کراچی کی ساحلی ہوا میں اکثر ایسا محسوس ہوتا کہ صدیوں سے دیکھی جانے والی خوابیدہ پروازیں، کہیں میرے انتظار میں ہیں۔ شام کی نرم روشنی میں جب میں سمندر کے کنارے پرندوں کی آزاد پرواز دیکھتی، دل میں ایک خاموش سوال گونجتا۔ کیا ہم بھی کبھی فضا کو اپنا راستہ بنا سکیں گے؟ میں جانتی تھی کہ ہوائی جہاز اور ڈرون پہلے ہی آسمان میں اپنی راہیں تلاش کر رہے ہیں، مگر کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میرے قدم چین کی زمین پر رکھے جائیں گے، اور میرے سامنے وہی خواب اڑتی ہوئی گاڑیاں، اڑن ٹیکسی نئی حقیقت کا روپ دھاریں گے اور میں ان کے آغاز کی چشم دید گواہ بنوں گی۔
یہ قصہ محض مشینوں کا نہیں، بلکہ وقت کی تیز رفتاری کا ہے۔ چین میں آج ترقی کی گھنٹیاں ہر کونے میں بجتی ہیں۔ کبھی ریل کے شور سے، کبھی برقی اسکرینوں کے ہجوم سے اور اب یہ نئی صدا فضاؤں میں اُڑتی گاڑیوں کی، جو کہانیوں کے دیو مالائی پرندوں کی مانند آسمان کو چیرتی ہیں۔
نومبر 2024 کی وہ دوپہر تھی جب میں نے بیجنگ کے ایک بڑے ایئر شو کی خبر پڑھی۔ ایک چینی کمپنی XPENG AeroHT نے اپنی “Land Aircraft Carrier” کا مظاہرہ کیا۔ میں اخبار کے صفحے پر تصویر دیکھ کر دیر تک حیران بیٹھی رہی۔ یوں لگا جیسے کسی مصور نے آدھا جہاز اور آدھی کار کو ملا کر خوابوں کے پر دے دیے ہوں۔ اس مشین نے وہاں کے لوگوں کے سامنے پرواز کی اور پھر زمین پر اتر آئی ۔ گویا انسان کے خوابوں کو پہلی بار فضا نے اپنے گلے لگا لیا۔
میرے دل نے کہا “یہ صرف ایک مظاہرہ نہیں، یہ کل کے دن کا دروازہ ہے۔”
یہ کوئی اچانک جنم لینے والا خواب نہ تھا۔ 2016 میں چین کی کمپنی EHang نے پہلی بار ایک مسافر ڈرون EHang-184 دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اُس وقت یہ محض ایک تماشہ معلوم ہوا، جیسے کوئی بچہ آسمان پر کاغذی پتنگ چھوڑ دے۔ مگر رفتہ رفتہ، محنت اور قوانین کی سرپرستی نے اس پتنگ کو آہنی پروں والی حقیقت بنا دیا۔
اکتوبر 2023 میں، چین کے ہوا بازی کے ادارے نے EHang کے EH216-S ماڈل کو عوامی پرواز کی منظوری دی۔ اور پھر مارچ 2025 میں، پہلی مرتبہ بے پائلٹ اڑان کی سرکاری اجازت مل گئی۔ یہ کوئی چھوٹا قدم نہ تھا۔ یہ تو گویا وقت کا عہد نامہ تھا کہ انسان اب پرندوں کی صف میں شامل ہو چکا ہے۔
اسی دوران AutoFlight نامی ادارے نے “Prosperity” نامی گاڑی متعارف کروائی، جس نے 2024 میں شینژین سے ژوہائی تک کا فاصلہ بیس منٹ میں طے کیا۔ وہی راستہ جو زمین پر تین گھنٹے میں مکمل ہوتا ہے۔ میں نے یہ خبر پڑھی تو کراچی کی سڑکوں کا ہجوم یاد آیا، جہاں کبھی کبھی صدر سے کلفٹن تک جانے میں ہی ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ دل نے کہا “کاش ہمارے ملک میں بھی ایسا ہو، کہ ایک شہر سے دوسرے شہر تک اُڑتے چلے جائیں۔”
چین کی یہ پروازیں ابھی عوام کی روزمرہ زندگی کا حصہ نہیں بنیں۔ XPENG کی گاڑی 2026 میں ترسیل کے لیے تیار کی جا رہی ہے۔ باقی کمپنیاں بھی اسی وقت کے آس پاس اپنے منصوبے عوام کے سامنے لانا چاہتی ہیں۔ گویا یہ خواب حقیقت کے دہانے پر کھڑا ہے، لیکن ابھی مکمل طور پر ہمارے دروازے پر دستک نہیں دیتا۔
مگر خواب کی سب سے حسین بات یہی ہے کہ وہ حقیقت بننے سے پہلے ہمارے دلوں کو مسرور کرتا ہے۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ ہمارے بچے جن کہانیوں میں جن اور پریوں کے قالین پر اُڑتے ہیں، کل کو وہ حقیقت میں اپنی اسکول کی راہ آسمان میں تلاش کریں گے۔
جب میں چین کے ان منصوبوں پر نظر ڈالتی ہوں تو دل بے اختیار کراچی کے افق کی طرف کھنچ جاتا ہے۔ ہمارے شہر کی سڑکیں، شور، اور ہجوم۔ اگر کبھی یہاں بھی آسمان پر اُڑتی ٹیکسیاں اتر آئیں تو کیا منظر ہوگا؟
ذرا سوچئے، ایک صبح میں اپنے گھر سے نکلو، اور سڑک کے ہجوم میں گم ہونے کے بجائے ایک چھوٹی سی ٹیکسی میں بیٹھ کر آسمان کی راہ پکڑ لو۔ نیچے سمندر کی لہریں، اوپر بادلوں کے کمرے، اور آپ محض چند منٹ میں دفتر یا یونیورسٹی پہنچ جاؤ۔ یہ تصور ہی دل میں عجب سکون بھر دیتا ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ اڑنے والی ٹیکسی محض سفری سہولت نہیں بلکہ تہذیبی انقلاب ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان اپنی زمین کی حدیں چھوڑ کر آسمان کی سلطنت کو اپنا نیا وطن بنانے جا رہا ہے۔
2026 وہ سال ہوگا جب چین کے کچھ شہروں میں عوام کے لیے یہ ٹیکسیاں میسر ہوں گی۔ آغاز محدود پیمانے پر ہوگا، مگر یہ ابتدا ہی دنیا کی سمت بدلنے کے لیے کافی ہے۔ کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ اگلے دس برسوں میں بڑے شہروں کی ٹریفک آسمان کی راہوں پر منتقل ہو جائے گی۔میرے دل میں ایک سوال اٹھتا ہے کیا پاکستان بھی اس کارواں میں شامل ہوگا؟ کیا کراچی کے باسی بھی کبھی ان ٹیکسیوں کے ذریعے گلشن سے ڈیفنس یا حیدرآباد تک منٹوں میں سفر کریں گے؟ وقت کا جواب شاید آنے والے برسوں میں ملے، مگر خواب دیکھنے پر تو پابندی نہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کراچی کی صبح ہمیشہ شور کے ساتھ جاگتی ہے۔ کبھی ریڑھی والوں کی صدا، کبھی رکشے کے ہارن، کبھی بسوں کی دھول، اور کبھی ساحل سے اٹھتی نمکین ہوا کی خوشبو۔ میں جب اپنے گھر کی بالکونی سے نیچے دیکھتی تو لگتا تھا کہ پورا شہر ایک ہی وقت میں بھاگنے کی کوشش میں ہے۔ وہاں کا ٹریفک ایسا ہے کہ اگر کوئی شاعر اسے نظم میں بیان کرے تو شاید بحر بھی تنگ پڑ جائے۔
بسوں کے چھتوں پر بیٹھے مسافر، رکشے کی تنگ نشستوں میں سِمٹے خاندان، موٹر سائیکل پر ایک ہی وقت میں تین نسلوں کا سفر یہ سب کراچی کی پہچان ہیں۔ ایسے میں اگر میں چین کی سڑکوں پر دوڑتی ان خاموش، برقی گاڑیوں کو دیکھوں تو ترقی کی اصل کوششیں سمجھ میں آتی ہے ۔
چین نے نہ صرف اڑن ٹیکسیاں بنائی ہیں بلکہ اپنی سڑکوں پر بھی ایک نئی دنیا بسائی ہے۔ BYD، جو کہ دنیا کی سب سے بڑی الیکٹرک کار ساز کمپنی ہے، ہر سال لاکھوں گاڑیاں بناتی ہے۔ ان کی گاڑیاں بیجنگ اور شینژین کی سڑکوں پر ایسے رواں دواں ہیں جیسے پانی کے دھارے پر کشتیاں۔ NIO اپنی پُرکشش SUV گاڑیوں کے ساتھ مشہور ہے، جو ایک کمرہ نما آرام فراہم کرتی ہیں۔ XPeng، جو اڑن ٹیکسیوں کے ساتھ ساتھ زمین پر دوڑتی برقی گاڑیوں میں بھی شہرت رکھتی ہے، اپنے جدید ڈیزائن اور خودکار ڈرائیونگ کے نظام کے لیے مشہور ہے۔
پھر ہے SAIC Motor، جو MG کے برانڈ کے تحت پاکستان میں بھی اپنی گاڑیاں بیچتا ہے۔ یہ وہی کمپنی ہے جس کی MG HS اور MG ZS کراس اوور گاڑیاں آج کراچی کی سڑکوں پر دوڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ کبھی کلفٹن کے کشادہ راستے پر، تو کبھی یونیورسٹی روڈ کے ہجوم میں۔
پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی راہیں محض کاغذی نہیں رہیں۔ آج چین سے گاڑیوں کی درآمد نے پاکستان کے بازاروں میں ایک نئی چمک پیدا کر دی ہے۔ MG، DFSK (Glory 580)، Changan (Alsvin، Oshan X7) اور BYD جیسے نام اب عام لوگوں کے کانوں میں گونجنے لگے ہیں۔
کراچی کی بندرگاہ پر جب چینی کنٹینر آتے ہیں تو ان میں کبھی کھلونے ہوتے ہیں، کبھی موبائل فون، اور اب اکثر برقی یا پٹرول پر چلنے والی گاڑیاں بھی۔ یہ گاڑیاں جب شو رومز میں سجی نظر آتی ہیں تو نوجوان نسل ان کے گرد یوں جمع ہوتی ہے جیسے پرانے وقتوں میں گھوڑوں کے میلوں میں لوگ جاکر اپنے خواب چُنا کرتے تھے۔
بندرگاہ کی بھیڑ بھاڑ سے نکل کر جب یہی کنٹینر شمال کی برفانی راہوں پر دکھائی دیتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے سمندر اور پہاڑ ایک ہی خواب کو اپنے اپنے انداز میں جیتے ہیں
شاہراہِ قراقرم کے سنہری پیچ و خم سے گزرتے ہوئے، برف پوش چوٹیوں کے دامن میں ایک نیا منظر ابھرتا ہے۔ اونٹوں اور گھوڑوں کے پرانے قافلے تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب انہی راستوں پر ایک نیا قافلہ ہے ۔ چمچماتی چینی گاڑیوں کے کنٹینر، جو خاموشی سے پاکستان کی سمت بڑھتے چلے آتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے صدیوں پرانی تجارت نے اپنی شکل بدل لی ہے، ریشم کے گٹھڑوں کی جگہ اب لوہے اور شیشے کے خواب سفر کرتے ہیں۔
یہ گاڑیاں چین کی فیکٹریوں میں تیار ہو کر دو بڑے راستوں سے پاکستان آتی ہیں۔ ایک راستہ خنجراب پاس کا ہے، جہاں برفانی ہوا کے دوش پر نئے دور کی مشینیں سانس لیتی ہیں۔ دوسرا راستہ سمندر کا ہے، جو کراچی کی بندرگاہ پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ وہاں سے یہ گاڑیاں ملک کے ہر شہر میں بکھر جاتی ہیں۔ اسلام آباد کے کشادہ ایونیو ہوں یا لاہور و کراچی کی بھاگتی سڑکیں، سب ان کی منزل ہیں۔
چین کی کار ساز کمپنیاں اب پاکستانی خریداروں کے لیے اجنبی نام نہیں رہیں۔ MG، Changan، Haval اور BAIC جیسے برانڈ آج بازاروں میں عام ہیں۔ ان میں SUVs کی جلالی قامت بھی ہے، سیڈان کی نرمی بھی، اور برقی گاڑیوں (Electric Vehicles) کی نئی امید بھی۔ یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ دو ملکوں کی دوستی محض الفاظ میں نہیں، سڑکوں اور منڈیوں میں بھی دھڑکتی ہے۔
تجارت کا رشتہ صرف گاڑیوں تک محدود نہیں۔ چین پاکستان کو پرزے اور آلات بھیجتا ہے اور جواب میں پاکستان اپنی ٹیکسٹائل اور خام مال بیجنگ اور شنگھائی کے بازاروں تک پہنچاتا ہے۔ یوں یہ لین دین صرف سرمایہ کا نہیں بلکہ بھروسے اور رشتوں کا بھی ہے۔
اگر کوئی شخص اسی سفر میں شامل ہونا چاہے تو اس کے لیے بھی راستہ کھلا ہے، مگر یہ راستہ ہمت اور سمجھ بوجھ مانگتا ہے۔ سب سے پہلے چین کی کسی کمپنی یا ڈیلر سے معاہدہ کرنا ہوگا۔ پھر پاکستان کی درآمدی پالیسی اور کسٹم ڈیوٹی کو سمجھنا ہوگا، جو ہر گاڑی پر الگ الگ لاگو ہوتی ہیں۔ اس کے بعد کراچی کی بندرگاہ یا خنجراب پاس سے گاڑی کی کلیئرنس کر کے مقامی منڈی تک لانی ہوتی ہے۔ یہ مرحلے آسان نہیں، مگر مستقل مزاجی اور سرمایہ انہیں ممکن بنا دیتے ہیں۔
یوں شاہراہِ قراقرم اور سمندر کی لہریں آج بھی وہی پرانا کام کر رہی ہیں۔ قافلے لانے اور قافلے لے جانے کا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب قافلے کے شتر اور گھوڑے بدل گئے ہیں۔ اب ان کی جگہ نئی گاڑیاں ہیں جو پہیوں پر دوستی، تجارت اور ترقی کا پیغام لیے پاکستان کی زمین پر اترتی ہیں۔
یہ منظر صرف تجارت کا نہیں، وقت کی رفتار کا استعارہ بھی ہے۔ پہاڑوں کے سائے اور سمندر کی ہوا کے بیچ دو ملکوں کے خواب ایک دوسرے سے جڑتے ہیں، اور آنے والا کل ان خوابوں کی تعبیر کا وعدہ کرتا ہے۔
وقت کے چلتے قدم، چاہے وہ پہاڑوں کی خاموشی میں ہوں یا شہر کی صبح کی دھند میں، ایک ہی داستان سناتے ہیں۔خواب اور حقیقت کا ملاپ، زمین اور آسمان دونوں میں جاری ہے۔
جب میں صبح کی دھند میں شینژین کی کسی بلند عمارت کی چھت پر کھڑی ہوتی ہوں، تو نیچے سڑکوں کی ہجوم بھری دنیا نظر آتی ہے۔ ٹریفک لائٹس کے انتظار میں رکشے، الیکٹرک بسیں، اور موٹر سائیکلیں، ساتھ ہی پیدل چلتے لوگ، سب ایک عجیب سی سمفنی بناتے ہیں۔ بلند و بالا فلک بوس عمارتیں، روشن بلب، اور بیجنگ کی روشنیوں کے درمیان یہ شور اور ہلچل ایک منفرد زندگی کا احساس دلاتی ہے۔ میں سوچتی ہوں، اگر کل یہ سفر آسمان کی طرف منتقل ہو جائے، اور اڑن ٹیکسیوں کی قطاریں فضا میں چلیں، تو کیا یہ منظر پرسکون ہوگا یا پھر ہوا میں بھی شور اور بھاگ دوڑ بڑھ جائے گی؟
دنیا کے کئی ممالک اب مل کر آسمان پر انسان کی راہیں ہموار کرنے کی
کوشش کر رہے ہیں۔ امریکہ میں Joby اور Archer کے ماڈل شہری ایئر ٹیکسی کے لیے تجرباتی پروازیں کر رہے ہیں۔ یورپ کی Volocopter اور Lilium کمپنیوں نے چھتوں اور عمارتوں کے درمیان vertiport بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ جاپان اور جنوبی کوریا اپنی حکومت کے منصوبوں کے تحت شہری فلائٹس کی تیاری میں مصروف ہیں۔ دبئی اور ابو ظہبی نے اپنے آسمان کے افق کو ایک نیا نقشہ دینے کی ٹھانی ہے۔ میں جب ان خبروں کو پڑھتی ہوں تو دل میں
خوشی بھی ہوتی ہے اور ایک ہلکی سی فکرمندی بھی۔
یہ خوشی اس لیے کہ انسان کی چاہت اور محنت ایک ساتھ چل رہی ہے۔ ہر ملک ایک دوسرے کے تجربے سے سیکھ رہا ہے، قوانین بنا رہا ہے، اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون کر رہا ہے۔ مگر فکرمندی اس لیے کہ کیا یہ آسمان بھی زمین کی طرح رش اور آلودگی کا شکار نہ ہو جائے؟ کیا ٹیکسیوں کے پہیے، propellers، اور برقی توانائی کے شور سے وہ پرسکون نیلا آسمان جو بچپن میں مجھے پرندوں کے ساتھ جھولوں پر دیکھا تھا، تبدیل ہو جائے گا؟
میں تصور کرتی ہوں، اگر کل کے آسمان میں ایک شہر کے اوپر سو ٹیکسیز بادلوں کی طرح اڑتی ہوں، تو وہ منظر کیسا ہوگا۔ کیا ہوا میں بھی ٹریفک جام ہوگا؟ کیا برقی شور اور روشنیوں کی گھن گرج، زمین کے شور کے ساتھ مل کر ایک نئی افراتفری پیدا کرے گی؟
چین اس میدان میں سب سے آگے ہے، مگر وہ بھی عالمی تعاون میں شریک ہے۔ مختلف ممالک کے ماہرین تجربے بانٹ رہے ہیں، قوانین پر مشورے دے رہے ہیں، اور شہری فضاؤں کے لیے safety protocols مرتب کر رہے ہیں۔ یہ سب انسان کی مشترکہ کوشش ہے کہ آسمان کی آزادی زمین کی ناہمواری اور قید سے الگ ہو۔
دل میں خیال آتا ہے کہ شاید یہی انسانی تاریخ کا نیا سفر ہے۔ جیسے صدیوں پہلے ریل اور کار نے زمین پر نئی راہیں بنائیں، ویسے ہی آج یہ اڑتی ہوئی ٹیکسیز آسمان میں ایک نئی تہذیب کے نقوش چھوڑ رہی ہیں۔ مگر یہ تہذیب ذمہ داری کے بغیر ادھوری ہے۔ آسمان کی آزادی کے ساتھ ہمیں اس کی حفاظت بھی سیکھنی ہوگی۔
میں چھت پر کھڑی، افق کی طرف دیکھ کر سوچتی ہوں کہ کل کے بچے، جو آج کہانیوں میں پرندوں کے ساتھ اڑتے ہیں، وہ یہ نیا سفر حقیقت میں دیکھیں گے۔ اور وہ بھی شاید اسی طرح حیران رہ جائیں، جس طرح میں آج ان خبروں کو پڑھ کر دل کی دھڑکن تیز ہوتی محسوس کر رہی ہوں۔
پرواز کا خواب ۔ چین کی اُڑنے والی ٹیکسیاں…..ارم زہراء ۔ چین
