پورتو: پرتگال کا تاریخی شہر….ارم زہرا۔ چین

کبھی کبھی سفر صرف فاصلہ طے کرنے کا نام نہیں ہوتا بلکہ وقت، فطرت، اور اندر کے موسم سے بھی ایک گزر ہوتا ہے۔
اُس صبح جب ہم اویرو سے پورتو کے لیے روانہ ہوئے، تو ہوا میں ایک عجب سی بےچینی تھی۔سورج تو یورپ میں ویسے ہی کچھ زیادہ محبت جتاتا ہے، مگر ان دنوں پرتگال کی فضا میں صرف روشنی نہیں، گرمی کا غصہ بھی تھا۔
ٹرین وقت پر تھی، جیسا کہ یورپ میں عموماً ہوا کرتا ہے۔ مگر پلیٹ فارم پر کھڑے ہوتے ہوئے، میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ سورج یہاں مہربان نہیں، بلکہ کچھ برہم سا لگتا ہے۔ آس پاس کے مسافر چھاؤں ڈھونڈتے پھر رہے تھے، اور میں نے پانی کی بوتل ہاتھ میں مضبوطی سے تھام لی، جیسے کسی دعا کا سہارا ہو۔
راستے میں ہسبینڈ جی نے فون پر خبر دیکھی
“پرتگال کے جنوب میں کئی جنگلات میں آگ بھڑک اُٹھی ہے اور حکام نے الرٹ جاری کر دیا ہے۔”
میں نے کھڑکی سے باہر نظر ڈالی ۔ جلتے ہوئے کھیت تو نہیں تھے، مگر پیلاہٹ میں ڈوبا منظر ضرور تھا جیسے کسی پینٹنگ کو تندور میں تپایا جا رہا ہو۔ دل میں ایک سوال سا ابھرا
“کیا ہم صرف زمین کو روند رہے ہیں، یا وقت کو بھی جلا رہے ہیں؟”
پرتگال میں گرمی معمول سے زیادہ ہو چکی ہے ان دنوں ۔ درجہ حرارت تیزی سے بڑھتا جارہا ہے ۔ ہم ٹرین کی ٹھنڈی سیٹوں پر بیٹھے، مگر باہر کی فضا جیسے آنکھوں سے لپٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے سوچا “کیا پرتگال کے وہ دن کبھی لوٹیں گے جب ہوا سمندر کی خوشبو لاتی تھی، نہ کہ راکھ کی بو؟”
شوہر نے میرے خیالات بھانپتے ہوئے آہستہ سے کہا
“ہم صرف سیر کو نکلے ہیں، مگر فطرت جنگ لڑ رہی ہے ۔ اپنے لیے، ہمارے لیے، اور آنے والی نسلوں کے لیے۔”
اگر ہم پرتگال کی تاریخ کو مسلمانوں کی نظر سے دیکھیں، تو یہ صرف ایک ملک نہیں، اندلس کے پھیلتے ہوئے سورج کی آخری کرنوں میں ڈوبا ہوا خطہ دکھائی دیتا ہے۔ پرتگال کی سرزمین کبھی اندلس کا حصہ تھی وہی اندلس جہاں قرطبہ کے چراغ جلتے تھے، جہاں گلیلیو سے پہلے ستارے ناپے جاتے تھے اور جہاں فلسفہ اذان کی بازگشت میں گم ہو جاتا تھا۔
711ء میں جب طارق بن زیاد نے جبل الطارق عبور کیا، تو اندلس کا سورج طلوع ہوااور اس کی کرنیں پرتگال تک پہنچیں۔ عرب مور یہاں 8ویں صدی سے 13ویں صدی تک قابض رہے۔ لزبن، کوئمبرا، اویرو، اور پورتو یہ سب ان کے نقشِ قدم پر پروان چڑھے۔ انہوں نے نہ صرف زراعت، سائنس، فلسفہ اور فن تعمیر دیا، بلکہ اس سرزمین کو تہذیب کا ذائقہ بھی دیا
پورتو کی گلیاں چپ تھیں ۔ وہی خاموشی جو تاریخ کے دفن ابواب میں سانس لیتی ہے۔ میں نے شہر کی پرانی عمارتوں، خمیدہ گلیوں اور اینٹوں کی چھتوں پر نظر ڈالی ان میں کہیں نہ کہیں، کسی مسلمان معمار کے ہاتھ کی جنبش چھپی محسوس ہوتی تھی۔ جیسے کسی نے پتھر میں وقت کو لکھ دیا ہو۔ میرے دل میں ایک سوال نے سر اُبھارا ۔ کیا یہاں کبھی اذان کی آواز گونجی تھی؟ کیا ان گلیوں سے کوئی مسلمان قاضی یا فلسفی گزرا تھا؟
پورتو (جسے اُس وقت “Portus Cale” کہا جاتا تھا) مکمل طور پر مسلم زیرِ تسلط تو کبھی نہیں رہا، لیکن قریبی شہر کوئمبرا، اور لشبونہ (لزبن) میں مسلمانوں کی حکومت تھی اور ان کے اثرات فاصلوں سے سفر کرتے ہوئے اس شہر کی شناخت میں شامل ہوئے کہ تہذیبیں صرف فوج سے نہیں، ثقافت، علم، زبان اور طرزِ فکر سے بھی سفر کرتی ہیں۔ پورتو اگرچہ مسلم حکمرانی میں نہیں آیا، مگر آس پاس کے شہروں میں جو علمی، زرعی، اور فنی ترقی ہوئی، اس کی خوشبو پورتو تک پہنچ گئ۔
یہی وجہ ہے کہ پورتو کے چند پرانے قلعے، آبی نظام، اور کچھ گمنام گلیوں میں آج بھی وہی انداز نظر آتا ہے ۔خمیدہ محرابیں، سفید و نیلا ٹائل ورک، زیتون کے درختوں کی قطاریں اور گنبد اسٹائل کا انفرااسٹریکچر جو شاید کسی وقت وضو کے لیے پانی مہیا کرتے تھے۔
دریائے “دوُرو” کے کنارے پر جب ہم پہنچے، تو شام اپنا رنگ جما چکی تھی۔ پانی پر روشنیوں کے عکس تھے، اور ہوا میں خوشبو تھی پرانی اینٹوں کی، پرانے وقتوں کی۔ ہم نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، اور Dom Luís I Bridge پر پیدل چلنا شروع کیا۔ دریائے دُورو پرتگال کا ایک مشہور دریا ہے۔ یہ دریا اسپین سے نکلتا ہے اور پرتگال سے گزرتا ہوا بحرِ اوقیانوس (Atlantic Ocean) میں گرتا ہے۔ شہر پورتو (Porto) اسی دریا کے کنارے واقع ہے۔
پورتو کے رائبرا (Ribeira) علاقے میں ہم دیر تک گھومتے رہے۔ وہاں کی پتھریلی گلیوں میں ہر دروازہ جیسے ایک کہانی سناتا تھا۔ کچھ جگہوں پر پرانی مسجدوں کے آثار اب بھی موجود ہیں جیسے “Igreja da Misericórdia” کے پیچھے ایک چھوٹی سی محراب، جسے مقامی لوگ آج بھی “مشرق کی کھڑکی” کہتے ہیں۔
دریائے دوُرو کے کنارے، پورتو کا رائبرا جیسے کسی پرانی کہانی کا زندہ صفحہ ہو۔ ہم جیسے ہی پتھریلی گلیوں میں اترے، وقت کی رفتار سست ہو گئی۔ سامنے دریا خاموشی سے بہہ رہا تھا، اور اس کے ساتھ ساتھ پھیلا ہوا یہ محلہ رائبرا پرتگال کے ماضی، اس کے رنگ، اس کی گلیوں، اور اس کی روح کی مکمل تصویر بن گیا تھا۔
عمارتیں چھوٹے چھوٹے رنگین خانوں کی طرح ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی، بالکونیوں سے جھانکتے پھول، کچھ دیر بعد وہی فادو جسے ایک نوجوان لڑکی اپنی اداس آواز میں گا رہی تھی۔ اس کی آواز جیسے دریا کی لہروں پر تیرتی ہوئی میرے دل تک آ رہی تھی۔
رائبرا کے کنارے بیٹھ کر ہم نے چپ چاپ سورج کو دریائے دوُرو میں اترتے دیکھا۔ پانی سنہری ہو چلا تھا اور روشنی جیسے دیواروں پر رینگتی جا رہی تھی۔ مجھے لگا میں محض دیکھ نہیں رہی بلکہ سن رہی ہوں، محسوس کر رہی ہوں اس شہر کے گزرے ہوئے لمحے۔۔
پورتو میں اگرچہ مسلمانوں کی موجودگی لزبن یا الگاروے جتنی واضح نہیں، لیکن آرکیٹیکچر، واٹر چینلز، اور زراعتی نظام میں ان کے اثرات محسوس ہوتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پورتو کے پرانے گلی کوچے اور پانی کی تقسیم کا نظام عرب انجینیئرنگ کی دین ہے۔
ہم نے اگلے دن مقامی میوزیم کا دورہ کیا جہاں ایک قدیم نقشہ نظر آیا۔ اس پر پورتو کو “Burth” کے نام سے دکھایا گیا تھا، جس کے نیچے عربی میں لکھا تھا:
“بلدٌ على نهرٍ واسع” (ایک بستی جو ایک بڑی ندی کے کنارے پر ہے )
پورتو کے ریستورانوں میں ہم نے مقامی کھانے چکھے۔ مگر ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں جب ویٹر نے “چکن تاجین” اور “کسکس” کی بات کی، تو میرے چہرے پر حیرت پھیل گئی۔ “یہ تو مراکش کا کھانا ہے!”
ویٹر ہنس کر بولا “یہاں کے کچھ خاندان مسلمان بیک گراؤنڈ رکھتے ہیں، ہم آج بھی وہی ذائقے سنبھالے ہوئے ہیں۔”
ہسبینڈ جی نے میری طرف دیکھا، اور آنکھوں ہی آنکھوں میں کہا
“تاریخ صرف کتابوں میں نہیں ہوتی، ذائقوں میں بھی محفوظ رہتی ہے۔”
اگلے دن پورتو کی صبح کسی خوش الحان بانسری کی طرح تھی۔ ہمارے ہوٹل کی بالکونی سے نظر آنے والی پتھریلی چھتوں پر سورج کی پہلی کرنیں پڑی تھیں۔ ہوا ہلکی، نم آلود، اور پرانی خوشبو سے لبریز تھی۔ میں نے ہسبینڈ جی کے لیے کافی بنائی، اور ہم دونوں گھنٹہ بھر یونہی چپ چاپ بیٹھے شہر کو جاگتے دیکھتے رہے۔
“آج کہاں چلیں؟” انہوں نے پوچھا۔
“چلیں، کتابوں کے شہر چلتے ہیں… اور خوابوں کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔”Livraria Lello وہ لائبریری جہاں لفظ جادو بن جاتے ہیں۔
ہم جب پورتو کی مشہور ترین جگہ، Livraria Lello، پہنچے، تو باہر لمبی قطار تھی۔ لال قالین جیسی سیڑھیاں اوپر جا رہی تھیں، اور دروازے پر سنہری نقوش چمک رہے تھے۔ ایک لمحے کو مجھے لگا میں کسی فلم کے سیٹ پر آ گئی ہوں۔ اوہ واقعی، یہ وہی لائبریری ہے جس نے J.K. Rowling کو “ہیری پوٹر” لکھنے میں متاثر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ پورتو میں انگلش پڑھاتی تھیں، تو یہاں آ کر بیٹھا کرتی تھیں ۔ یہی مڑی تڑی سیڑھیاں، یہی لکڑی کی چھتیں، یہی قدیم کتابیں… شاید ہوگوارٹس کا خیال یہیں سے پیدا ہوا۔
جب ہم اندر داخل ہوئے، تو ایک عجیب خاموشی چھا گئی۔ ہر شے بولتی تھی، پر آہستہ۔ جیسے ہم کتابوں میں گم ہو گئے ہوں۔۔۔
پورتو کا ایک اور شاندار مقام Torre dos Clérigos ہے، جو شہر کا بلند ترین ٹاور ہے۔ جہاں ہم نے 200 سے زائد سیڑھیاں چڑھیں، اور جب اوپر پہنچے تو پورا پورتو ہماری آنکھوں کے سامنے تھا ۔ گلابی چھتیں، دریا، پرانے پل، اور دور دور تک پھیلا ہوا یورپی خاموشی کا طلسم۔
“یہاں کھڑے ہو کر دل کرتا ہے وقت تھم جائے، میں نے خود کلامی کی ۔ ُپھر ہم گئے São Bento ریلوے اسٹیشن کی طرف، جو دنیا کے خوبصورت ترین اسٹیشنز میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی دیواروں پر نیلی و سفید azulejos (پرتگالی ٹائلز) پر بنی کہانیاں تھیں جنگیں، محبتیں، بادشاہوں کی سواری، کسانوں کا جشن۔ میں نے سوچا
“کتنا عجیب ہے نا، ہم اپنی محبتوں کو انسٹاگرام پر محفوظ کرتے ہیں اور انہوں نے دیواروں پر بنا دیا!”
ہم نے یہاں شہر کا ایک اور نایاب عجوبہ دیکھاIgreja do Carmo۔ یہ دو چرچز ہیں جو ایک پتلی سی دیوار کے ذریعے الگ کیے گئے ہیں ۔ کبھی ایک چرچ کو مردوں کے لیے، اور دوسرے کو عورتوں کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔
اگلے دن ہم نے فیصلہ کیا کہ صرف ماضی نہیں، حال بھی دیکھنا ہے۔ چنانچہ ہم گئے Casa da Música جدید فن تعمیر کا شاہکار۔ شیشے، دھات اور زاویوں کی دنیا۔ ایک ایسا پرتگال جو روایت اور جدت کے بیچ کھڑا ہے۔میں نے دل میں سوچا
“مسلمانوں نے یہاں علم دیا، فن دیا، روشنی دی۔ آج بھی وہ روشنی زندہ ہے، بس روپ بدل گیا ہے۔”
آخری دن ہم پھر Ribeira گئے۔ وہی دریا، وہی پل، وہی ہوا، مگر دل میں کچھ زیادہ جوش تھا۔ ہم نے کنارے پر بیٹھ کر دو کپ کافی، اور وہ خاموشی پی جو محبت سے زیادہ پُراثر ہوتی ہے۔
“پورتو کی سب سے بڑی خاص بات کیا ہے؟” ہسبینڈ جی نے پوچھا۔
میں نے دریا کی طرف دیکھا اور کہا
“یہ شہر آپ کی طرح ہے… خاموش، مضبوط، اور اپنے اندر کہانیاں چھپائے ہوئے۔” وہ میری بات سن کر ہنستے رہے۔
ہم دن بھر گھوم کر ہوٹل واپس آئے تو میں نے سوچا تھا بس تھوڑا آرام کریں گے، پھر سو جائیں گے۔ مگر پورتو کا اصل چہرہ تو رات کو ظاہر ہوتا ہے۔
ہسبینڈ جی نے کہا، “چلو نکلتے ہیں، شہر کی سانسیں رات میں سننے کا الگ مزہ ہے۔” اور ہم نکل گئے ہاتھ میں ہاتھ، اور دل میں ایک چھوٹی سی بےچینی۔ سڑکیں روشن تھیں، مگر ہجوم نہیں تھا۔ یہاں کی نائٹ لائف میں شور نہیں، نرمی ہے۔ لوگ ہنس رہے تھے، مگر آہستگی سے۔ موسیقی بج رہی تھی، مگر دل کو چیرنے والی نہیں دل کو چھو لینے والی۔
ہم پہنچے Galerias de Paris، پورتو کی سب سے مشہور نائٹ اسٹریٹ۔ یہ کوئی عام بازار یا ڈانس فلور نہیں، بلکہ ایک گلی ہے جہاں ہر قدم پر ایک کیفے، ایک بار، یا ایک چھوٹا سا جاز کلب ہے۔
ہم ایک ریستورنٹ کے باہر بینچ پر بیٹھے۔ سامنے کچھ نوجوان گٹار بجا رہے تھے، اور ساتھ ہی کوئی پرتگالی لڑکی “فادو” گا رہی تھی ۔“فادو” پرتگال کا ایک روایتی اور جذباتی موسیقی کا انداز ہے، جس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں اداسی، جدائی، تنہائی، مایوسی، یا کھوئے ہوئے وقت کی جھلک ہوتی ہے۔ یہ ایک پرانی، درد بھری پرتگالی صنف ہے ، جس کی آواز میں صدیوں کی جدائی، محبت، اور انتظار ہوتا ہے ۔ میں نے دل میں سوچا “یہ آواز پرانی لگتی ہے ؟ جیسے کسی کھوئے ہوئے عشق کی پکار ہو…”
ہم نے ایک ریسٹورنٹ چنا جو دریا کے کنارے تھا “Taberna dos Mercadores”۔ چھوٹا سا ریسٹورنٹ، لکڑی کی میزیں، مدھم روشنی، اور ویٹر جو پرتگالی لہجے میں انگریزی بول رہا تھا۔ہم نے پوچھا، “کوئی مقامی ڈش تجویز کریں؟”Bacalhau à Brás کوڈ مچھلی، آلو، انڈہ، اورزیتون کا امتزاج اور دوسری Caldo Verde آلو اور پتوں کا سوپ، جس میں سادہ پن کی گہرائی ہے۔
آخر میں ہم نے Pastel de Nata کھایا ایک چھوٹا سا کسٹرڈ ٹارٹ، اوپر دارچینی چھڑکی ہوئی۔میں نے ہنستے ہوئے ہسبینڈ جی سے کہا
“یہ میٹھا آپ کی طرح ہے… باہر سے مضبوط، اندر سے نرم!”
کھانے کے بعد ہم پھر دریا کی طرف نکلے۔ Dom Luís I Bridge پر روشنی تھی، پانی میں عکس، اور ہوا میں رات کا وہ سکوت جس میں شہر سانس لیتا ہے۔لوگ بیٹھے تھے، کچھ گٹار بجا رہے تھے، کچھ ہاتھ میں وائن لیے خاموش نظارے میں گم تھے۔ہم ایک کنارے پر بیٹھ گئے اور اپنی اپنی سوچوں میں گم ہو گئے ۔
ہم نے نائٹ لائف میں شور نہیں دیکھا بلکہ خاموش موسیقی کا تجربہ کیا۔
یہاں لوگ چیختے نہیں، گفتگو کرتے ہیں۔یہاں روشنی آنکھیں چبھتی نہیں، دل روشن کرتی ہے۔یہاں رات ختم نہیں ہوتی، بلکہ دل میں ٹھہر جاتی ہے۔ میں اور میرے شوہر واپس آ چکے ہیں، لیکن پورتو ہم سے الگ نہیں ہوا۔ اس کی نائٹ لائف، جس میں لفظوں سے زیادہ نظر کی گفتگو تھی۔اس کے کھانے، جن میں ذائقہ نہیں، تاریخ تھی۔اور اس کی گلیاں، جہاں ہم دو سائے بن کر گھومتے رہےاور بیچ میں وہ شہر…جس نے ہمیں کچھ پل کے لیے خود میں جذب کر لیا۔
پورتو کا سحر دل میں اتر چکا تھا اور ہم نے اپنے سوٹ کیس بند کیے، تو میرے دل میں ایک ہلکی سی اداسی تھی وہی جو کسی پیاری کتاب کا آخری صفحہ پڑھتے ہوئے ہوتی ہے۔ لیکن ہسبینڈ جی نے کہا،
“سفر ابھی ختم نہیں ہوا، اگلا سفر لسبن کی جانب ہے ۔”
ہم نے پورتو کے Campanhã ریلوے اسٹیشن سے لزبن کے لیے ٹرین لی۔ اسٹیشن پر صبح کی روشنی کچھ تھکی تھکی سی تھی، جیسے شہر خود بھی ہمیں رخصت کر رہا ہو۔ ٹرین وقت کی مکمل پابندی سے روانہ ہوئی، اور کھڑکی کے اس پار وہی پرتگالی زمین، جو کہیں زیتون کے درختوں سے بھری ہوئی تھی، اور کہیں دور پہاڑوں کی اوٹ میں گم۔ یہ سفر تقریباً 2.5 سے 3 گھنٹے کا تھا اور ہم نے Alfa Pendular ٹرین چنی، جو نسبتاً تیز، آرام دہ اور جدید سہولتوں سے آراستہ ہے۔ ٹکٹ قیمت 20 سے 40 یورو کے درمیان تھی، مگر وقت، آرام اور منظر سب اس رقم کا نعم البدل تھے۔ اگرچہ Intercidades (Intercity) ٹرینز بھی اسی روٹ پر چلتی ہیں ۔ تھوڑی سست، مگر آرام دہ۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ رفتار اور منظر ایک ساتھ چُنا جائے لیکن اگر آپ بس کے ذریعے لزبن جانا چاہیں تو وہ سہولت بھی میسر ہے۔Rede Expressos اور دیگر کمپنیوں کی بسیں روزانہ پورتو سے لزبن کے لیے روانہ ہوتی ہیں۔
بس کا سفر تقریباً 3.5 سے 4.5 گھنٹے لیتا ہے، اور ٹکٹ عموماً 10 سے 20 یورو میں مل جاتی ہے۔ بسوں کے اندر ایک خاص قسم کی خاموشی ہوتی ہے ۔ نہ وہ شور جو شہروں کا ہوتا ہے، نہ وہ تنہائی جو پہاڑ دیتی ہیں۔
بس کی کھڑکی سے نظر آنے والے چھوٹے دیہی گاؤں، انگوروں کی بیلیں، اور دھوپ میں چمکتی چھتیں دل میں ایسا سکون اُتارتی ہیں جیسے کوئی پرانا گیت ہو جو یاد آ جائے۔ چاہے ٹرین ہو یا بس، پورتو سے لزبن تک کا یہ سفر صرف فاصلہ طے کرنا نہیں بلکہ پرتگال کی روح کو چھونا ہے ۔ ایک شمال سے دوسرے جنوب کی طرف جاتے ہوئے، جہاں زبان وہی ہے، مگر لہجہ، موسم اور وقت سب کچھ دھیرے دھیرے بدلتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں