پرتگال کا وینس ۔ اویورو ….ارم زہرا

‎چین کے بارانی آسمانوں کے نیچے سے اُٹھ کر پرتگال کی نیلے آسمانوں والی سرزمین تک پہنچنے کا سفر، گویا ایک رنگین خواب کی سی تعبیر ہے۔ میں اور میرے ہمسفر جو پیشے کے تقاضے سے چین میں اپنے روز و شب بسر کرتے ہیں، اپنے دل کا اک گوشہ ہمیشہ پرتگال میں چھوڑ آتے ہیں۔اویورو، جہاں ہمارا گھر ہے ۔ جہاں ہوا میں نمکین سمندر کی مہک ہے، اور گلیوں میں وقت ٹھہرا رہتا ہے۔ اس بار جب ہم چین سے روانہ ہوئے تو دل میں بےچینی تھی اور ایک عجیب سی اپنائیت کی پیاس، جو صرف اویورو کی شامیں ہی بجھا سکتی ہیں۔
‎جہاز کی کھڑکی سے دیکھتے دیکھتے جب پہاڑوں کی زنجیریں پیچھے رہ گئیں، اور بحرِ اطلس کی وسعتیں نظر آنے لگیں، تو دل میں ایک مانوس سا نغمہ گونجا۔ اپنے گھر جانے کی خوشی جیسا۔۔۔
‎لیسبن میں قدم رکھتے ہی ہم نے ٹرین لی اویورو کے لیے۔ ٹرین کا سفر میرے لیے ہمیشہ ایک ادبی تجربہ رہا ہے، جیسے وقت کے ساتھ ساتھ لمحے بھی دوڑ رہے ہوں۔ اویورو کا ٹرین اسٹیشن ایک قدیم مگر شائستہ خوبصورتی لیے ہوئے ہے۔ سفید دیواروں پر نیلے
azulejos
‎ روایتی پرتگالی ٹائلز
‎کا کام، جیسے کوئی شاعر اپنی نظم کو بند ٹائلوں میں قید کر کے بھول گیا ہو۔ ان ٹائلوں پر اویورو کی پرانی جھلکیاں ماہی گیروں کی کشتیاں، خواتین کی رنگین چادریں، اور بازاروں کی زندگی نقش کی گئی ہیں۔
‎میں نے پہلی بار وہ ٹائلز چھو کر محسوس کیا کہ یہ صرف آرٹ نہیں، یہ یادیں ہیں۔ اویورو کا ریلوے اسٹیشن گویا کسی قدیم کتاب کا ورق ہو جیسے ایک ٹھہری ہوئی زندگی ہو جو سانس بھی لیتی ہے۔ “یہ اسٹیشن صرف منزل نہیں، ماضی کا دریچہ ہے۔”
‎ہم جب پلیٹ فارم سے اترے تو ہوا میں سمندر کی نمی، کچھ پرانی خوشبوؤں اور گلیوں کی آوازوں کے ساتھ لپٹ گئی۔ ہر قدم پر ایک احساس تھا کہ ہم صرف واپس نہیں آئے، بلکہ شہر نے ہمیں پہچان لیا ہے
اویورو میں گھومتے ہوئے بارہا ایک عجیب سا احساس ہوتا ہے ۔جیسے یہ شہر صرف “آج” میں نہیں بستا، بلکہ “کل” کو بھی اپنے دامن میں سنبھالے بیٹھا ہے۔ ہر عمارت، ہر پل، اور ہر گلی کے نیچے مٹی کی تہوں میں صدیوں کی گرد چھپی ہے اور اگر آپ رُک کر سنیں، تو وہ گرد کچھ کہتی ہے۔
ایک دن، میں اپنے شوہر کے ساتھ Museu de Aveiro سے نکل رہی تھی کہ سامنے ایک پرانی عمارت کی چھت سے پرندے اڑے۔ ہوا میں پر پھڑپھڑائے، اور ایک سناٹا چھا گیا۔ میں نے بےاختیار کہا،
“یہ شہر خاموش نہیں… یہ بس آہستہ بولتا ہے۔”
ہم وہیں ایک بینچ پر بیٹھ گئے، اور میرے شوہر نے ہلکے لہجے میں پوچھا،
“تمہیں پتہ ہے، اویورو کی تاریخ کہاں سے شروع ہوتی ہے؟”
میں نے مسکرا کر کہا، نہیں آپ بتائیں ۔۔۔۔
اویورو کی نہریں، گلیاں، اور سفید و نیلے ٹائلوں سے سجی عمارتیں بظاہر صرف پرتگالی تہذیب کی کہانیاں سناتی ہیں۔ مگر اگر آپ خاموشی سے ان گلیوں سے گزریں، وقت کی سانسوں کو سنیں، تو کہیں نہ کہیں اندلس کی سرگوشی سنائی دیتی ہے۔
تاریخی لحاظ سے، پرتگال کا بیشتر جنوبی و وسطی علاقہ (جسے اسلامی دور میں “غرب الأندلس” کہا جاتا تھا) آٹھویں صدی سے پندرہویں صدی کے درمیان مسلمانوں کے زیرِ اثر رہا۔ اویورو براہِ راست کسی بڑے اسلامی مرکز کا درجہ نہیں رکھتا تھا، مگر یہ شہر اندلس کی شمالی سرحد کے قریب واقع تھا ۔ جہاں تجارتی راستوں سے اسلامی اثرات پہنچے ۔ یہاں آرکیٹیکچر اور ٹائل سازی (Azulejos) میں عرب-اسلامی اثرات واضح ہیں
اویورو کی کئی عمارتوں میں استعمال ہونے والے نیلے ٹائل اصل میں عرب-مسلم روایت سے ماخوذ ہیں۔ لفظ Azulejo بھی عربی کے “الزلیج” سے آیا ہے، جس کا مطلب ہے “چمکتا پتھر” یا “ٹائل”۔
یہ فن مسلمانوں نے اسپین اور پرتگال میں متعارف کرایا تھا، اور آج بھی یہ پورے پرتگال خاص طور پر اویورو کی شناخت بن چکا ہے۔
اویورو میں کوئی قدیم مسجد یا واضح مسلم آبادی کے آثار محفوظ نہیں رہے، کیونکہ 1249ء کے بعد پرتگال نے زیادہ تر مسلم علاقے واپس لے لیے ۔ Reconquista کے دوران مسلمانوں کو نکالا یا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں جیسے اویورو میں اسلامی موجودگی مٹ گئی مگر…
آثار باقی ہیں در و دیوار میں، زبان کے الفاظ میں، اور ذوق میں۔
یہ شہر شاید اسلامی تاریخ کا نمایاں باب نہ ہو، مگر یہ اُن صفحوں کا کنارہ ضرور ہے، جن پر تہذیب نے اپنے خواب تحریر کیے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ اویورو کی باقاعدہ بنیادیں رومی سلطنت کے زمانے میں پڑیں، جب یہ ایک چھوٹا سا ماہی گیروں کا گاؤں تھا۔ یہاں کے لوگ سمندر سے رزق نکالتے، نمک بناتے، اور نرم ہواؤں کے ساتھ خواب بُنتے تھے۔لیکن وقت بدلتا ہے، اور سمندر بھی…
چودھویں صدی میں اویورو ایک اہم بندرگاہ بن گیا۔ یہاں سے نمک، مچھلی، اور اون پورے یورپ میں جاتا تھا۔ گلیوں میں عرب تاجروں کی آوازیں گونجتی تھیں، اور ہواؤں میں نیوٹرلز اور پرتگیزی بولیوں کی آمیزش سنائی دیتی تھی۔
پھر آیا وہ وقت جو کئی ساحلی شہروں پر آیا ۔سترہویں صدی میں شدید طوفان نے شہر کے سامنے کا سمندر بند کر دیا۔ نہر جو شہر کو کھلے سمندر سے جوڑتی تھی، وہ ریت سے بھر گئی، اور اویورو، جو کبھی ایک مصروف بندرگاہ تھا، تنہائی کا شکار ہو گیا۔شہر کی سانس جیسے رک گئی۔
مگر اویورو نے ہار نہیں مانی ۔ مقامی لوگوں نے، انجینیئرز نے، اور یہاں کی عورتوں نے مل کر شہر کو بچانے کی مہم شروع کی۔ نہریں دوبارہ بنائی گئیں، بندرگاہ کا راستہ کھولا گیا، اور شہر نے خود کو ایک نئے رنگ میں رنگ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اویورو کو “پرتگال کا وینس” کہا جاتا ہے کیونکہ اس نے پانی سے تعلق ٹوٹنے کے بعد، پانی کو اپنی پہچان بنا لیا۔
اویورو کی تاریخ صرف عمارتوں اور سمندر کی نہیں، ایک عورت کی بھی ہے ۔ شہزادی جوآنا۔ پندرھویں صدی کی یہ پرتگالی شہزادی، بادشاہ الفونسو پنجم کی بیٹی تھی۔ اسے تخت و تاج، محل اور اقتدار دیا گیا، مگر اس نے سب چھوڑ کر اویورو کے
‏ Convento de Jesus (جو اب Museu de Aveiro ہے) میں راہبہ بننے کا فیصلہ کیا۔
کہتے ہیں کہ وہ نہایت نیک، نرم دل اور خدمت گزار خاتون تھی۔ وہ غرباء کو کھانا دیتی، بیماروں کی دیکھ بھال کرتی، اور شہر کے لیے دُعائیں کرتی۔ اس کی قبر آج بھی اس میوزیم میں ہے ۔ ایک خاموش گواہ اس عورت کی، جس نے دنیا کو چھوڑا، مگر اویورو کو امر کر دیا۔
اویورو نے پرتگال کے سیاسی اتار چڑھاؤ بھی دیکھے۔ 1834 کی لبرل جنگوں کے بعد جب خانقاہیں بند ہوئیں، شہر نے خود کو نئے انداز میں ڈھالا۔ پھر 1910 میں جب پرتگال ایک جمہوریہ بنا، تو اویورو نے تعلیم، فن، اور زراعت میں اہم کردار ادا کیا۔
آج یہاں کی یونیورسٹی Universidade de Aveiro ملک کی بہترین جامعات میں شمار ہوتی ہے، جو سائنس، ماحولیات اور فنون میں تحقیق کا مرکز ہے۔اور ہاں، یہی یونیورسٹی اس نہر کے قریب واقع ہے جہاں میں نے پہلی بار اپنی آواز کو پانی میں گونجتے سنا تھا۔ ہسبینڈ جی نے جذباتی انداز میں کہا۔
“اچھا اب تو یہ شہر کچھ کچھ میرا بھی ہے “ میں نے شوخی سے کہا ۔ پرتگال خود بھی ایک پرانی نظم ہے ۔ فاطمہ کی تقدیس، لیسبن کی بلندیاں، پورٹو کی شراب، اور اویورو کی نہریں… ہر شہر ایک مصرع، ہر گاؤں ایک تشبیہ۔ اویورو کا کمال یہ ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا شہر ہوتے ہوئے بھی، ایک بڑی تاریخ اپنے سینے میں رکھتا ہے۔
یہاں کی ٹائلیں (Azulejos) صرف رنگ نہیں، داستانیں ہیں۔
یہاں کی فیری صرف سواری نہیں، وقت کی کشتی ہے۔
اور یہاں کے ربن بندھے پل صرف تصویریں نہیں، انسانوں کے دل کی گرہیں ہیں۔
اویورو کا ذائقہ اس کی فضا میں گھُلا ہوا ہے، لیکن اگر اس شہر کی روح کو چکھنا ہو، تو اویورو کی فِش کا ذائقہ چکھنا لازم ہے۔ ہم سیدھے شہر کے مرکزی حصے میں واقع ایک چھوٹے سے، مگر قدیم ریستوران میں گئے، جہاں لکڑی کی میزیں اور دیواروں پر ماہی گیری کے مناظر ٹنگے ہوئے تھے۔یہ شہر کی سب سے مشہور گلی، Rua dos Combatentes da Grande Guerra تھی ۔ اس گلی میں وہ ریستوران واقع ہے جس کا نام ہے “Fado na Praça” ایک چھوٹی سی جگہ، جہاں چکنے فرش، پرانی لکڑی کی کرسیاں اور زیتون کی خوشبو کے ساتھ پرتگالی موسیقی کی دُھنیں گونجتی رہتی ہیں۔
