صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور صدر پوٹین کے مابین الاسکا میں جمعہ 15 اگست کو ایک ملاقات کا اہتمام کیا گیا ہے اور اس ملاقات سے پہلے ٹرمپ نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ یوکرین کی جنگ بندی کا فیصلہ اس ملاقات میں صدر پوٹین سے مل کر طے کروا دیں گے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتخابی سرگرمی کے دوران ہی یہ کہا تھا کہ وہ صدر منتخب ہوتے ہی پوٹین کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے یوکرین کی جنگ بندی کا لائحہ عمل پیش کریں گے۔
یوں بھی جب سے صدر ٹرمپ کو نوبل امن کے انعام کی لالچ دی گئی ہے وہ گاہے بگاہے ایسے اقدامات کر رہے ہیں جس سے انہیں امن کا داعی قرار دے کر نوبل پرائز کا حقدار قرار دیا جائے۔
حالانکہ انہوں نے اسرائیل کے بار بار اصرار پر ایران پر بمباری بھی کروائی جو کہ ان کے امن مشن کے بالکل برخلاف بات تھی اور اس وجہ سے ان کا ایمیج کافی خراب بھی ہوا۔ ڈونل ٹرمپ کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ عالمی افق پر بہت متنازع شخصیت اور اپنی بات سے پھر جانے والے شخص کے طور پر ابھر کر سامنےآئے ہیں۔ اس سے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ مغربی ممالک کا کوئی ایسا اہم سربراہ اپنی بات سے اتنی جلدی پھر جاتا ہو یا اپنی بات کو خود ہی رد کر دیتا ہو۔
یوکرین کی جنگ بندی کے سلسلے میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے مختلف رویے سامنے آئے ہیں کبھی وہ پوٹین کو اپنا دوست کہتے ہیں اور کبھی وہ ایک ایسا بیان داغ دیتے ہیں جیسے روس ان کا سب سے بڑا دشمن ہو۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے ایسے فوجی اقدامات بھی کروائے جن سے محسوس ہوتا تھا کہ شاید عنقریب کوئی جنگ امریکہ اور روس کے مابین چھڑ جائے گی۔ مگر اب وہ ایک بار پھر روس سے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں اور پہلے کی طرح ایک بار پھر وہ یوکرین کو اس لا ئحہ عمل کا حصہ بنائے بغیر بالا بالا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی صدر پوٹین کے ساتھ ملاقات اور اس کا ایجنڈا طے ہونے کے بعد، جب یوکرائین کی صدر نے اپنے اعتراضات داخل کیے، اور یہ کہا کہ وہ کسی ایسی جنگ بندی کو نہیں قبول کریں گے، جس میں انہیں اپنے ملک کے کچھ حصے سے روس کے حق میں دستبردار ہونا پڑے۔ تو جوابا” صدرٹرمپ نے یہ اعلان کیا کہ وہ اس میٹنگ میں یورپ اور یوکرین کو شامل کیے بغیر ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی اس بیان سے نہ صرف یوکرائن بلکہ پورے مغربی یورپ میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ یورپ کا یوکرین کی جنگ بندی کے سلسلے میں اپنا ایک موقف ہے اور وہ یہ کے یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک روس یوکرین کے ان سارے علاقوں کو خالی نہ کر دے جس پر اس نے قبضہ کر رکھا ہے۔ جبکہ روس ان علاقوں کو جہاں کی زبان بھی روسی ہے اپنا اٹوٹ حصہ مانتا ہے اور ان علاقوں کو کسی طور بھی خالی کرنے پر آمادہ نہیں۔
صدر ٹرمپ کے اس اعلان کی مخالفت میں یورپ کے مختلف ممالک کے صدور نے نہ صرف اپنے اپنے بیانات دیے بلکہ پہلے، یورپین یونین کی ایک یوکرینی معاملات پر گفتگو کے لیے کانفرنس بلائی گئی۔ جس میں تمام ممالک اس بات پہ متفق ہوئے کہ روس سے کوئی معاہدہ اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوگا جب تک وہ یوکرین کے علاقے خالی نہیں کر دیتا۔ ما سوائے ہنگری کے صدر کے تمام ممالک کا یہی فیصلہ تھا جبکہ ہنگری نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔
یہی نہیں اس موقف کے سب سے بڑے داعی جرمنی کے چانسلر میرز نے یہ کیا کہ ایک فوری طور پر برلن میں کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں پولینڈ اٹلی فرانس یوکرین اور جرمنی کے صدور شامل ہوئے اور انہوں نے باضابطہ طور پر یوکرین کی مزید مالی امداد کے اعلان کے ساتھ ساتھ یہ بھی اعلان کیا کہ ایسی کسی بھی شرط کو یورپ ماننے سے انکار کرتا ہے جس میں یوکرین کو اپنے علاقے سے دستبردار ہونا پڑے۔ اسی کانفرنس کے دوران مسٹر میرز نے صدر ٹرمپ کے ساتھ ایک ان لائن میٹنگ میں جس میں یوکرین کہ صدر زیلنسکی بھی شامل تھے صدر ٹرمپ سے یہ وعدہ لیا کہ وہ کسی ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے جس میں یوکرائن کو اپنے علاقے سے دستبردار ہونا پڑے۔ اپنے ان رویوں، کانفرنس اور اعلانیہ سے یورپ نے یہ مطالبہ امریکہ اور روس کے سامنے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں رکھ دیا ہے کہ یوکرین سمیت یورپ کو ایسا کوئی بھی معاہدہ جو ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادی میر پوٹین کے مابین طے پائے اور جس کے تحت یوکرین کو اپنے علاقوں سے دستبردار ہونا پڑے قبول نہیں ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا یہ بھی ہے کہ یورپ کے اس غیر لچکدار رویے کے نتیجے میں یورپ ایک دفعہ پھر سے جنگ عظیم دوئم کی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے جس میں دنیا کی کئی بڑی طاقتیں یورپ کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کر رہی تھیں۔ ان تمام یورپین سرگرمیوں کہ نتائج سے ایک بات واضح ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور پروٹین کے مابین نہ تو کوئی حتمی فیصلہ ہو پائے گا اور نہ ہی یوکرین اور روس کی جنگ جو کہ عرصہ تین سال سے جاری ہے بند ہو سکے گی۔ اور اس صورتحال کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا نوبل پرائز کا ملنا بھی مشکوک ہو جائے گا۔
برلن کانفرنس،یورپ کا واضح پیغام،یوکرین کی سرحدوں پر کوئی سمجھوتا نہیں، تحریر سرور غزالی
