تین دوست اور اسرائیلی جارحیت تحریر سرور غزالی

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں اور کسی حد تک خوش مزاج اور متعلون مزاج بھی ہیں کہ ان کی گفتگو سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ وہ جو بات کہہ رہے ہیں وہ مذاق ہے یا وہ پوری سنجیدگی سے کہہ رہے ہیں۔ وہ درحقیقت ایک مکمل سیاست دان ہیں جو اپنے دل کی بات زبان پر نہیں لاتے اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اس پر ان کے عمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا۔ عمومی تاثر ان کا یہی ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے سیاست دان ہیں جو اپنی سیاست کو درحقیقت اپنی تجارت کے فروخ کے لیے ہی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ بلا شبہ وہ ایک کامیاب بزنس مین ہیں اور ان کی امریکی صدارت کے عہدے تک کامیابی سے پہنچنا، دراصل ان کی ذاتی دولت اور تجارتی تعلقات کی ہی مرون منت ہے۔
ویسے تو ساری دنیا کے سیاستدانوں کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے، اور سیاستدانوں کی تعریف میں وہ تمام حکمران، ارب اقتدار اور وہ تمام لوگ شامل ہیں جن کے پاس کسی طرح کی طاقت، اثرورسوخ یا حکومت ہو، خواہ سویلن ہوں یافوجی طاقت کے حامل۔۔۔ تو بات ہو رہی تھی سیاستدانوں کی، سیاستداں جب جھوٹ بولیں تو یہ مصلحت، اگر وہ غلط فیصلے کریں تو یہ ان کے مشیروں کا قصور، کرپشن کریں تو تجارت وغیرہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر ٹرمپ صاحب کا مقام سیاستدانوں میں سب سے اعلی ہے۔ وہ اپنی کمزوریوں کو اپنے مخالفین کے خلاف بطور یتھیار نہایت کامیابی سے استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مداحوں اور چاہنے والوں سے یہ وعدہ لیا ہے کہ وہ اپنے عہد میں امریکہ کو کسی نئی جنگ میں نہیں ملوث ہونے دیں گے یہاں پر یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ وہ وائٹ ہاؤس میں اپنی رہائش کو ایک سفید فارم صدر کا حق کے مانتے ہیں اور ان کا وعدہ کسی جنگ میں ملوث نے کا بھی کچھ ایسا ہے کہ وہ ایسا صرف لیے چاہتے ہیں یا یہ وعدہ انہوں نے صرف اس لیے کیا ہے کہ وہ امن کا نوبل پرائز حاصل کرنے کے شدید خواہش مند ہیں۔ مزےکی بات یہ ہے کہ ان کے اس مشن میں ساتھ دینے والے بھی سیاست دان ہی ہیں۔ کوئی پوچھے کہ کپیٹول پر حملے، کسی خاتون پر جنسی حملے وغیرہ کے الزامات میں ملوث افراد بھی کیا ایسے کسی انعام کے حقدار ٹہرائے جاسکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی دوست جن کا خود اپنا ہی دعوی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ان کے بہت اچھے اور قریبی دوست ہیں نیتنیاہو ہیں۔ نیتنیاہو اسرائیل کے وہ موجودہ وزیراعظم ہے جنہوں نے انسانیت جمہوریت اور اخلاق کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ اسرائیلی جاہریت جو کہ اج بھی غزا اور اس کے گرد نواح میں جاری ہے پر ساری دنیا میں مذمتی بیان اور قراردادیں پیش اور منظور کی جا رہی ہیں لیکن نتنیاہو اور ان کے دوست ٹرمپ اپنی بات پر ہی اڑے ہوئے ہیں کہ حماس کی دہشت گردی کا خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے وہ جن علاقوں میں حماس کی تلاش اور تلاش کے بہانے سے فلسطینی نہتے کمزور اور مجبور عورتوں بچوں اور بوڑھے افراد پر بمباری کر رہے ہیں وہ علاقہ تقریبا 80 فیصد تباہ ہو چکا ہے۔ تمام مطالبات اور قرارداد کے باوجود دنیا تماشائی بنی سب کچھ دیکھ رہی ہے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ ایسے میں ذہن میں یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا دنیا میں ہونے والے اس سے پہلے کے تمام جنوسائیڈ پر دنیا یوں ہی خاموش تماشہ دیکھا کرتی رہی ہے۔ ویتنام کی جنگ ہو، کشمیر میں قتل و غارت گری ہو بوزنیا میں یا سابقہ مشرقی پاکستان میں، دنیا نے کبھی بھی ایسے جنگی اور انسانیت سوز جرائم کے سلسلے میں کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا۔ انسانوں کا خون بہتا رہا اور کچھ عرصے بعد لوگ اسے بھول بھال گئے۔ لیکن اس بربریت اور ناانصافی کا کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی دن حل تو نکلے گا اور یہ سارے خوبصورت لوگ جو خوش لباس اور خوش اخلاق کہلائے جاتے ہیں، دنیا کی عنان حکومت ان کے ہاتھوں میں ہے ایک نہ ایک دن ضرور انصاف کے کٹہرے میں کھڑے نظر ائیں گے اور دنیا کو یہ معلوم ہو چکا ہوگا کہ ظلم اور بربریت عرصے تک قائم نہیں رہ سکتی۔
یورپین یونین میں بھی اس سلسلے میں پھوٹ پڑ چکی ہے اور ایک کے بعد ایک ملک فلسطین کے حق میں بول رہے ہیں اور اب فرانس نے فلسطین کو بحیثیت ملک کے تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اج یورپین یونین کی طرف سے اسرائیل کی جاریہ کے جواب میں، اسرائیل پر کچھ معاشی پابندی لگانے کی باتیں ہوئی ہیں لیکن قسمتی سے اوپر دونوں متذکرہ دوستوں کے ایک اور دوست جرمنی کے چانسلر مسٹر میرز ہیں، جنہوں نے اقوام عالم کے تقریبا 128 ممالک کی قرارداد میں، جس میں جاریت کی مذمت کی گئی ہے، شمولیت سے انکار کر دیا ہے اور انہوں نے اس پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا اسرائیل کی رویے پر تنبیہ کرنا ہی کافی ہے۔ جب کہ ساری دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل کی دہشت گردی تمام مطالبات سے مبرا اج بھی جاری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں