کراچی پریس کلب کے سابق سیکریٹری ولی رضوی کی موت کیسے ہوئی؟..آغاخالد

ولی رضوی (مرحوم) کراچی کا ایک اہم صحافی جس کی سوشل لائف بہت شاندار تھی اور اپنے ہم پیشہ طبقہ کے علاوہ بھی مقبول عام شخصیت کے مالک تھے مگر ان کی ذاتی زندگی کرب ناک اور موت بہت ہی درد ناک تھی، یہ چند برس پرانی بات ہے علی الصبح اہم صحافی رہنما کی کال مسلسل آرہی تھی یہ وقت گھری نیند کا ہوتاہے اس لیے پہلے تو نظر انداز کیا اور کروٹ بدل کر سونے کی کوشش کی مگر گھنٹی لگا تار بجنے پر نہ چاہتے ہوے بھی فون اٹھا لیا لائین کے دوسری طرف خورشید عباسی تھے ان کی آواز سے خلاف توقع تشویش عیاں تھی، مجھ سے مخاطب ہوتے ہی بولے یار ایک جاننے والے کا فون آیاہے کہ رہا ہے ہماری بلڈنگ میں ایک فو تگی ہوئی ہے اس کی جیب سے پریس کلب کا کارڈ نکلا ہے اور اس پر نام علی رضوی لکھاہے اس نے کہا مینے اس لیے آپ کو اس وقت زحمت دی کہ اگر آپ انہیں جانتے ہیں تو ان کے کسی عزیز کے نمبر پر اطلاع کردیں پھر خور شید مجھ سے مخاطب ہوکر بولے، کیا تمھارے پاس کوئی رابطہ نمبر ہے ان کے کسی عزیز کا، مینے کہا میرے پاس تو علی رضوی کا نمبر نہیں نہ ہی میری ان سے کوئی قربت تھی بس پریس کلب میں ایک دوسرے کو دور دور سے دیکھتے رہتے تھے بہر حال اگر ایسی صورت حال ہے تو ہم کیوں نہ چل کر انہیں سنبھالیں باقی رابطے تو دن میں دیکھ لیں گے اس طرح میں جوہر موڑ سے متصل امام بارگاہ والی گلی میں پہنچا تو خوشید پہلے سے منتظر تھے ہم جونہی بلڈنگ کی پہلی یا غالبا دوسری منزل پر پہنچے تو بہت ہی درد ناک منظر دیکھا علی رضوی فلیٹ کے مرکزی دروازے کے بیچ ایسے اوندھے پڑے تھے کہ ان کا آدھا دھڑ دروازے سے باہر تھا شاید انہیں دل کا دورہ پڑا تو مدد کے لیے انہوں نے باہر نکلنے کی کوشش کی مگر اجل نے انہیں اس حد تک ہی مہلت دی اہل محلہ کی مدد سے ہم نے ان کی میت کو سیدھا کیا اور پھر اٹھاکر بستر پر لٹانا چاہتے تھے کہ ایمبو لینس آگئی شاید محلے والوں نے پہلے ہی انہیں فون کردیا ہوگا رضاکاروں نے میت کو اسٹریچر پر ڈالا اور پوچھنے لگے کہاں پہنچانا ہے جس پر مینے اہل محلہ سے کہا کہ ہم میت کو ایدھی ہوم لے جاتے ہیں آپ لوگ گھر پر تالا ڈال دیں اور مرحوم کے فون پر کوئی بھی کال آئے تو اس کے ذریعے ولی بھائی کے لواحقین تک پہنچنے کی کوشش کریں ہم بھی صبح ہوتے ہی رابطے کریں گے تو ان کے اہل محلہ نے جو تین یا چار افراد پر مشتمل تھے فون اور بٹوا کی ذمہ داری لینے سے انکار کریا اور مرحوم کے فلیٹ پر تالا ڈال کر چابی بھی خورشید عباسی کے حوالے کردی جس پر خورشید نے بٹوا کھول کر سب کے سامنے تلاشی لی تو اس میں سے 1000 یا پندرہ سو ہی برآمد ہوے اس کے علاوہ شناختی کارڈ اور کچھ پریس کارڈ دو تین دھوبی کی پرچیاں نکلیں یوں ہم نے میت ایدھی ہوم میں جمع کرواکر پرچی بنوائی اور اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے انہی دنوں میری بیٹی اسپتال میں داخل تھی اس لیے جنازے میں شرکت نہ کرسکا تاہم دو تین روز بعد خورشید سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اگلی صبح ایک خاتون کا فون آیا تو مینے اسے بتایا پہلے تو اسے یقین نہیں آرہا تھا وہ رونے اور چیخنے لگی مگر میرے دلاسہ دینے پر وہ کچھ سنبھلی اور بولی میں ان کی فیملی فرینڈ ہوں ان کے بیٹے یا داماد کو اطلاع کرتی ہوں اسی خاتون نے خورشید عباسی کو بتایا کہ مرحوم کی کافی عرصہ قبل اہلیہ سے علیحدگی ہوگئی تھی ان کے 2 بچے ہیں بیٹا اور بیٹی اور دونوں کی شادیاں ہوچکی ہیں اور دونوں خوش وخرم زندگی گزار رہے ہیں مرحوم کا یہ چھوٹا سا فلیٹ ان کی ذاتی ملکیت تھی یہ بھی حیرت کی بات تھی کہ امام بارگاہ کی وجہ سے اس گلی میں کسی غیر شیعہ کو جائداد خریدنے یا رہنے کی اجازت نہیں تھی مگر مرحوم سنی العقیدہ ہونے کے باوجود شاید رضوی کا دم چھلہ لگا ہونے کی وجہ سے محفوظ علاقہ میں فلیٹ لینے میں کامیاب ہوے بہر صورت خاتون کی مدد سے ان کے بیٹے سے رابطہ ہوا اور عباسی نے بتایا کہ بیٹے کا رویہ اور انداز اچھا نہیں لگا مگر مرحوم ساتھی کا بیٹا تھا اسے فلیٹ پر جانے کی جلدی تھی اس لیے محلے کے دو بندوں کو بلاکر چابی بٹوا اور موبائل اس کے حوالے کیا اور میت کی رسید بھی جبکہ بعد ازاں جنازہ میں شرکت کرنے والوں نے مرحوم ولی رضوی کے داماد کی بہت تعریف کی، یوں مقبول عوامی صحافی کی شاندار زندگی کے آخری دکھوں سے لبریز سالوں کی کہانی کا اختتام ہوا، اللہ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے (آمین)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں