پیرس, لندن، نیویارک، اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، ناٹو، ڈالرز، اور یورو وغیرہ وغیرہ یہی وہ کچھ ایسی اصلاحات ہیں جن سے دنیا اب سے کچھ عرصے پہلے تک واقف رہی ہے۔ گو کہ دینا چین اور روسی آہنی پردے، کمیونسٹ بلاک وغیرہ سے بھی آشنا رہ چکی ہے مگر برائے نام ہی۔ اور ہماری بات اس وقت تک کی ہے۔ جب دنیا کا پرانا نظام ٹوٹ چکا تھا اور جب سے دنیا پہ مغربی ممالک بلا شرکت غیر جیو پالیٹکس کے سیاہ و سفید کے مالک سمجھے جارہے تھے۔ بلکہ اس سے پہلے دنیا کی پہچان انہیں اوپر متذکرہ اصلاحات کو سمجھا جاتا رہا ہے۔ دنیا ایک پھر سے چول بدل رہی ہے۔ ورلڈ آڈر کے بدلتےاس دور میں۔ ان اصطلاحات کی جگہ پیکنگ، شنگھائی، تیانجن، ماسکو دہلی، برکس اتحاد اور ایس سی او، شنگھائی سبمٹ کانفرنس وغیرہ لے رہی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اپنے اضافی تجارتی ٹیکس کی وجہ سے ساری دنیا کی ناراضگی مول لے رہا ہے اور اس کے اپنے صدر کی غیر سنجیدہ پالیسی سے مغربی دنیا مختلف بلاکس میں بٹ رہی ہے۔ یوکرائن کی جنگ اور اسرائیلی جارہیت دنیا میں بے چینی ہلچل اور مغربی معاشی نظام سے خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگی ہے، اس دور میں چین تیزی کے ساتھ دنیا کے دیگر ممالک جن میں روس اور ہندوستان سب سے اہم معاشی اور فوجی قوت کے حامل ہیں، ان کے ساتھ مل کر دنیا کے دیگر ممالک جن میں پاکستان ایران اور سینٹرل ایشیا اور فار ایسٹ کے ممالک کے ساتھ ساتھ یورپ سے بیلاروس جیسے ممالک کے مابین اپنے تعاون کو بڑھاتے ہوئے انہیں ایک کے بعد دوسرے پلیٹ فارم پہ جمع کر رہا ہے۔
اس شنگائی کانفرنس میں، جو 30 اگست 2025 سے چین میں منعقد ہوئی۔ جسے ایس سی او کا نام دیا گیا ہے جس میں بیشتر یورپی ممالک اور امریکہ کی شرکت کے بغیر دنیا کے اہم مسائل پر بات چیت ہو رہی ہے، تجارت اور دفاعی مسائل زیر بحث آئے ہیں۔ وہاں یورپی ممالک اور امریکہ صرف محو تماشہ ہیں۔ اور اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی اہمیت کو دن بدن کم تر ہوتا محسوس کر رہے ہیں۔ معاشی طور پر امریکہ اور یورپی ممالک اس وقت ایشیا میں بڑھتی قوتوں اور وہاں کے قدرتی ذخائر کے استعمال کے نئے زاویوں پر نہ صرف پریشان نظر اتے ہیں بلکہ انہیں کوئی راستہ بھی نہیں سجھائی دے رہا ہے۔
امریکہ اور یورپی ممالک بذات خود اپنے اندرونی مسائل سے گھرے ہوئے ہیں اور اسرائیلی جارہیت اور یوکرینی جنگ کی وجہ سے ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے نظر آرہے ہیں۔ چونکہ امریکہ فوری طور پر یوکرین کی جنگ بند کروانا چاہتا ہے جس پر یورپین یونین کے ممالک بالخصوص جرمنی اور فرانس تیار نظر نہیں آتے دوسری جانب اسرائیلی جارہیت کو روکنے کے سلسلے میں کی جانے والی یورپین یونین کی کوششوں سے امریکہ متفق نہیں ہے اور وہ انکھ بند کر کے اسرائیلی حمایت میں الگ کھڑا ہے۔
چین اور روس اور بھارت دنیا میں بدلتے نظام کو نہ صرف بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں بلکہ ایسے اقدامات بھی کر رہے ہیں جس سے وہ مستقبل میں دنیا کی نئے ترتیب میں اپنے کردار کو بھر پور ادا کر سکیں۔
کانفرنس کے آغاز پر روس کے صدر بلادیمیئر پوٹین نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد اور باتوں کے علاوہ یہ بھی ہے کہ موجودہ دور میں دنیا کو پیش نظر مختلف خطرات اور چیلنجز کاجواب دیا جائے تاکہ ایک منصفانہ اور ملٹی پول ولڈ آڈر کا اجراء کیا جاسکے۔
کانفرنس میزبان چینی رہنما زی نے کانفرنس آغاز پر اپنے رویےسے ، ایک ورلڈ نیو ارڈر کا تصور بغیر امریکی اور یورپی ممالک کے، پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ کانفرنس دراصل ناٹو کے بالمقابل، ان ممالک کے گٹھ جوڑ سے ایک نئے طاقت کے توازن کی بنیاد رکھنا ہے۔
کیونکہ تیا نجن چین کا وہ پورٹ سٹی ہے جو کبھی چینی تسلط سے باہر تھا اور اب وہیں ایک ایسی کانفرنس جس میں صرف معاشی نہیں بلکہ دفاعی اہداف طے کیے جا رہے ہیں ایک ایسی کانفرنس کر کے دنیا کو ایک نیا پیغام دیا جارہا ہے۔
اس کانفرنس کا مقصد ایسے راستے تلاش کرنے ہیں جو امریکہ اور یورپی ممالک کے طے کردہ ورلڈ ارڈر کا متبادل ہو۔ یہاں
بیل اینڈ روڈ، نامی اصطلاحات کا کثرت سے استعمال ہورہا ہے۔ یہ ایک شاہراہ ریشم کے ذریعے نئے تجارتی اہداف طے کیے جا رہے ہیں۔
یورپین یونین اور امریکہ اس نئے 26 ممالک اور دنیا کی نصف آبادی کے نئے گٹھ جوڑ پر متفکر ہیں۔ شاید تہذیبی عروج و زوال کی کہانی کا نیا باب رقم ہورہا ہے۔
تیانجن میں ایس سی او کانفرنس پر یورپی یونین کے تحفظات تحریر سرور غزالی