ہم نے “Bacalhau à Brás” منگوایا ۔ نمکین مچھلی، انڈہ، آلو کے باریک چپس اور زیتون۔ ہر نوالے میں ایک کہانی چھپی ہوئی تھی۔ سلاد، جو لیموں، زیتون اور ہرے دھنیے کے ساتھ آیا، وہ جیسے سمندر کے سینے سے نکلی کوئی پرانی دعا ہو۔
“باکالہاؤ” پرتگال کی معروف مچھلی، جو نمکین کر کے محفوظ کی جاتی ہے ۔ اس کو جب پیاز، زیتون، اور آلو کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، تو وہ کسی افسانے کا ذائقہ بن جاتی ہے۔ میں نے پہلی بار اس ڈش کو محسوس نہیں کیا، سُنا۔ جی ہاں، ذائقے کی وہ شدت کہ جیسے کسی نے میر کا شعر زبان پر رکھ دیا ہو۔ ہر نوالہ ایک داستان، ہر ذائقہ ایک یاد۔
اور وہ سلاد ٹونا فش پیاز ، ٹماٹر اور پنیر زیتون کے تیل میں ڈوبا ہوا، ہلکے مصالحے، اور تازگی کا وہ عالم کہ مجھے یوں لگا، جیسے میں سمندر کی کسی لہر کو چکھ رہی ہوں۔
میری نظر ساتھ والی میز پر ایک معمر جوڑے پر پڑی۔ وہ خاموشی سے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے کھا رہے تھے۔ مجھے لگا جیسے وقت ان کے لیے تھم گیا ہو۔ جیسے اویورو ان کی محبت کا گواہ ہو ۔
‎اگلے دن ہم سمندر کی طرف نکلے۔
ساحل پر پہنچتے ہی سامنے وہ رنگ برنگے لکڑی کے گھر نظر آئے جنہیں دیکھ کر آنکھیں پلکیں جھپکنا بھول جائیں۔ سرخ و سفید، نیلا و پیلا، سبز و نارنجی ہر گھر جیسے بچوں کے کسی خواب سے نکلا ہو۔
یہ وہی Costa Nova ہے، جو پرتگال کے مشہور ترین ساحلی علاقوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہاں کے یہ رنگین مکانات دراصل پرانے مچھیروں کے گھر تھے، جو سمندر سے واپس آتے ہوئے دور سے پہچانے جا سکیں اب یہ علاقہ سیاحت کی پہچان ہے۔
ہوا میں سمندر کی نمکین خوشبو تھی، اور دور دور تک پھیلا ہوا Atlantic Ocean کا نیلا بدن جیسے کسی دیو قامت پرانی داستان کا مرکزی کردار۔
میں نے جوتے اتارے، اور ننگے پاؤں ریت پر چلنے لگی۔ ریت سنہری نہیں تھی، بلکہ ایک ہلکی سی خاکستری، جیسے کسی بہت پُرانی کتاب کا پہلا صفحہ۔ یہاں سے ہم Praia da Barra گئے، جو اویورو کا دوسرا مشہور ساحل ہے۔
یہاں پرتگال کا سب سے اونچا لائٹ ہاؤس واقع ہے Farol da Barra جو 62 میٹر بلند ہے، اور 19ویں صدی میں بنایا گیا تھا۔
یہ روشنی کا مینار صدیوں سے بحری جہازوں کو راستہ دکھاتا آیا ہے۔
میں نے اُسے دیکھ کر دل میں سوچا، “کاش ہر مسافر کی زندگی میں بھی کوئی ایسا مینار ہو، جو اندھیروں میں راستہ دکھاتا رہے…”
ساحل پر بچے ریت سے قلعے بنا رہے تھے، نوجوان سرفنگ کر رہے تھے، اور بزرگ جوڑے دھوپ میں ہاتھ تھامے چہل قدمی کر رہے تھے۔
وہاں سب کچھ مکمل تھا سوائے وقت کے۔ کیونکہ وقت وہاں رک گیا تھا۔
میں دیر تک ساحل پر بیٹھی، سمندر کی لہروں کی آواز سنتی رہی۔
وہ شور نہیں تھا وہ ذکر تھا۔جیسے صدیوں سے کوئی گمشدہ دعا ان لہروں میں بہتی آ رہی ہو۔مگر میرا دل سمندر میں ہچکولے کھاتا کراچی کے ساحل پر پہنچ گیا اور مسکراہٹ میرے لبوں پر آگئ میں نے آنکھیں بند کرکے دعا مانگی جلد اپنے وطن پاکستان لوٹنے کی ۔
‎اویورو میں شام وقت سے پہلے اترتی ہے۔ نیلے آسمان پر نارنجی چادر لپیٹتی ہے، اور پانی اپنے عکس میں آسمان کو قید کر لیتا ہے۔ ہم ساحل کے کنارے بیٹھے تھے، میں ریت پر انگلی سے کچھ بےمعنی لکیریں کھینچ رہی تھی، اور میرے شوہر کنارے سے پتھر پانی میں پھینک رہے تھے اور ہمارے طویل سفر کی تھکن غروب ہوتا سورج سمندر میں اتار رہا تھا ۔
‎اویورو کو “پرتگال کا وینس” کہا جاتا ہے، اور یہ مبالغہ نہیں۔ یہاں کی نہریں، جن پر رنگین گوندولاز (جسے مقامی طور پر
moliceiros
‎ کہا جاتا ہے) دوڑتی ہیں، ایک نرمی سے آپ کو کسی اور دنیا میں لے جاتی ہیں۔
‎ہم دونوں ایک فیری پر سوار ہوئے، جو پرانے شہر کی نہروں سے گزرتی ہوئی، ہمیں ماضی کی گلیوں میں لے جا رہی تھی۔ ہر طرف پانی میں رنگوں کا عکس پیلا، نیلا، نارنجی جیسے سورج نے اپنی کینوس کو یہاں چھوڑ دیا ہو۔ گوندولا کے ملاح نے ہمیں تاریخی جگہوں کے بارے میں بتایا، مگر میری نظر اس پانی پر ٹکی رہی، جہاں عمارتوں کا عکس، کشتی کا سایہ، اور ہمارے چہرے ایک دوسرے میں گھل مل گئے تھے۔
‎یہ رنگ برنگی کشتیاں، جن پر عورتوں، مرغیوں، اور شاعرانہ فقروں کی تصویریں بنی ہوتی ہیں، نہ صرف سیاحوں کی سواری بلکہ مقامی تاریخ کا آئینہ بھی ہیں۔
‎فیری جب پانی میں ہلکی سی جھولتی ہے، تو لگتا ہے جیسے آپ کسی خواب میں داخل ہو گئے ہوں۔ نہریں شہر کی گلیوں کی طرح ہیں کچھ تنگ، کچھ کشادہ، مگر سب کی اپنی اپنی خوشبو۔ ہمارا ملاح ایک بزرگ عورت تھی ، جس کے ہاتھوں میں دراڑیں تھیں، مگر آنکھوں میں چمک۔ اس نے بتایا کہ اس کا شوہر بھی کبھی ماہی گیر تھا۔ اب وہ پانیوں سے نہیں، یادوں سے مچھلیاں پکڑتی ہے۔
‎“یہ نہریں بس پانی نہیں، دعائیں بھی لے جاتی ہیں،” اس نے کہا۔ میں نے پانی کو غور سے دیکھا ۔ کیا واقعی ان میں کسی کا خواب بہہ رہا ہے ؟
اویورو کی کشش اس کے بازاروں میں بھی ہیں ۔
‎ہم بازار کی طرف چلے جہاں چھوٹی چھوٹی دکانوں میں ، ہاتھ سے بنی اشیاء، کپڑوں پر روایتی کڑھائیاں، اور مٹی کے برتنوں پر نقش و نگار نظر آئے۔ ایک چھوٹے سے سٹال پر ایک بڑھیا بیٹھی تھی، جو ہاتھ سے بنے azulejos
