیں ۔ دل کی گہرائی سے، انسان کی آنکھ سے، عورت کی نظر سے۔ نِنگبو کے مضافات میں، میں ایک چھوٹے کپڑوں کے کارخانے گئی۔جہاں صبح چھ بجے کی سناٹے میں، عورتیں کام پر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک درمیانی عمر کی خاتون، لِن ژیا، مجھے دیکھ کر
مسکرائیں۔ ان کی مسکراہٹ تھکی ہوئی تھی، جیسے ہر مسکراہٹ کے پیچھے کئی سال کی خاموشیاں چھپی ہوں۔تم بھی صبح اتنی جلدی جاگ جاتی ہو؟ انہوں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔میں نے ہاں میں سر ہلایا، تو وہ ہنس پڑیں:چینی عورت کے پاس نیند کا وقت نہیں ہوتا، صرف ذمے داری ہوتی ہے۔یہ ایک سادہ سا جملہ تھا، مگر اس میں نہ جانے کتنے صدیوں کی محنت، قربانی، اور خاموش بغاوتیں چھپی تھیں۔ میں نے دیکھا، وہاں عورتیں مشینوں پر کام کر رہی تھیں، کچھ نے بچوں کو کندھوں پر باندھ رکھا تھا، کچھ کی آنکھوں میں نیند تھی، مگر ہاتھ تیز تھے۔میں سوچتی رہی کیا پاکستانی، بھارتی، ایرانی، افریقی عورتیں بھی ایسے ہی وقت کے ساتھ سمجھوتہ کرتی ہیں؟ یا یہ ایک عالمی کہانی ہے؟دو دن بعد، میں ایک مقامی یونیورسٹی کی کلاس میں گئی۔ وہاں نوجوان طالبات سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس، ہاتھوں میں موبائل، اور آنکھوں میں خواب وہ کچھ مختلف تھیں۔لیکن جب میں نے پوچھا۔ تم سب کیا بننا چاہتی ہو ؟ تو ایک لڑکی، یانگ لی نے آہستہ سے کہا۔آزاد۔یہ جواب کسی فلسفی کا قول نہیں تھا، بلکہ ایک دل کی فریاد تھی۔ اس نے بتایا کہ یہاں کی لڑکیوں پر اب بھی دادی، ماں، سسرال، اور معاشرہ اپنے اپنے قاعدے مسلط کرتا ہے ایک ہی وقت میں Traditional بھی بننا ہے اور modern بھی رہنا ہے اس کے لہجے میں وہی تھکن تھی، جو ہم گاوں کی لڑکیوں میں سنتے ہیںتم نے وہی پہننا ہے جو دادی کو پسند ہو، مگر لگنا فیشن ایبل ہے، تاکہ شہر والے قبول کریں یانگ نے ہنستے ہوئے کہا ۔ یہ دو چہروں کی زندگی بہت مشکل ہے ۔ میں نے اسے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں روشنی تھی، مگر وہ روشن صرف علم کی نہیں تھی وہ جنگ کی روشنی تھی۔ ایک عورت کی جنگ، جو بولتی نہیں، مگر روز جیتی ہے۔میں نے ایک اور خاتون کو دیکھا شنگھائی کی سب وے میں، ایک ماں، جو تین بچوں کے ساتھ تھی، اور ہر بچے کے چہرے پر اطمینان تھا۔ وہ خاتون تھکی ہوئی تھی، مگر کسی کو محسوس نہیں ہونے دے رہی تھی۔ میرے دل میں خیال آیاشاید ماں ہونا ایک عالمی زبان ہے چین ہو یا پاکستان، ماں کا تھکن میں بھی مسکرانا سب جگہ ایک جیسا ہوتا ہے۔مجھے ایک قصبے کی مٹیار لڑکی یاد آئی، جو اپنی دادی کے ساتھ ٹی وی پر چینی ڈرامہ دیکھتی تھی، جس میں مضبوط عورتیں، چٹانوں جیسی مائیں، اور ہنر مند بیٹیاں دکھائی جاتی تھیں۔ وہ لڑکی سوچتی تھی:کیا حقیقت میں چینی عورت اتنی طاقتور ہوتی ہے؟اب میں جانتی ہوں ہاں، وہ ہوتی ہے۔لیکن اس طاقت کے نیچے قربانی، درد، اور اپنی خواہشوں کو مار دینے کا ہنر ہوتا ہے۔اس شہر میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں تھا جس میں عورت کا عکس نہ ہو وہ ٹرین چلا رہی ہے، بینک میں کام کر رہی ہے، سڑک پار کرا رہی ہے، پرانے کھانوں کی خوشبو میں چھپی ہوئی ہے، اور مستقبل کی فیکٹریوں کی دیواروں میں چنی ہوئی ہے۔میں ایک شام زِن جھیل کے کنارے بیٹھی تھی اردگرد سکون، اور ہوا میں ہلکی نمی۔ ایک بوڑھی عورت میرے پاس آ کر بیٹھی۔ اس نے مجھے دیکھا اور کہابیٹی، ہم نے خاموشی میں جینا سیکھا ہے۔میں نے اس کے ہاتھ تھامے اور سوچایہ خاموشی، صرف چینی عورت کی نہیں یہ دنیا کی ہر عورت کی وراثت ہے یہ سفر صرف چین کی سڑکوں، بازاروں یا عمارتوں کا نہ تھا یہ ایک خاتون کی آنکھ سے ایک اور خاتون کو دیکھنے کا سفر تھا۔ مجھے لگا، زبان، نسل، یا لباس جتنا بھی مختلف ہو دِل ایک جیسے دھڑکتے ہیں۔چینی عورت اپنی روایات کی ڈور تھامے، جدیدیت کے کنارے پر چلتی ہے کبھی کبھی تھک جاتی ہے، رکتی ہے، لیکن گرتی نہیں۔ اور یہی اس کی اصل طاقت ہے۔میں نے اس لڑکی کی آنکھ میں نہ صرف خواہش دیکھی، بلکہ ایک ایسی ہنسی دیکھی جو صدیوں کے رنج پر بھی بھاری تھی۔چینی خواتین کے لیے سوشل میڈیا آزادی کا دروازہ بھی ہے، اور قید کا آہنی جنگلہ بھی۔جہاں وہ آواز پا رہی ہیں، وہیں اپنے آپ کو مسلسل دکھانے کے دباو میں تھک بھی رہی
ہیں۔ ایک چھوٹا وی لاگ شاید ان کی خوشی کا ذریعہ ہے، مگر کبھی کبھار وہی اسکرین اصل زندگی سے پردہ ڈال دیتی ہے۔جولائی کی وہ رات، جب میں ہوٹل کی کھڑکی سے شنگھائی کی نیون لائٹس کو دیکھ رہی تھی، دل نے ایک بات کہی ہم سب عورتیں، چاہے چین میں ہوں یا پاکستان میں، اب صرف خود کو آئینے میں نہیں، اسکرین پر دیکھنے کی عادی ہو گئی ہیں۔مگر شاید سب سے خوبصورت لمحہ وہی ہوتا ہے جو کیمرے کے پیچھے ہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں