پورتو سے نکلتے وقت مجھے لگا جیسے میں اپنی پرانی ڈائری کا ایک باب بند کر کے، ایک نئے باب کے صفحے پر قلم رکھ رہی ہوں۔ صبح کی ہلکی بادلوں میں لپٹی ہوئی ریل کی کھڑکی سے گزرتے مناظر جیسے کسی پرانے البم کی تصویریں تھے۔ سبز پہاڑ، سنہری کھیت، اور کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے قصبے، جیسے کسی شاعر کے مصرعے میں چھپی ہوئی تشبیہیں۔ چار گھنٹوں کا سفر تھا، مگر دل میں ایک عجیب سا اشتیاق، کہ لزبن کی گلیاں اس بار بھی ویسی ہی ہیں یا کچھ بدل گئیں ہیں ؟ اس شہر کی ہوا کس لہجے میں ہمارا استقبال کرے گی؟
ریل لزبن کے سانتا اپولونیا اسٹیشن پر رکی تو دریا کی خوشبو سب سے پہلے محسوس ہوئی۔ مگر یہ دریا نہیں، دریا نما سمندر تھا۔ دریائے ٹیگس (Tagus) جو اوقیانوس سے گلے ملتا ہے۔ ہوا میں نمکین مہک اور ہلکی سی نمی، جیسے سمندر نے پورے شہر کو اپنی بانہوں میں لیا ہوا ہو۔
ہم سب سے پہلے الفاما (Alfama) پہنچے ۔ لزبن کا سب سے پرانا محلہ۔ یہاں کی گلیاں اتنی تنگ کہ اگر ایک طرف سے بلی گزرے تو دوسری طرف کھڑا شخص اس کی مونچھوں کی گدگدی محسوس کر سکتا ہے۔ پتھریلے فرش پر قدم رکھتے ہی لگا جیسے میں صدیوں پیچھے جا چکی ہوں۔ یہیں پرانی عمارت کی بالکونی میں ایک عورت کپڑے لٹکا رہی تھی، نیچے ایک چھوٹا سا کیفے تھا ، جہاں کچھ سیاح کافی پی رہے تھے ۔ دو لوگ بیٹھے فادو گا رہے تھے۔ ان کی آوازوں میں اداسی نہیں، بلکہ ایک پرانی کہانی کا مٹھاس بھرا دکھ تھا۔
میں جب بھی لزبن آتی ہوں یہاں کے اونچے نیچے راستوں اور گلیوں میں کھو جاتی ہوں ۔ہم الفاما کی اونچی ڈھلوانوں پر چلتے چلتے ساؤ جارج قلعہ تک پہنچ گئے ۔ قلعے کی دیواروں پر ہاتھ رکھا تو پتھروں کی ٹھنڈک میں تاریخ کی حرارت محسوس ہوئی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں کبھی عرب مور بھی رہے، پھر پرتگیزی بادشاہوں کے جھنڈے لہرائے۔ اوپر سے پورا لزبن نظر آ رہا تھا۔ سرخ ٹائلوں کی چھتیں، نیلا دریا، اور دور پہاڑوں پر ہلکا سا دھند کا پردہ۔
اگلا پڑاؤ ہمارا بیلم (Belém) تھا، جہاں تاریخ اور سمندر کا رشتہ سب سے گہرا ہے۔ بیلم ٹاور (Belém Tower) جیسے کسی پرانی داستان کا کردار، جو صدیوں سے دریا کی نگرانی کر رہا ہو۔ یہ وہی ٹاور ہے جہاں سے پرتگیزی مہم جو سمندروں کی مہمات پر نکلتے تھے۔ تھوڑا آگے جرونیموس خانقاہ (Jerónimos Monastery) اپنی سفید پتھروں کی نقاشی کے ساتھ کھڑی تھی، جیسے کسی ماہر خطاط نے سنگِ مرمر پر قرآنی آیات کی جگہ پھول اور بیل بوٹوں کا جال بُن دیا ہو۔
لزبن کی فضا میں ایک عجیب کھلا پن ہے۔ جیسے شہر نے سمندر سے سیکھا ہو کہ ہر سمت سفر کی اجازت ہے۔ یہاں کی زبان، موسیقی، رقص، حتیٰ کہ عمارتوں کی رنگت بھی سمندری ہواؤں کی طرح آزاد ہے۔ سڑکوں پر ٹرامیں چلتی ہیں، اور پیلے رنگ کی ٹرام نمبر 28 تو خود ایک چلتی پھرتی تاریخ ہے، جو پرانے محلوں سے گزرتی ہوئی آج کے شور میں داخل ہو جاتی ہے۔
لزبن کا سفر ذائقوں کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ پاسٹل دی ناتا (Pastel de Nata) کریم سے بھرا چھوٹا سا میٹھا ٹارٹ بار بار کھانے سے بھی دل نہیں بھرتا۔ یہ ٹارٹ جیسے دھوپ کو کسی نے چینی میں ڈبو کر پلیٹ میں رکھ دیا ہو۔ بیلم کے مشہور بیکری سے لیا ہوا یہ میٹھا، باہر سے خستہ اور اندر سے نرم، جیسے پرتگالی مزاج کا خلاصہ۔
دوپہر کے کھانے میں بکالہاؤ (Bacalhau) خشک اور نمکین مچھلی آئی۔ کہا جاتا ہے کہ پرتگیزی اس مچھلی کو بنانے کے ہزار طریقے جانتے ہیں۔ میرے سامنے پلیٹ میں یہ زیتون کے تیل، آلو اور پیاز کے ساتھ تھا، اور ساتھ میں گرین ٹی یقینا چاہینہ واپسی پر یہ کھانا مجھے یاد آئے گا۔
ہمارے ارد گرد سیاح اور مقامی لوگ بیٹھے تھے ۔ سب ایک ہی لہجے میں ہنس رہے تھے، جیسے اس شہر نے سب کو اپنا ہم زبان بنا دیا ہو۔
رات کو ہم پھر الفاما کی طرف لوٹے ، کیونکہ دل چاہ رہا تھا کہ فادو کو ایک بار پھر سنیں ۔ ایک چھوٹے سے ریسٹورینٹ میں، موم بتیوں کی روشنی میں، ایک درمیانی عمر کی عورت نے گٹار کے ساتھ گانا شروع کیا۔ اس کی آواز میں سمندر کی گہرائی اور بچھڑنے کا دکھ، دونوں ایک ساتھ تھے۔ ہر لفظ دل پر دستک دے رہا تھا، اور لمحہ لمحہ میں اس شہر کے دل کے قریب آتی جا رہی تھی۔
لزبن مجھے ہمیشہ ایک ایسے بزرگ کی طرح لگتا ہے ، جس نے دنیا دیکھی ہے، محبتیں کی ہیں، بچھڑنے کے زخم کھائے ہیں اور اب سمندر کے کنارے بیٹھ کر سب یادیں ہوا کے حوالے کر رہا ہے۔ یہاں کی گلیاں، کھڑکیاں، دروازے، سب اپنے اپنے قصے سنانے کو بے تاب ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ شہر اپنے ماضی پر فخر بھی کرتا ہے اور حال کی چہل پہل کو بھی گلے لگاتا ہے۔ میں جان چکی تھی کہ سمندر اور ہوا کی گود میں لپٹے اس شہر کو محسوس کرنے کا سب سے اچھا طریقہ ہے۔ دھیرے چلنا، سننا، اور ہر ذائقے کو چکھ کر یاد میں محفوظ کر لینا۔
ابھی پچھلے دن کی تھکن باقی تھی، مگر لزبن کی ہوا نے صبح کے وقت ہی دل میں ایک عجب تازگی بھر دی۔ میں بالکونی پر کھڑی تھی، اور نیچے سڑک پر پہاڑی ڈھلان سے چڑھتی پیلی ٹرام 28 کو دیکھ رہی تھی۔ میرے شوہر نے پیچھے سے آ کر ہلکے سے میرا شانہ تھپتھپایا “چلو، آج شہر ہمیں بلا رہا ہے۔” میں نے مسکرا کر بیگ سنبھالا اور ہم دونوں نکل پڑے۔
ہم نے ٹرام سے بیلم کی طرف سفر کیا۔ کھڑکی سے باہر سمندر کا کنارہ ساتھ ساتھ چل رہا تھا، جیسے وہ بھی ہمارے ہمسفر ہو۔ بیلم ٹاور کے پاس پہنچے تو ہوا نمکین اور ٹھنڈی تھی۔ ہم دونوں نے دریا کے کنارے کھڑے ہو کر دیر تک پانی کو آتے جاتے دیکھتے رہے۔ اس کے بعد ہم ساؤ جارج قلعہ کی جانب بڑھ گئے ۔
ساؤ جارج قلعہ کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر مجھے یوں لگا جیسے میں لزبن کی صدیوں پر پھیلی سانسوں کو سن رہی ہوں۔ نیچے شہر کی سرخ چھتیں، جنہیں سورج کی کرنیں چمکا رہی تھیں اور دور دریا میں ہلکی ہلکی لہریں۔ ہوا کے جھونکے میں جیسے موری سپاہیوں کی چاپ، اور عیسائی لشکر کے نعروں کی بازگشت تھی۔ میرا ہاتھ قلعے کی پرانی پتھریلی دیوار پر تھا، جو شاید ہزار سال سے زیادہ عرصے سے شہر کو دیکھ رہی ہے۔ میں نے سوچا شاید وقت بھی ایک محافظ ہے، جو اپنی یادوں کی فصیل میں سب کو قید کر لیتا ہے۔ ساؤ جارج قلعہ کی چڑھائی بہت مشکل کام ہے ۔
پہاڑی راستے پر اوپر چڑھتے ہوئے میں بار بار رک کر سانس لینے لگتی۔ قلعے کی دیواروں تک پہنچے تو منظر ایسا تھا کہ ہم دونوں چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گئے۔ نیچے لزبن اپنی سرخ چھتوں اور نیلے دریا کے ساتھ پھیلا ہوا تھا۔ میں نے سوچا “ یہ جگہ مجھے کبھی نہیں بھولے گی کیونکہ یہاں دوبارہ آنا ناممکن ہے۔”
اگلے دن ہم مِرکادو دا ربیرا (Mercado da Ribeira) گئے، جو لزبن کی سب سے بڑی فوڈ مارکیٹ ہے۔ یہاں ہر اسٹال سے خوشبوئیں اٹھ رہی تھیں ۔ سیاحوں کے لیے یہ مارکیٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ سمندری جھینگے، تازہ مچھلی، پنیر، اور پرتگالی میٹھے۔ ہم نے بکالہاؤ کا ایک نیا انداز آزمایا، جو زیتون اور اجمودا (parsley) کے ساتھ تھا۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا، “میں نے سوچا تھا شادی کے بعد تم مجھے نئے ذائقے کھلاؤ گی، یہ تو الٹا ہو گیا۔” میں نے ہنس کر جواب دیا، “محبت میں کھانے کی طرح، ہمیشہ تھوڑا سا سرپرائز ہونا چاہیے۔”
شام ڈھلتے ہی ہم کاسکائش (Cascais) کی طرف نکل گئے، جو لزبن سے قریب ایک ساحلی قصبہ ہے۔ سمندر کی لہریں چٹانوں سے ٹکرا رہی تھیں، اور ہوا میں ہلکی سی خنکی تھی۔ ہم ریت پر بیٹھے دیر تک باتیں کرتے رہے۔ کبھی ماضی کی، کبھی آنے والے کل کی۔ میں جب بھی سمندر کے کنارے ہوتی ہوں مجھے کراچی کا ساحل یاد آنے لگتا ہے ۔
ہوٹل واپسی پر لزبن کی گلیاں روشنیوں سے جگمگا رہی تھیں۔ ٹرام کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے میں نے شہر کو ایک خواب کی طرح دیکھا۔ الفاما کی تنگ گلیاں، بیلم کا ٹاور، اور ساؤ جارج قلعہ، سب جیسے ہمیں الوداع کہہ رہے تھے۔ میں نے ہسبینڈ جی کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے سوچا۔ یہ سفر کبھی ختم نہیں ہوگا، یہ ہم دونوں کے ساتھ سفر کرتا رہے گا۔
اس بار لزبن کی گلیوں میں چلتے چلتے میں نے ایک عجیب بات نوٹ کی یہ شہر صرف پرتگیزی نہیں رہا، یہ تو دنیا کے کئی رنگوں کا مرکب بن چکا ہے۔ الفاما سے بیلم تک، ہر دوسرے کیفے یا چھوٹے ریستوران میں آپ کو کسی نہ کسی زبان کی جھلک مل جاتی ہے۔ اردو، پنجابی، ہندی، بنگالی، نیپالی، حتیٰ کہ افریقی لہجے کی پرتگیزی۔ ہم نے ایک شام مارٹم مونس (Martim Moniz) کے علاقے کا رخ کیا، جہاں لزبن کی سب سے بڑی جنوبی ایشیائی آبادی رہتی ہے۔
یہاں کے بازار میں ہم نے خود کو کسی کراچی، لاہور یا دہلی کے گلی کوچے میں پایا۔ مصالحوں کی خوشبو، رنگ برنگے کپڑوں کی دکانیں، اور گلی میں بیٹھے چائے والے کی آواز “چاے، چاے!” سب جیسے ایک پل میں مجھے اپنے وطن لے گئے۔ ایک دکان میں داخل ہو کر میں نے پشاوری چپل کو ہاتھ میں لیا تو دکاندار، جو پشاور کا نکلا، ہنس کر بولا “باجی، یہ لزبن ہے مگر ہمارا دل ابھی بھی خیبر پختونخوا میں دھڑکتا ہے۔”
ہم نے اس شام ایک پاکستانی فیملی کے ساتھ چائے پی۔ باتوں باتوں میں بات نکلی کہ پرتگال کی امیگریشن پالیسی کچھ عرصے سے بدل گئی ہے۔ پہلے یہاں آ کر ویزا اور ریذیڈنسی کے کاغذات بنوانا نسبتاً آسان تھا۔ خاص طور پر جنوبی ایشیائی مزدور طبقے کے لیے۔ مگر اب حکومت نے نئے قوانین نافذ کیے ہیں۔ درخواستوں کا عمل لمبا ہو گیا ہے، کام کے پرمٹ اور ریذیڈنسی حاصل کرنے میں زیادہ وقت لگتا ہے، اور غیر قانونی طور پر آنے والوں کے لیے حالات مزید مشکل ہو گئے ہیں۔
اب صرف پاسپورٹ کا انتظار ہی نہیں، ویزوں کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے۔ نئے آنے والوں کے لیے ملازمت کا معاہدہ، رہائش کا ثبوت، اور کاغذی شرائط ایسی ہیں کہ کئی لوگ راستے ہی میں واپس لوٹ جاتے ہیں۔ پرتگال میں پہلے تو پانچ سال بعد شہریّت کا دروازہ کھلتا تھا، اب دس سال کا انتظار ہے۔ لوگ تھک جاتے ہیں… اور پھر اسپین یا جرمنی چلے جاتے ہیں۔ جہاں کاغذ بنانے میں آسانی ہے۔ وہاں کام بھی زیادہ ہے اور تنخواہیں بھی۔
میں نے سوچا، شاید پرتگال کا دروازہ اب سب کے لیے کھلا نہیں رہا، بلکہ ایک تنگ گلی بن گیا ہے جس سے گزرنے والے چند ہی ہیں۔ یہاں
ہم نے دیکھا کہ ایشیائی کمیونٹیز صرف رہ نہیں رہیں بلکہ شہر کی ثقافت میں رنگ بھر رہی ہیں۔ لزبن کے فوڈ مارکیٹ میں اب سموسے اور حلیم بھی ملتے ہیں، ساتھ پرتگالی پاسٹل دی ناتا۔ کئی ریسٹورانٹ ایسے ہیں جہاں ایک ہی ٹیبل پر کوئی پرتگیزی سیاح مچھلی کھا رہا ہے اور ساتھ والے ٹیبل پر ایک بھارتی فیملی بریانی۔
“یہی تو لزبن کی خوبصورتی ہے۔ یہ شہر سمندر سے آیا، مگر اب ہر ملک کا ایک چھوٹا سا ساحل یہاں موجود ہے۔” میں نے سوچا کہ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں رہنے والے اپنے وطن سے جڑاؤ رکھتے ہیں مگر لزبن کو بھی اپنا لیتے ہیں۔
رات کو ہم بائیکسا (Baixa) کے علاقے سے گزرے۔ ہر طرف روشنی اور موسیقی تھی، مگر غور سے سنیں تو گلی کے ایک کونے میں اردو گانا چل رہا تھا، دوسرے میں افریقی ڈھول، اور بیچ میں کوئی فادو گا رہا تھا۔ میں نے اپنے شوہر سے کہا، “یہ شہر اب کسی ایک زبان کا نہیں رہا، یہ تو کئی دھڑکنوں کا مجموعہ ہے۔” انہوں نے سر ہلا کر کہا، “شاید اسی لیے یہاں کی ہوا میں اتنی زندگی ہے، چاہے قوانین بدل جائیں یا وقت۔” یہ یہاں آنے والوں کو اپنا لیتا ہے ۔
واپسی پر ٹرام سے شہر دیکھتے ہوئے مجھے لگا کہ لزبن ایک خوبصورت مگر صبر آزمانے والا شہر ہے۔ یہاں کے قلعے، ٹائلوں سے سجی دیواریں، اور سمندر کی ہوا سب مسافر کو اپنی طرف کھینچتے ہیں، مگر اب یہ کشش وقت اور محنت کے امتحان سے گزرتی ہے۔ میں نے اپنے ہسبینڈ سے کہا ، “شاید یہ شہر اب خوابوں کو آسانی سے قبول نہیں کرتا۔”
وہ مسکرا کر بولے، “لیکن جو یہاں رک جائیں… وہ لزبن کی کہانی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہاں آنے والے ہر شخص کی اپنی کہانی ہے، کچھ خوشیوں سے بھری، کچھ جدوجہد سے، مگر سب ایک ہی آسمان کے نیچے سانس لے رہے ہیں۔
ہم نے ہوٹل واپسی پر دریائے ٹیگس کے کنارے دیر تک بیٹھے روشنیوں کو پانی میں جھلملاتے دیکھا۔ “شاید وقت بھی ایک مسافر ہے، جو ہر بدلتے شہر میں اپنا چہرہ نئے رنگ سے رنگ دیتا ہے۔” اور لزبن اس وقت ایک ایسا رنگ تھا جس میں سمندر کا نیلا، پرتگالی ٹائلوں کا سفید، اور ہمارے وطن کے گلی کوچوں کا سرخ مٹیالا رنگ سب شامل تھے۔
لزبن کی گلیوں سے پرتگال کے ساحل تک(ارم زہرا)