‎ٹائلز بیچ رہی تھی۔
‎میں نے ایک نیلا ٹائل خریدا جس پر ایک ماہی گیر اور عورت کی تصویر بنی تھی ماہی گیر شاید سمندر میں کھو گیا ہو، اور وہ عورت برسوں سے اسے یاد کر رہی ہو۔
“Museu de Aveiro” ہم نے
‎کا بھی دورہ کیا، جو کبھی ایک کانوینٹ (راہباؤں کا مسکن) تھا۔ اس میں موجود سینٹ جوآنا کی قبر جو خود اویورو کی شہزادی تھیں ۔سادگی اور تقدس کا مرقع تھی۔ وہاں خاموشی تھی، مگر دیواروں سے صدیوں کی سانسوں کی آہٹ آ رہی تھی۔
‎قریبی چرچ،
Igreja de Jesus،
‎میں داخل ہوتے ہی وہی احساس ہوا جو کسی فارسی غزل کے مطلع کو پڑھ کر ہوتا ہے ۔حسن اور تقدس کا امتزاج۔ سونے کا کام، سنگ مرمر کی ستونیں، اور شیشوں کی تصویریں، جیسے کسی ماضی کے خواب میں قدم رکھ دیا ہو۔ مرمریں فرش، لکڑی کی چھتیں، اور دیواروں پر صدیوں پرانے نقوش ۔۔۔یہاں کلیسا میں داخل ہوئے تو اندھیرے میں شمعیں جل رہی تھیں۔ گرجے کی دیواروں پر سونے کا کام، محرابیں، اور شیشے کی تصویریں سب کچھ ایسا تھا کہ آپ خود کو کسی مقدس فلم کے منظر میں پاتے ہیں یا یہ سب کسی ناول کی طرح تھے جسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔
‎میرے قدم بےاختیار آہستہ ہو گئے۔ میں دیر تک وہیں کھڑی رہی جیسے تاریخ کی کوئی بھولی بسری یاد واپس لوٹ رہی ہو۔لوگ یہاں آنکھیں بند کئے ہاتھ جوڑے اپنی دعائیں مانگ رہے تھے اور میں کلیسا کے نہیں کائنات کے رب کو یاد کرہی تھی ۔
‎شام کو ہم نے ساحل پر کھانا کھایا۔ نمکین ہوا، قریب آتی لہریں، اور ٹھنڈی روشنی میں رکھے ہوئے زیتون، پنیر، اور مقامی کافی گلاؤ کا امتزاج ۔ اویورو کی شاموں میں وقت رک جاتا ہے۔ ہم بولتے نہیں، صرف دیکھتے ہیں، سنتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں۔
ہم اکثر سفرناموں میں تاریخ اور جغرافیے کو تو یاد رکھتے ہیں، مگر جو چیزیں ہماری یادداشت میں مٹھاس بن کر گھل جاتی ہیں وہ اکثر چھوٹے دکانوں کی کھڑکیوں میں رکھی ہوتی ہیں۔ اویورو کی ایک گلی جو بظاہر روزمرہ کی طرح عام سی لگتی ہے وہاں ایک مخصوص خوشبو چھپی ہے۔ ایک ایسی خوشبو جو بچپن کی خوشبو سے مشابہ ہے۔ گرم دودھ، شہد، اور نرم مکھن جیسی۔
اُسی گلی کے کنارے ایک چھوٹی سی بیکری ہے جس کا نام مجھے یاد نہیں، مگر اس کی کھڑکی میں سجے ہوئے مٹھائیوں کے ڈھیر آج بھی میری آنکھوں میں نقش ہیں۔ کھڑکی کے اندر، گنے ہوئے خواب جیسے رکھے تھے: بادام سے بھرے پیسٹری، انڈے کی زردی سے چمکتے ہوئے ٹارٹس، اور سب سے نمایاں اووس مولیش۔
یہ پرتگال کی خاص مٹھائی ہے، جو انڈے کی زردی اور چینی سے تیار کی جاتی ہے، اور ایویورو اس کے لیے مشہور ترین شہر ہے۔ لیکن یہاں یہ صرف مٹھائی نہیں، ایک ثقافتی علامت ہے۔ یہاں کے لوگ اووس مولیش کو محض کھانے کی چیز نہیں سمجھتے، بلکہ محبت، اپنائیت اور مہمان نوازی کا پیغام مانتے ہیں۔
میں نے شیشے کے شو کیس میں ایک چھوٹا سا ڈبہ دیکھا ۔ جس پر نرم ریشمی ربن بندھا ہوا تھا۔ ربن گلابی، نیلا، اور زرد تھا جیسے کسی خوش خط ہاتھ نے بچپن کو سجا کر پیش کیا ہو۔ اُس ربن کے نیچے چھوٹے چھوٹے سیپیوں کی شکل کے مٹھائی رکھے تھے۔ وہ سیپ جیسے کسی ماہی گیر کی یاد، کسی لڑکی کی پہلی دعا، یا کسی بزرگ کی آخری میٹھی بات کو اپنے اندر چھپائے ہوئے ہوں۔
دکان دار خاتون، جو عمر رسیدہ تھیں اور جن کے چہرے پر دھوپ کے نرم سائے تھے، نے ہمیں ایک چھوٹا سا ڈبہ دیا۔ “یہ شہر کی روح ہے،” انہوں نے پرتگالی میں کہا، “دل کے ساتھ کھائیے گا۔
یہ بات مجھے ہمیشہ سے دلچسپ لگتی ہے کہ اویورو شہر میں زندگی کی نبض عورتوں کے ہاتھ میں ہے۔ نہر کے کنارے بیٹھے میں نے اردگرد نظریں دوڑائیں، تو جہاں بھی دیکھا، کسی عورت کی موجودگی نے شہر کو سنوار رکھا تھا۔
ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹ کاؤنٹر پر کھڑی ایک ادھیڑ عمر خاتون، جو ہر مسافر سے یوں بات کرتی جیسے وہ برسوں کی شناسا ہو۔
پھر وہ کیفے، جہاں ایک جوان لڑکی نہ صرف کیشیئر تھی، بلکہ بارش میں باہر نکل کر میزیں سمیٹ رہی تھی، اور مسکرا کر “بوم دیا!” کہہ رہی تھی۔
بازار میں وہ بڑھیا، جو ovos moles کو ربنوں میں باندھ رہی تھی، جیسے وقت کو گفٹ پیک کر رہی ہو۔
ایک دکان میں داخل ہوئے تو دیکھا ۔مالک بھی عورت، اکاؤنٹس بھی، گاہک سے بحث بھی، اور آخر میں “obrigada” کہہ کر وہی عورت شاپنگ بیگ بھی تھما رہی تھی۔
دفاتر کی کھڑکیوں میں، بینک کے استقبالیے پر، حتیٰ کہ فیری کی ٹکٹ بکنگ پر بھی ہر جگہ عورتیں ہی تھیں۔
مجھے لگا، یہ شہر صرف عورتوں سے آباد نہیں، ان کے ہاتھوں سے سنوارا گیا ہے۔ جیسے انہوں نے نہر کے پانی، گلیوں کی خوشبو، اور بازاروں کی روشنی کو اپنے نرم مگر مضبوط ہاتھوں سے ترتیب دیا ہو۔
اور میں نے دل میں سوچا،
“یہ اویورو ہے… یہاں عورتیں صرف زندہ نہیں، زندگی چلاتی ہیں۔”
اویورو کی گلیوں میں دیواریں خاموش نہیں، رنگین ہیں ہر موڑ پر کوئی پینٹنگ، کوئی شکل، کوئی خیال سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے فن نے اینٹوں کو چھو کر انہیں یادداشتوں کی کتاب بنا دیا ہو۔
اسٹریٹ آرٹ یہاں صرف تصویریں نہیں، احساس ہیں بعض دیواروں پر چہروں کی وہ جھلکیاں نظر آتی ہیں، جو شاید کبھی ان گلیوں میں جیا کرتے تھے… یا اب بھی کسی رنگ میں زندہ ہیں۔
اویورو کی گلیوں میں جب سورج شام کے کنارے پر چلنے لگے، تو روشنی بھی کچھ اور ہو جاتی ہے۔ ہم اُس دن کچھ بے مقصد، کچھ بے پرواہ گھومتے گھومتے ایک چھوٹے سے پل تک آ نکلے، جو نہر کے پار دو کناروں کو ملاتا ہے ایک طرف جدید کیفے، دوسری طرف پرانی عمارات۔ مگر پل خود… جیسے کسی کہانی کی درمیان کی سطر ہو۔
یہ کوئی عام پل نہیں تھا۔ اس کی ریلنگ پر رنگین ربن بندھے تھے سرخ، نیلے، سبز، گلابی، پیلے، نارنجی جیسے کسی بچی کے خوابوں کی گٹھری کھل گئی ہو۔
اس پل کا نام Ponte Laços de Amor ہے محبت کے رشتوں کا پل۔ یہ روایت ہے کہ لوگ یہاں آ کر ایک رنگین ربن باندھتے ہیں، اس پر کسی کی یاد، کسی کی خواہش، یا کسی کا خواب لکھتے ہیں، اور پھر اسے پانی کے اوپر، ہوا کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ جیسے دعا کو بند باندھ کر آسمان کی طرف روانہ کیا گیا ہو۔
میں نے وہاں کھڑے ہو کر ریلنگ کے قریب ایک ربن کو چھوا وہ نارنجی تھا، اور اس پر پُرتگیزی میں لکھا تھا
“Volta logo, pai.”
(جلدی لوٹ آنا، ابو۔)
میری آنکھوں میں نمی آ گئی۔ میں نے ربن کو چھوا۔ جیسے وہ صرف کسی اور کی یاد نہ ہو، بلکہ ہم سب کی مشترک خواہش ہو کہ ہم سب کے بچھڑے ایک دن واپس لوٹ آئیں۔
ہوا نے وہ ربن ہلایا شاید کسی ان دیکھی دُعا کی تائید میں۔
اس پل کے نیچے بہتی نہر، اُس دن جیسے صرف پانی نہ تھی، بلکہ جذبات کی ایک لمبی داستان تھی۔ مجھے لگا، اگر میں دیر تک کھڑی رہی، تو ان ربنوں کی سرسراہٹ سے کئی چپ کہانیاں سنائی دیں گی۔
شاید کسی نے وعدہ باندھا تھا۔
شاید کسی نے معافی مانگی تھی۔
شاید کسی نے خواب لکھا تھا، جسے پورا ہونا ابھی باقی تھا۔
پل پر کھڑے ہو کر میں نے شہر کو نئی آنکھ سے دیکھا نہر میں عکس، عمارتوں پر سایہ، اور ریلنگ پر بندھے وہ ربن یہ سب صرف منظر نہیں تھے، بلکہ زندگی کی گرہ دار حقیقتیں تھیں۔
جب ہم واپس پل سے اتر رہے تھے، تو میں نے آخری بار مُڑ کر ربنوں کی اُس قطار کو دیکھا ۔ جیسے آسمان سے رنگین بارش لٹک رہی ہو۔ ان ربنوں میں ہزاروں خواہشیں جھول رہی تھیں ۔ میں نے دل سے دعا مانگی اللہ سب کی خؤاہشوں کو پورا کرے ۔
جب ہم اُس شام واپس اپنے گھر کی طرف چل رہے تھے، تو میں نے محسوس کیا اویورو کی تاریخ، میرے اندر گھل چکی ہے۔ اب جب میں کسی پرانی کھڑکی، کسی خاموش گلی یا کسی چھوٹے کیفے کو دیکھتی ہوں، تو یوں لگتا ہے جیسے وقت میرے ساتھ چل رہا ہے۔
میں نے ہسبینڈ جی کا ہاتھ تھاما، اور کہا
یہ صرف شہر نہیں… یہ ایک پرانا خواب ہے، جو ہر رات میری نیند کے کنارے آ بیٹھتا ہے، اور خاموشی سے وقت کے پردے پر ایک اور کہانی لکھ جاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں